ہفتہ، 10 اگست، 2013
عیدمبارک!...... بس ایک غم اورایک فکر
تحریر: یوسف شاہ
اللہ سبحانہ تعالی پرایمان اور اللہ کے احکامات کے سامنے مکمل تفویض ہوتوجہاں زندگی
دائمی کامیابی وکامرانی کی تمہیدبن جاتی
ہے ،وہاں دنیامیں گزرنے والاہرلمحہ اورہرساعت مؤمن
کے لئے باعثِ رحمت ونعمت اورسبب ِاجروانعام
ثابت ہوتی ہے ۔ یہ لمحات تنگی ،غم اورمصیبت کے ہوں یافراخی ،سکون اورخوشی
کے ……صابراورشاکرمؤمن کے لئے نفع ہی نفع ،رب سے قربت کاوسیلہ اوردرجات کی بلندی
کاذریعہ ہوتے ہیں!جبکہ توحیداورعمل ِصالح سے محروم شخص کے لئے مصائب
ومسائل توہوتے ہی عذاب ہیں۔۔۔خوشی اور
راحت کی وہ ساعات
بھی اس کے لئے بوجھ اورباعث ِپکڑہوتی ہیں جن کے حصول کووہ
مقصدزندگی سے تعبیرکرتاہے ! "لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيم"۔
مومن کے لئےتواصل خوشی ہی یہ ہے کہ اللہ اسے اپنی رضا کے رستے پرڈالے ،ذلت
،ناکامی و نامرادی کی اتھاہ گہرائیوں سے بچاتے ہوئے دائمی کامیابی کی راہ اسے دکھادے اوراس راہ ِپرخطرپرچلنے
کی توفیق بھی اسے بخش دے ……یہی اس کے لئے
حقیقی عیدہے !دنیاوی عید کی یہی حقیقی روح ہے ! دوسری طرف ان عظیم نعمتوں سے محروم شخص کے لئے نئے
کپڑے پہن کر،دنیاوی اورمادی نعمتوں کی
فراوانیوں کے بیچ اعزہ واقارب کے
ساتھ خوشی منانے کانام عید نہیں ہے ،کہ اُس
جسم کی خوبصورتی اور صحت کاکیافائدہ جوروح ہی سے محروم ہو، اس لئے توتوحیدپرجمے رہنااوراللہ کے رستے پرثبات ہی اصل
عیدہے !
فليس العيد لمن لبس
الجديد... ولكن العيد لمن صدع بالتوحيد...
فليس العيد لمن لبس
الجديد... ولكن العيد لمن كفر بالشرك والتنديد...
فليس العيد لمن لبس
الجديد... ولكن العيد لمن جاهد أولياء الشرك والتنديد...
[ شیخ زرقاویؒ[
"نئے کپڑے پہننے کانام عیدنہیں ۔۔۔۔۔بلکہ توحیدکے ساتھ چمٹ کررہنے
کانام عیدہے
نئے کپڑے پہننے کانام عیدنہیں ۔۔۔۔۔بلکہ شر ک اورظلم کے انکار کانام
عیدہے
نئے کپڑے پہننے کانام عیدنہیں ۔۔۔۔۔بلکہ شرک اورظلم کے علمبرداروں کے خلاف جہاد کرنے
کانام عیدہے "
اس سعادت کے ساتھ پھرجب عید کاوہ دن آئے جوہمارے رب نے ہمیں
دیا ہی خوشی کے لئے ،مل جل
کررب کی نعمتوں پرشکراداکرنے کے لئے اوررب
کی عبادت میں اتحادویگانگت دکھانے کے لئے ……تواس دن خوشیاں دوبالاہوجاتی ہیں ،فانی
دنیاکی فانی خوشیاں بھی لافانی ثابت ہوجاتی ہیں،کہ مومنین یہ خوشیاں بھی عبادت سمجھ کر مناتے ہیں ،اور یوں عبادت کے صلے میںدائمی اجتماعی خوشی
یعنی جنت کے لئے شوق اورتڑپ بھی دلوں میں
ٹھاٹھے مارنا شروع کرتا ہے !ان کی ہرعید،ہرخوشی اورہرلمحہ……دائمی عید،ہمیشہ کی خوشی اور مستقل زندگی کے حصول کے لئے تڑپ پیداکرنے والی ہوتی ہے ۔دنیاکی نعمتیں اورخوشیاں
دیکھ کر دنیاکی بھول بھلیوں میں کھونے والے نہیں بلکہ رب کاشکر اداکرنے
والے اوردل سے "اللهم لاعيش إلا عيش الآخرة " کہنے والے ہوتے ہیں۔
عیدسعیدکے آنے پراپنے اُن تمام بھائیوں اوربہنوں کومبارک باد کہتاہوں ،جورب کی
رضاکے کھٹن رستے کواپنی زندگی کالائحہ بنائے
ہوئے ہیں ۔ماناکہ دنیامیں آپ اجنبی بن گئے
ہیں ، اپنے گھروں اوراقارب سے بہت دور چل آئے ہیں ،خوف ،بھوک اوردربدری کا بھی سامنا
ہوتاہے ،جگرگوشوں ،محبوب ہستیوں کا فراق،ان کے بہت دورجانے کے گہرے زخم بھی
دلوں پرسجائے ہوئے ہوں ۔کفرکی کال
کوٹھڑیوں میں سسکنے والے محبوب بھائیوں کے
باعث آپ کے دل دکھی ہیں……کچھ زیادہ ہی اجنبیت
ہے نا؟……کہ جاننے والے بھی پہچاننے سے معذرت کرنے لگے ہیں ……دنیا ملامت کرنے
کاکوئی موقع نہیں چھوڑرہی ……مارنے ،فناکرنے کی دھمکیاں سنناتوروزکامعمول بن گیا ہے……موت کی ننگی تلوار ہروقت سروں پرمنڈلارہی ہے ……کس
قدربے کسی اوراجنبیت ہے !مگریقین جانئے اس
سارے کے باوجوداصل عیدآپکی عیدہے……خوشی منانے کے حق دار ہیں توآپ ……"
فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِه"……اس لئے کہ یہ سب دکھ،سارے زخم رب
کو حقیقت میں رب ماننے اوراس کے حکم پراس کے رستے میں نکلنے
کانتیجہ ہیں۔ اللہ کے سواتمام بڑوں کی بڑائی اورخدائی سے انکار اور اللہ کی
الوہیت وحاکمیت کے اقرارکی یہ قیمت ہے!اورجب دنیامیں کھلی
آنکھوں کے ساتھ ،شعوراً یہ سوداہم نے کرہی
لیاہے تو پھر آخرت کے دن اس کے بدلے میں ملنے
والی قیمت کاکیاکہنا……مبارک ہو……واللہ مبارک ہو،یہ سودامبارک ہو……!ہردن اورہرلمحہ
مبارک ہو………عیدمبارک ہو……جزاء کا وقت دورنہیں ،قریب ہی توہے ۔جنت توجوتے کے تسمے سے
بھی زیادہ قریب ہے……اس جنت کی خوشخبری
مبارک ہو۔ہرفکرسے بے فکراورہرغم سے بے غم ہوکر خوشی منائیں……خود خوشیاں
منائیں اوردوسروں میں خوشیاں بانٹیے……"بشروا!"……
ہاں !بس ایسے میں ایک غم اورایک فکراپنے سینے سے جدانہ کردیجئےگا……یہ ایک غم اوریہ واحدفکرآپکے دل دُکھائے ،جسم گھُلائے ،روح تڑپائے ،راتوں کی
نیندیں اُڑائے تویہ خوشی ہے، خوش بختی
اورسعادت ہے ……کہ یہ غم اوریہ فکر سارے غموں اورتمام فکروں سے نجات کی ضامن ہے……اور وہ ہے ،آخرت کی فکر،اپنے دین کاغم ۔حدیث مبارکہ ہے
:
« من جعل الهموم هما واحدا (هم المعاد)
كفاه الله هم الدنيا ، ومن تشعبت به الهموم (هموم الدنيا) لم يبال الله تبارك وتعالى في أي أوديتها هلك »مسند
بيزار
[جس نے آخرت کاغم اپنااصل غم بنادیا ،اللہ اس کے دنیاوی غموں کے لئے کافی
ہوگیا،اورجس نے اس غم کے ساتھ دنیاوی غموں
کوملادیا،اللہ کواس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوا۔]
یہ غم کہ ہم اپنے ایمان کے اس دعوے میں کس قدرسچے ہیں ،رب کی رضا حاصل کرنے
میں کتنے کھرے ہیں ،اس غم وفکرپرمشتمل محاسبہ کی ضرورت ہروقت رہتی
ہے اورزندگی کے تمام ضروریات کی نسبت یہ ضرورت سب سے اشد ہے ۔اس محاسبہ کے
لئے کوئی لمحہ کوئی دن بھی بہانہ بن جائے،سعادت ہے ……اورایسے بہانوں کی تو ہمیں تلاش
ہونی چاہیے……!کیارب کی محبت اوررب کی رضاکے مقابلے میں بیوی ،والدین ،بچوں اورحتی
کہ اپنے نفس کی محبت رکاوٹ تونہیں بن رہی؟دنیاکی کوئی محبت ،کوئی رشتہ،کوئی
راحت ،میرے رب کے رستے میں نکلنے اوراس
میں مکمل طورپرفناہوجانے کی راہ میں
اگرحائل ہے تومیں اپنے اُس عظیم رب کے سامنے کھڑا ہو کرکیامنہ دکھاوں گا؟ وہ رب جو " يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِه"[آدمی اوراس کے درمیان حائل ہے ]……اور جو"
عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُور"[سینوں کے رازوں پرعالم ]ہے!
جُملہ خواہشات کاشریعت کے تابع کرناایمان کی بنیادی نشانی ہے ۔آئیے اپنے گریبان میں
جھانکتے ہیں ،میں شریعت کواپنی خواہشات کے تابع کرنے جیسے جرم عظیم کامرتکب تونہیں
ہورہا؟ ذرا دوسرا پرچہ،دوسری کسوٹی بھی
اٹھائیے……ایک دل میں رب کی محبت وعظمت اوراس کے دشمنوں کی محبت ،دشمنوں کااحترام کبھی یکجا نہیں
ہوسکتے۔اسی طرح رب کی محبت اوررب کے بندوں ،مؤمنین سے بَیراورنفرت بھی ناممکن ہے
کہ ایکدل میں جمع ہو جائے، ایک سینے میں یہ "مجموعہء اضداد" پایا
جائے۔مؤمن تومؤمن کے لئے رحیم ہوتاہے……"
رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ"۔ مؤمن کے سامنے سینہ تان کراپنی بڑائی وبرتری نہیں جتاتا
بلکہ دوسرے کو اپنے سے بہترسمجھتے ہوئے اس کے سامنے کندھے جھکاتاہے ……" أَذِلَّةٍ
عَلَى الْمُؤْمِنِينَ " ہوتاہے ………غصہ
پینے والا "وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ"………مؤمن کی غلطی پرمعاف کرنے والا"وَالْعَافِينَ
عَنِ النَّاسِ "…… بلکہ احسان
کرنے والاہوتاہے ۔ دیکھیے کہ کیامیری
شخصیت مؤمن کے ان بنیادی اوصاف سے مزین ہے ؟کیااللہ کے دشمنوں سے مجھے نفرت ہے ؟ ان کی بودوباش ،تہذیب
اور تعلیم سے مجھے عداوت ہے ؟کیا میری زبان اورہاتھوں سے مؤمنین کوکوئی خطرہ تو نہیں؟ کیا مؤمن کی غیرموجودگی
میں اس کی عزت مجھ سے محفوظ ہے؟یا مجھے نعوذ باللہ اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے
کی چاٹ لگ گئی ہے ؟مؤمن تو
مِفْتَاحًا لِلْخَيْرِ مِغْلاَقًا لِلشَّر[خیرکی کنجی اورشرکے لئے تالا]ہوتاہے
۔کیامیں بھی خیرکی چابی ہوں؟ کہ جہاں رہوں
خیرکی بات کرنے،اورخیرپھیلانے والا "مُصلح
" ہی رہوں اورشرکوروکنے والا تالاہی ثابت ہوں؟میری باتیں اللہ کے رستے سے لوگوں
کومتنفرکرنے والی تونہیں؟مؤمنین کے اندربے چینی بڑھانے والی باتیں اورمسلمانوں کے
کرداروں کوگرانے والی تونہیں ؟ مؤمن کی زندگی نہ بے مقصدیت
کاشکارہوتی ہے اورنہ پست مقصدیت سے تعبیرہوتی ہے۔ کیامیراعلم ،قول
اورعمل للٰہیت جیسے عظیم مقصدکے
گردگھومتے ہیں یا دنیاجیسی ذلیل جگہ میں
چاردن کی زندگی کے اندرمال وجاہ کمانا ان کامقصد ہے؟یہ محاسبہ کرنا اس سے پہلے کہ ہمارامحاسبہ ہوجائے ہم
پرلازم ہے ۔اوراس محاسبہ کے نتیجہ میں
ہمارے دل کی دنیاصالح بن جائے تواس سے بڑھ کرخوشی اوربرکت والی عید کیاہوسکتی ہے؟ آئیے عیدکے دن اس حقیقی عید کے حصول کے لئے سب مل جل کرکوشش کرتے
ہیں۔اس دن ہم حقیقی خوشی منانے اوردائمی
خوشی حاصل کرنے کی اس سعی میں ایک دوسرے
کاتعاون کرتے ہیں،سارے غم چھوڑنے اورایک غم گلے لگانے کاتہیہ کرتے ہیں ۔ایساہواتوہماری
ہرعیدمبارک ہوگی ……اورعیدکیا،زندگی کاہرلمحہ
عیداورمبارک ہوگا ،انشاء اللہ ۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “عیدمبارک!...... بس ایک غم اورایک فکر”
ایک تبصرہ شائع کریں