اتوار، 26 نومبر، 2017

مجاہدِ عزیم

انسان نہایت ضعیف ہے، نہایت ہی کمزور۔ اللہ نے انسان کو ضعیف ہی پیدا فرمایا ہے اور پھر اس کے ضعف کو تقویت بخشنے کا بہت سا سامان بھی فراہم کیا ہے۔ انسان کی انہی کمزوریوں میں سے ایک محبوب لوگوں کی جدائی بھی ہے۔ میں اسی ضعف کے باعث دِلِ مضمحل کو سنبھالنےکی کوشش میں مگن تھا، مگر کوئی فائدہ نہ ہو رہا تھا۔ ایسے میں ربِّ کریم نے ایک جانب توجہ کروائی۔ ذہن میں یہ آیتِ قرآنی گونجنے لگی: انّا للہ و انّا الیہ راجعون۔یہ آیت مقوی ہے ، انسانی ضعف کو اس سے بہت تقویت ملتی ہے۔ ذرا غور تو کیجیے، اپنائیت محسوس کیجیے، دل میں اس آیت کا معنیٰ و مفہوم آخری تہہ تک اتارنے کی کوشش کیجیے۔ یہ انداز دیکھیے: انّا للہ۔۔۔ بلا شبہ ہم اللہ ہی کے ہیں۔ سبحان اللہ۔۔۔ جب ’’ہم اللہ ہی کے ہیں ‘‘ کا احساس جا گزیں ہو گیا تو اب اگلا ٹکڑا دیکھیے۔ و انّا الیہ راجعون: اور بلاشبہ ہم نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
ہم جیسے اجنبیوں کی زندگی میں اکثر ہی ایسے موڑ آتے رہتے ہیں، جہاں قرآنِ مجید کی آیات یوں محسوس ہوتی ہیں گویا ابھی ابھی سنی ہوں، پہلی بار کانوں سے ٹکرائی ہوں، پہلی بار پڑھی ہوں۔ اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ آیات خاص اسی موقع کے لیے ربِّ کریم نے میرے ہی لیے نازل فرمائی ہیں۔ اور یہ احساس کیوں نہ ہوں جب وہ ربِ وَدُود خود فرماتا ہے کہ فیہ ذکرکم، اس کتاب میں تمہارا ذکر ہے، اے میرے بندے تیرا ذکر! یعنی میرا ذکر اور آپ کا ذکر۔

آج چھ دسمبر ۲۰۱۵ء ہے۔ کل خبر ملی کہ آج ہمارے ڈاکٹر صاحب کا صبح نو بجے جنازہ تھا۔ کئی خیالات ذہن میں ابھرے اور محو ہو گئے۔ہمارے ڈاکٹر صاحب کو کچھ دہشت گردوں نے آج سے تقریباً سوا دو سال قبل اغوا کر لیا تھا۔ عرفِ عام میں ان اغوا شدگان کو لا پتہ افراد کہتے ہیں۔ اغوا کرنے والے دہشت گرد ہمارے ڈاکٹر صاحب سے تاوان کا مطالبہ کر رہے تھے اور یہ تاوان مال کی صورت نہ تھا۔اغوا کاروں کا مطالبہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب انہیں تاوان میں اپنا ایمان دے دیں اور پھر زندگی کی تصویر میں دوبارہ رنگ بھر لیں۔ لیکن اغوا کار کہاں جانتے تھے کہ زندگی کا اصل رنگ تو صبغۃ اللہ ہے اور ڈاکٹر صاحب نے اپنی اور اپنے متعلقین کی زندگی کو اسی رنگ سے رنگ رکھا ہے۔ وہ اتنے برس لگاتار یہی مطالبہ کرتے رہے مگر وہاں جواب بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ کی مانند نعرۂ اَحد اَحد ہی تھا۔
ڈاکٹر صاحب کا نام مجاہد عظیم طارق تھا۔ عمر ٹھیک پچاس سال۔ قد درمیانہ۔ چہرہ داڑھیٔ مسنونہ سے مزین۔ قدم جما کر چلنے والی شخصیت۔ آپ کا تعلق جٹ برادری کی گوندل قوم سے تھا۔ جوانی میں آرمی میڈیکل کالج سے ڈاکٹر ہوئے اور بعد ازاں پاکستانی فو ج میں بطورِ کمیشن یافتہ افسر شامل ہوئے۔ وہ اپنے نام کی مانند مجاہد تھے اور فوج میں بھی مجاہد بننے کے واسطے ہی گئے تھے۔ اپنی فوج کے اپنے ہی لوگوں کے خلاف اقدامات آپ سے برداشت نہ ہوئے۔آپ ایسی فوج کا حصہ نہیں رہ سکتے تھے جس کے ہاتھ مجاہدین و مؤمنین کے خون سے رنگے ہوں۔ آپ تو خود مجاہد تھے کیسے اس مجاہدین کے قاتل لشکر میں شامل رہتے؟ بالآخر آپ نے فوج چھوڑ دی۔ راہ ڈھونڈی اور راہ مل گئی۔ وہ قافلۂ راہِ وفا کا حصہ بن گئے۔ مجاہد تھے مجاہدین سے جا ملے۔
راقم السطور کا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کافی عرصہ گزرا۔ اس صاحبِ دل کی کئی محفلوں میں شریک رہا۔ کئی نمازیں ان کے پیچھے پڑھیں۔ کئی محاذوں پر ملاقاتیں رہیں۔ کئی سفروں میں شریکِ سفر رہا۔ کئی کھانوں میں شریکِ طعام رہا اور کئی باتوں میں شریکِ کلام۔ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلا اور ان سے محبت بھری ڈانٹ بھی کھائی۔
جب میں ان سے پہلی بار ملا تو وہ سر پر پکول1پہنے ہوئے تھے، چہرے پر مسکراہٹ تھی اور کاندھے پر کلاشن کوف لٹکائے ہوئے تھے۔ بعد از علیک سلیک سلسلۂ کلام جب شروع ہوا تو حضرتِ ڈاکٹر صاحب نہایت محبت سے مخاطب بھی رہے اور میری باتیں سن سن کر مسکراتے بھی۔ اس کے بعد کئی ملاقاتیں ہوئیں مگر کہیں بھی ایک آدھ دن یا ایک رات گزارنے سے زیادہ کا موقعہ نہیں ملا۔ پھرتقریباً تین ماہ بعد احقر کو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مجاہدین کے ایک مرکز میں چند دن گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کی پدرانہ شفقت ابل ابل کر ان کےانداز و اخلاق سے ظاہر ہوتی۔
ایک روز ڈاکٹر صاحب مرکز میں موجود ساتھیوں سے ایک بات پر ناراض ہو گئے۔ میں تو اس مجلسِ ناراضگی میں موجود نہ تھا اس لیے ماجرے سے آگاہ بھی نہیں تھا۔ اس روز میرے علاوہ سب ساتھی روزے سے تھے ۔ سب نے شام کو روزہ افطار کیا اور کھانے میں مصروف ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے پانی سے روزہ کھولا اور اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب کی ساتھیوں سے ناراضگی کا پتہ چلا جس کے موجب دیگر ساتھی ہی تھے۔ میں سب سے چھوٹا بھی تھا اور اس معاملے میں شرکت بھی نہ کی تھی، اس لیے اٹھا اور ایک اور بھائی عمّار کے ہمراہ ساتھ والے کمرے میں گیا۔ ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔میں جا کر بولا حضرت آپ نے کھانا ہی نہیں کھایا۔ وہ مسکرا دیے۔ عمّار بھائی نے بھی کہا کہ حضرت آ جائیے، کیسی ناراضگی، ہوتا رہتا ہے، جانے دیجیے، ساتھیوں کو معاف کردیں۔ میں بولا، حضرت کھانا تو کھا لیں کم از کم۔۔۔ ہم نے کچھ اور بھی منت سماجت کی اور صاف دل کے مالک، ڈاکٹر صاحب راضی ہو گئے۔
ایک آدھ دن کے بعد مرکز سے باقی ساتھی چلے گئے اور ڈاکٹر صاحب، عمار بھائی اور میں وہاں رہ گئے۔ ڈاکٹر صاحب چاول بہت شوق سے نہ کھاتے تھے۔ ہم نئے نئے تھے، ہمیں چاول پکانا آسان لگتا تھا اور روٹی پکانا نہایت دشوار۔ اب ہم چاول پکائے ڈاکٹر صاحب کے پاس آ گئے۔ کھانا شروع ہوا تو محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب کو کھاتے ہوئے مشکل ہو رہی ہے، ظاہر ہے چاول بھی ہم نئے کھلاڑیوں نے بد مزہ ہی پکائے ہوں گے۔ میں اور عمار بھائی اٹھے اور جاکر روٹی پکانے کی تیاری کرنے لگے۔ اب ہم تو صحیح سے آٹا گوندھنے سے بھی واقف نہ تھے۔ پہلے وہ لئی بن گئی۔ پھر مزید خشک آٹا شامل کیا ، کرتے گئے گوندھتے گئے تو ذرا گوندھا ہوا آٹا معلوم ہوا۔ اب دیکھیے مرکز میں بیلن ہی نہ تھا۔ اب پیڑے تو بنا لیے مگر بیلیں کس طرح۔ پہلے ہاتھ سے ہی بڑھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ آس پاس دیکھا توراکٹ لانچر کے گولے آر پی جی (RPG-7) کی پروازی پڑی تھی جو لمبی اور گول ہوتی ہے گویا پائپ ہو۔ اس کو دھو بھی نہ سکتے تھے اس میں بارود تھا۔ اوپر سے صاف کیا اور اسی سے روٹیاں بیلیں۔ اب ہر توے پر ڈالنے والی اور توے سے اترنے والی روٹی ایک شہکار فن پارہ ہوتی۔ نجانے کن کن نئے ممالک کے نقشے ، آدھے کچے اور آدھے پکے تخلیق کر کے ہم ڈاکٹر صاحب کے پاس لوٹے۔ ڈاکٹر صاحب یہ روٹیاں دیکھ کر ہنسنے لگے۔ کوئی بھی تبصرہ کیے بغیر حضرت نے خاموشی سے ہمارا یہ کمال برداشت کیا اور پھر تقریباً ایک ہفتے تک یہی نقشے کھاتے رہے، اللہ انہیں صبر اور ہم پر شفقت کرنے پر بہترین جزا سے نوازے، آمین۔
پھر ڈاکٹر صاحب بھی چلے گئے اور عمار بھائی بھی۔ میں ایک اور جانب چلا گیا۔ ایک روز کئی دن کے بعد ہم ڈاکٹر صاحب والے مرکز میں گئے، رات گئے۔ وہاں پہنچے تو وائٹ بورڈ (white board) پر رات کو پہرہ دینے والوں کے نام درج تھے۔ انہی ناموں میں ایک نام ڈاکٹر صاحب کا بھی تھا۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جس کی آنکھیں اللہ کی راہ میں پہرہ دیتے ہوئے تھکیں گی ان کو جہنم کی آگ نہ چھوئے گی۔
تیرے دیدار کی آس دِل میں لیے
اپنی آنکھوں کو پہروں تھکاتے رہے
یہ ملاقاتیں تو بس ڈاکٹر صاحب سے معرفت کا آغاز تھیں۔ پھر ہم ان کے ساتھ ایک لمبا عرصہ رہے۔ اتنا لمبا عرصہ خونی رشتے داروں کے ساتھ بھی جب بیتایا جاتا ہے تو یہ تعلق کئی نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔ ہمارا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ جب کبھی ذاتی رنجش ہوئی بھی تو ذات کے حصار میں قید نہ ہوئے، بلکہ اس گھیرے کو توڑا اور سینوں سے سینوں جڑ گئے۔
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی صفت ان کی حق گوئی تھی۔ خواہ سامنے کوئی بھی ہو، ان کی زبان پر حق ہی جاری رہتا۔ مگر جب جب ان کو پتا چلتا کہ میرا فلاں مؤقف، میری فلاں بات، فلاں رویہ، فلاں ادا، مبنی بر حق نہ تھی تو اپنے بچوں کی عمر کے لوگوں سے معافی مانگ لیتے۔ اور معافی کبھی گھٹنے پکڑ کر اور کبھی اشکبار ہو کر۔ حق گوئی و بے باکی تو وصف ہیں ہی، لیکن یہ تواضع ان اوصاف کو واقعی حمیدہ بناتی ہے۔
حضرت ڈاکٹر صاحب نہایت بہادر تھے۔ اپنے قلیل جہادی سفر میں، مَیں نے اس نوعیت کا بہادر شخص کوئی نہ دیکھا۔ بہادری کے قصے تو کئی ہیں، لیکن سنائے نہیں جا سکتے۔ یہ قصے بھی جنت کی کسی شام میں سنے سنائے جائیں گے۔
ہمارے شہید طبیب، ڈاکٹر سر بلند زبیر خان (ابو خالد) رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ تاریخ میں مشہور اور بڑے لوگوں میں دو صفات ہمیشہ رہی ہیں۔ ایک بہادری اور دوسری سخاوت۔
اگر ڈاکٹر صاحب کی سخاوت کا ذکر نہ کیا جائے تو ہر گز بھی انصاف نہ ہو گا۔ سخاوت کا محل بھی اگر اللہ کے دین کی نصرت، انفاق فی سبیل الجہاد، ضعیف مجاہدین اور مہاجرین کی مدد و اعانت ہو تو نور علی نور۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے:
﴿وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ
’’اور اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ ‘‘ (سورۃ الصّف:۱۱)
ڈاکٹر صاحب، ہمارے گمان کے مطابق ایسے ہی تھے۔ انہوں نے اپنا گھر بار، اسی راہ میں لٹایا۔ اپنی جان اس راہِ محبت میں گنوائی کہ محبوب کے لیے جان کی بازی لگانا ہی سب سے بڑی سعادت سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنا خاندان لٹایا۔ سب کچھ دے دیا اور جب مالک نے کہا کہ میرے محبوب! مال و دولت بھی لٹا دے تو عاشق یہاں بھی نہ رکا۔ ایسے ہی عشاق کے بارے میں، ایسے ہی اپنے سے محبت کرنے والوں کا معاملہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا:

﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO

’’جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اُگائے (اور) ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (ثواب میں) کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے۔ اللہ بہت وسعت والا (اور) بڑا علم والا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ: ۲۶۱)
حتمی طور پر تو ہم نہیں جانتے، اور شاید ہمارے ڈاکٹر صاحب کے اقرب ترین بھی نہیں جانتے کہ وہ کتنا انفاق کرتے تھے، راہِ وفا میں کتنی سخاوت کرتے تھے مگرخام اندازہ بھی یہ بتاتا ہے کہ ماہانہ لاکھوں روپے اللہ کی راہ میں دیتے تھے۔ بلاشبہ اللہ ہی ہیں جو اپنے بندوں کو عطا کرتے ہیں اور پھر ان بندوں کو توفیق دیتے ہیں کہ وہ اس کی راہ میں خرچ کریں۔
فرعون صفت دشمن بہت کچھ برداشت کر لیتا ہے، لیکن یہ برداشت نہیں کرتا کہ اس کو اس کے سامنے، اس کے منہ پر فرعون اور جابر کہا جائے۔ جب ڈاکٹر صاحب کو نقاب پوش دہشت گرد اغوا کر کے لے گئے تو میں ایک بزرگ نما بھائی سے انہی کے متعلق بات کر رہا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب اتنے جی دار اور اتنے نڈر ہیں کہ قید کے اندر بھی دشمن کو اس کی اصل شکل دکھاتے ہوں گے، اس کی خصلتوں اور اس کے ایمان کو لگی کفر و ارتداد کی بیماری کا بتاتے ہوں گے۔
حدیث شریف میں وارد ہے:
اِنّ من اَعظم او افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان الجائر
’’بلا شبہ سلطانِ جابر کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا جہاد کی عظیم ترین اور افضل ترین قسم ہے۔‘‘ (سنن ترمذی)
یہ اعظم کیوں ہے؟ شہید امام شیخ عبداللہ عزام رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی ذیل میں فرماتے ہیں:
’’وہ مجاہد جو میدانِ جنگ میں لڑتا ہے، اس کے دل میں خوف اور امید دونوں موجود ہوتی ہیں، لیکن سلطانِ جابر کے سامنے کلمۂ حق کو بلند کرنے والے کے دل میں بچنے کی امید نہ ہونے کے برابر اور مارے جانے کا خوف زیادہ ہوتا ہے، اسی طرح اس کلمۂ حق کا فائدہ ساری امت کو براہِ راست پہنچتا ہے، جبکہ مجاہدِ میدانی کا فائدہ اس کی نسبت کم ہے کیوں کہ یا تو وہ خود شہید ہو گا یا ایک کافر کو قتل کرے گا، سو اس کا فائدہ کم ہو گا۔‘‘
ہم اپنے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بھی ایسا ہی گمان کرتے ہیں۔ کہ آپ سلطانِ جابر کے سامنے صرف کلمۂ حق بلند نہ کر رہے تھے بلکہ اسی سلطان کی قید میں تھے جہاں بچنے کی امید نہ تھی اور بالآخر آپ کو اسی زنداں سے نکال کر شہید کر دیا گیا۔
نومبر ۲۰۱۵ء کے آخر میں، خفیہ اذیت خانے سے نکال کر ڈاکٹر صاحب کو چند دیگر مجاہدین کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان لے جایا گیا۔ وہاں ایک جعلی پولیس مقابلے میں آپ پر لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے جرم میں شریعت کی دشمن پولیس نے گولی چلائی۔ گولی جسم کے ایسے حصے پر ماری گئی کہ جان فوراً نہ نکلے، بلکہ اذیت سے، خون بہنے کے سبب روح و بدن کا تعلق منقطع ہو۔ ڈاکٹر صاحب کے ورثاء کے سپرد ان کی نعش تقریباً دس دن کے بعد کی گئی۔ مگر دس دن بیت جانے کے باوجود ڈاکٹر صاحب کے جسم سے خون جاری تھا۔ چہرے پر کوئی ایسا اثر نہ تھا کہ اس شخص کی روح اذیت و تکلیف سے بدن کو چھوڑ کر گئی ہے۔ دس روز بعد بھی آنکھوں میں چمک تھی۔۔۔ جو آنکھ اللہ کی راہ میں، رات کو پہرہ دیتے ہوئی تھکی تھی اس کا نور کون چھین سکتا تھا؟
مارنے والے کہاں جانتے ہیں کہ مرنے والے کی اپنی بھی یہی خواہش تھی۔ مرنے والے ہی کی خواہش کی تکمیل ہوئی تھی، جس خواہش کی خاطر مرنے والا نجانے کتنی بار مچلا ہو گا۔ مارنے والے یہ بھی نہیں جانتے کہ مرنے والا، ان کے لیے جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھے کا سامان کر گیا ہے۔ اور کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ شخص مردہ نہیں ہے۔ سب ہی کی زبان و عقل یہ کہہ رہی تھی کہ یہ مر گیا ہے۔۔۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو سچ ہے، حق ہے، نے فرمایا:
﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَO فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَO يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَO
’’ جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ہیں، انہیں ہر گز مردہ نہ سمجھنا، بلکہ وہ زندہ ہیں، انہیں ربّ کے پاس رزق ملتا ہے۔اللہ نےان کو اپنے فضل سے جو کچھ دیا ہے، وہ اس پر مگن ہیں، اور ان کے پیچھے جو لوگ ابھی ان کے ساتھ (شہادت میں) شامل نہیں ہوئے، اُن کے بارے میں اِس بات پر بھی خوشی مناتے ہیں کہ (جب وہ ان سے آکر ملیں گےتو) اُن پر کوئی خوف ہو گا، اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔وہ اللہ کی نعمت اور فضل پر بھی خوشی مناتے ہیں اور اس بات پر بھی کہ اللہ مؤمنوں کا اَجر ضائع نہیں کرتا۔ ‘‘ (سورۃ آلِ عمران: ۱۶۹-۱۷۱)
یرزقون۔۔۔ وہ رزق پارہے ہیں۔ فرحین۔۔۔ خوشیاں منا رہے ہیں۔
لکھنے کو اور بھی ہے، مگر شاید ابھی موقع نہیں۔ اگر یہاں موقع نہ ملا تو عرش تلے قندیلوں میں باتیں کرنے کا اور پھر فردوس میں کسی تخت پر بیٹھ کر، حریر و دیبا میں لپٹ کر، سونے کے کاسوں کے سامنے، کسی شام میں بات کرنے کا موقع ضرور ملے گا، ان شاء اللہ۔
و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ایک قسم کی ٹوپی جو پشتون قوم پہنتی ہے۔

اتوار، 26 نومبر، 2017 by malhamah · 0

اپنے امراء کی گستاخی سے بچیے!

ایک عرصے سے خواہش تھی کہ مجاہدینِ عالی قدر کی خدمت میں ، امرائے جہاد کی عزت و منزلت کے حوالے سے دِل کی چند باتیں پیش کروں۔ اللہ پاک مجھے اور سب مجاہدین کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔ اللہ تعالیٰ ہمیں، ہمارے نفس کے حوالے نہ فرمائیں، آمین یا ربّ العالمین۔ اللہ پاک ہمیں ہمارے اقوال و اعمال میں اخلاص عطا فرمائیں، آمین۔
مجاہدین فی سبیل اللہ ، اللہ کے اولیاء ہیں۔ اسی طرح کی بات شہید مولانا قاری عمران (مولانا عبیداللہ منصور) رحمہ اللہ، رکنِ شوریٰ القاعدہ برِّ صغیر بھی فرمایا کرتے تھے۔ قاری عمران صاحب کہا کرتے تھے کہ اصل اولیاء اللہ تو یہ مجاہدین ہیں جو بے سرو سامانی کے عالم میں، ان مشکلات اور تنگیوں میں جہاد فی سبیل اللہ جیسی عبادت پر قائم رہتے ہیں۔
یہ مجاہدین فی سبیل اللہ، اللہ کے اولیاء ہیں اور امرائے جہاد فی سبیل اللہ اسی طرح درجے کے اعتبار سے بڑے ولی ہیں۔
سنہ ۲۰۱۴ء کے اختتام کی بات ہے۔ بندۂ فقیر ان دنوں جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقے انگور اڈہ میں تھا۔ ایسے میں بعض بھائیوں کا معلوم ہوا جو امرائے کرام کو بہت تنگ کرتے تھے۔ خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک حدیث ہے کہ ’’إنّ اللہ تعالیٰ قال: من عادی لي ولیا فقد آذنتہ بالحرب‘‘۔ یعنی ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص میرے ولی کو ایذاء پہنچاتا ہے تو میں اس کے ساتھ اپنی لڑائی کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔1
خیال آیا کہ امرائے کرام جو بالیقین ان شاء اللہ، اللہ کے اولیاء ہیں کو ایذاء پہنچانے سے اللہ پاک ناراض نہ ہوتے ہوں۔ بعد ازاں اپنے استاذ اور ایک ہی وقت میں دوست مولوی عبد الحق صاحب سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا۔ وہ کہنے لگے کہ ہم لڑائی کا اکثر معنیٰ لیتے ہیں مار دینا۔ جبکہ لڑائی کی صورت میں، لڑائی کرنے والا آپ کو مارتا نہیں ہے بلکہ آپ کی قیمتی ترین چیز چھین لیتا ہے۔ اگر کسی کو کسی سے دشمنی ہو جائے تو وہ اس کا مال چھینتا ہے ، اگر اس کو اس کی اولاد محبوب ہو تو اس کی اولاد چھین لیتا ہے۔ اللہ کے یہاں قیمتی چیز ’ایمان‘ ہے۔ اللہ پاک جب کسی سے دشمنی کرتے ہیں تو اس سے اس کا مال یا جان نہیں بلکہ ایمان لے لیتے ہیں۔ اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھیں، آمین۔

اللہ پاک ہمیں معاف فرمائیں، بعد ازاں ایسا ہی دیکھا گیا۔ جو لوگ ، جہاد کی صفوں میں ہوتے ہوئے امرائے کرام کی گستاخیاں کیا کرتے تھے، ان کی چغلیوں، ان کی غیبتوں سے اپنی محفلوں میں ’رونق‘ بڑھاتے تھے، جہاد کی عبادت چھوڑ گئے جو کہ ذکر اللہ کی چوٹی ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایمان کے بعد افضل ترین عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ نجانے یہ لوگ جہاد چھوڑ گئے یا اللہ پاک نے انہیں ایسی عبادت سے محروم کر دیا جس میں سونا، کھانا، پینا، روز مرہ کے کام تک اجر کا باعث ہیں، بلکہ قیامت کے روز مجاہد فی سبیل اللہ کے اعمال کے ساتھ اس کے گھوڑے کی لید بھی تولی جائے گی2۔ اللہ پاک ہمیں کسی بھی کارِ خیر سے محروم نہ فرمائے، آمین۔
راقم السطور خود بہت کمزور آدمی ہے، بے پناہ خطا کار۔ عبدِ فقیر خود جہاد کے راستے میں اس مرض کا شکار ہونے کو تھا کہ شہید عالمِ ربّانی حضرتِ استاذ احمد فاروق رحمہ اللہ اور مرشد قاری اسامہ ابراہیم غوری رحمہ اللہ کی ڈانٹ اور محبت نے بندے کو باذن اللہ سیدھی راہ پر لگا دیا، اللہ پاک استدراج سے محفوظ فرمائیں، آمین۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ بندے کے ساتھ ایسا معاملہ فرمائیں جیسا وہ توبہ کرنے والے گنہگاروں کے ساتھ معاملہ فرماتے ہیں۔ بلا شبہ حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق کہ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ اپنے عیوب کو بیان کرنا ایک غلط عمل ہے، یہاں یہ عیب بیان کرنے سے مطلوب یہ ہے کہ کوئی اور بھائی اس دلدل میں نہ پھنسے جس میں بندہ پھنسنے کو تھا۔
وزیرستان میں قیام کے دوران بندۂ فقیر کو بھی امرائے کرام کے بارے میں باتیں کرنے کی ہوا لگی۔ یہ وہ ایام تھے جب داعشی فتنہ اپنے عروج پر تھا۔ ایسے میں شہید بھائی، عبد الودود زاہد رحمہ اللہ نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ یہ میران شاہ بازار میں مجاہدین کے ایک مرکز کا کمرہ تھا۔ کہنے لگے کہ
’’پیارے بھائی! آپ کو جہاد میں آئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟‘‘
جتنا عرصہ ہوا تھا، میں نے بتایا کہ اتنا ہوا ہے۔
کہنے لگے ’’ٹھیک اتنے ہی عرصے بعد میں بھی اس مرض کا شکار ہو گیا تھا‘‘۔
پھر عبدالودود بھائی رحمہ اللہ نے اپنا ایک خواب مجھے سنایا۔ عبدالودود بھائی نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں یہ خواب کسی کو نہیں سناؤں گا۔ مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ انہوں نے یہ خواب میرے علاوہ کسی کو نہیں سنایا۔ اب ان کی قندھار کے علاقے شراوک میں شہادت کے بعد، اسی موضوع سے مناسبت کے باعث یہ خواب نذرِ مجاہدینِ عالی قدر ہے۔
مفہومِ خواب ہے کہ:
’’عبدالودود بھائی کہتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک گاڑی ہے۔ وہ اس میں پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہیں تو خلیفۂ ثالث حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو پچھلی سیٹ پر بیٹھا پاتے ہیں۔ اب وہ اسی گاڑی میں آگے سفر کرتے ہیں یا منظر بدل جاتا ہے مجھے صحیح سے یاد نہیں۔ بہر کیف وہ ایک عمارت میں پہنچ جاتے ہیں۔
اس عمارت میں ایک گلی سی ہے جسے انگریزی میں corridor اور اردو میں غالباً رہ گزر کہتے ہیں۔
اس گلی میں بہت سے کمروں کے دروازے ہیں یا داخل ہونے کی جگہ ہے، چوکھٹ نما۔ ایک کمرے کے آگے پردہ لٹک رہا ہوتا ہے۔ اس کمرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک باندی بیٹھی ہے۔ یہ باندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرتی ہے کہ عبد الودود مجھے تنگ کر رہا ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر اب عبد الودود تمہاری طرف آیا تو میں اس کو روکوں گا یا کہا کہ اگر اب عبد الودود تمہاری طرف آیا تو میں اس کو روک لوں گا۔ ‘‘
خواب ختم ہوا۔ عارف باللہ شہید مجاہد فی سبیل اللہ عبد الودود بھائی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے اس خواب کی تعبیر یہ کی ہے کہ باندی سے مراد ہیں امرائے جہاد فی سبیل اللہ۔ اور ان کو تنگ کرنے سے مراد ہے ان پر بے جا اور بے ادبی کے انداز سے تنقید کرنا، ان کی غیبتیں کرنا، ان کو مطعون کرنا۔ فالعیاذ باللہ۔
یہ خواب سننا اور بعد میں حضرتِ استاذ فاروق رحمہ اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنی خطاؤں کا اعتراف کرنا، ان سے ڈانٹ کھانا، جس کے بارے میں بندہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ حضرت نے کبھی کسی کو اتنا شدید نہ ڈانٹا ہو گا، پھر ان کا پیار کرنا، مجھے معاف کر دینا اور پھر مجھے اپنی ٹانگوں سے لپٹنے دینا۔ اس کے بعد مرشد قاری اسامہ ابراہیم غوری رحمہ اللہ کے زیرِ سایہ رہنے نے یہ امراض دور کر دیے، فلِلّٰہ الحمد۔
پس اپنے قلیل تجربے اورمشاہدے کی بنیاد پر بندہ، مجاہدینِ عالی قدر سے دست بستہ گزارش کرتا ہے کہ وہ اس مرض سے دور رہیں۔ اس محاذ پر کڑا پہرہ دیں۔ کہیں شیطان دل میں اس سرحد سے داخل ہو کر ایسے گناہوں میں مبتلا نہ کر دے کہ جہاد فی سبیل اللہ کی عبادت سی سعادت سے ہم محروم ہو جائیں۔
احقر نے کئی لوگ ایسے دیکھے جو امرائے کرام کی غیبتیں، ان پر بے جا تنقید، ان پر تبرا اور سب و شتم کیا کرتے تھے۔ طعنہ زنی ان کا معمول تھا۔ ایک امیر کے مقابل دوسرے امیر کی تعریفیں کرنا۔ ان کو بد عقیدہ ہونے کے طعنے دینا وغیرہ جیسے قبیح اعمال کا شکار تھے۔ محفلوں میں بزرگ و عالی قدر امرائے کرام پر زنا تک کی تہمتیں لگاتے تھے، فالعیاذ باللہ۔ آج وہ سب لوگ کہاں ہیں؟ کوئی کاروبار کر رہا ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کر بیٹھا ہے اور لوگوں کو جہاد سے روکتا ہے، تو کوئی داعش سے خارجی ٹولے کا حصہ ہے3۔ آج بھی داعشی ٹولے کی سب سے بڑی خصلتوں میں سے ایک امرائے جہاد فی سبیل اللہ کی تکفیر و تفسیق ہے۔ عام طور پر داعشیوں کے ٹھکانوں میں امرائے کرام کی غیبتیں عین عبادت سمجھ کر کی جانا معمول ہے۔ عالی قدر امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کی شان میں گستاخیوں سے لے کر امیر المؤمنین ملا اختر محمد منصور کو طاغوت کہنے تک اور عالی قدر امیر المؤمنین شیخ ہبۃ اللہ اخند زادہ اور امیر الجہاد حکیم الامۃ شیخ ایمن الظواہوی کی تکفیر اور ان کو مطعون کرنا ان کا شعار ہے۔ اس بد عقیدہ خارجی فکر کا امتِ مسلمہ اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے عقائد کو باطل قرار دینا ان کی صبح و شام کی تسبیح ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ داعشیوں کے عام ٹھکانوں سے داعشی ٹولے کے سرغنوں اور ترجمانوں تک کا یہی وطیرہ رہا ہے جس نے ان سے جہاد فی سبیل اللہ کی دولت لٹوا کر انہیں مسلمانوں اور مجاہدین کا قاتل ہونے کی ضلالت پر لا کھڑا کیا ہے۔
جماعت قاعدۃ الجہاد برِّ صغیر کے قیام کے موقعہ پر ، مرکزی جماعت قاعدۃ الجہاد سے وابستہ برِّ صغیر کے مجاہدین کے مجموعات کے امراء نے اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی ہدایت پر مولانا عاصم عمر صاحب حفظہ اللہ کے حوالے کر دیں۔ جماعت کے قیام کے دنوں میں حضرتِ استاذ احمد فاروق رحمہ اللہ مجاہدین کے ایک مرکز میں تشریف لائے جہاں احقر بھی موجود تھا۔ حضرتِ استاذ نے زار و قطار روتے ہوئے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں اپنے مجموعے کی مسئولیت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتا ہوں۔ اپنے آپ کو اور اپنے تمام مامورین کو مولانا عاصم عمر صاحب حفظہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ جیسا کہ شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے فرمایا کہ میں اپنے اعمال میں سب سے بڑا عمل ’جماعت الجہاد‘ کی امارت کو ترک کر کے شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کی جماعت ’قاعدۃ الجہاد‘ میں ، اپنے ساتھیوں سمیت ضم ہو جانے کو سمجھتا ہوں۔ میں بھی (یعنی استاذ احمد فاروق) اپنے اعمال میں اپنے مجموعے کی امارت ترک کر کے اپنے آپ اور اپنے مامور ساتھیوں کو مولانا عاصم عمر صاحب حفظہ اللہ کی سپردگی میں دینا سب سے بڑا عمل سمجھتا ہوں۔
میں آپ سب ساتھیوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ مولانا عاصم عمر صاحب حفظہ اللہ کی اطاعت کریں۔ مولانا عاصم عمر صاحب کی حفاظت کریں۔ ان کی ظاہری حفاظت بھی اور اپنے دلوں میں ان کی باطنی حفاظت بھی۔ اپنے دلوں میں حفاظت اس طرح کہ ان کے بارے میں بد گمانی نہ کریں، ان کی غیبت نہ کریں اور ان کے بارے میں دل میں برا خیال نہ آنے دیں۔‘‘
بلا شبہ استاذ المجاہدین اور میرے مرشد کے مطابق پاکستانی عبد اللہ عزّام یعنی استاذ احمد فاروق رحمہ اللہ کی نصیحت میں ہم سب مجاہدین کے لیے بڑا سبق ہے۔ احمد فاروق کو استاذ احمد فاروق اللہ کے فضل سے امراء کی اطاعت نے بنایا۔اسی طرح قاری عمران صاحب رحمہ اللہ ایک عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر عسکری قائد اور عسکری استاد تھے، انہوں نے بھی اپنے مجموعے کی امارت چھوڑ کر خود کو اور اپنے مامورین کو مولانا عاصم عمر صاحب کے حوالے کیا۔ شیخ حاجی ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ مجاہدین کے دردِ دل رکھنے والے مربی تھے، اداریات/management بالخصوص ادارتِ افراد/human resource management کے ماہر تھے، حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ خود ایک معروف عالم اور صوفی بزرگ کے خلیفۂ مجاز تھے لیکن انہوں نے بھی یہی عظیم عمل کیا۔ شہید مدیرِ مجلہ ’نوائے افغان جہاد‘ قاری حافظ طیب نواز رحمہ اللہ کو بھی اللہ پاک نے بے شمار صلاحیتوں اور فکری جہتوں کا فہم عطا فرمایا تھا، لیکن ان کی صلاحیتوں اور علوم و فنون کی مہارت نے انہیں امرائے کرام کی اطاعت سے آگے پیچھے نہ ہونے دیا۔ استاذ احمد فاروق، قاری عمران، شیخ حاجی ولی اللہ، قاری حافظ طیب نواز رحمہم اللہ کی اصل خوبی سمع و طاعت تھی۔
امید ہے کہ اپنی ٹوٹی پھوٹی باتوں اور بے ربط یادوں کے ساتھ، احقر اپنا مدعا مجاہدینِ عالی قدر کی خدمت میں پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے کہ ’اپنے امراء کی گستاخی سے بچیے‘، کہیں یہ عمل جہاد فی سبیل میں پیچھے رہ جانے اور معاذ اللہ جہاد اور پھر منہجِ اہل السنۃ و الجماعۃ ہی سے منحرف ہو جانے کا سبب نہ بن جائے۔
اللہ پاک ہمیں امرائے کرام کی گستاخیوں سے بچائے اور ہمیں ان امراء کا اپنی رضا کی خاطر سامع و مطیع بنا لے، آمین یا ربّ العالمین۔
و آخر دعوانا أن الحمدللہ ربّ العالمین و صلی اللہ علی النبی۔
___________________
1 صحیح بخاری
2 دیکھیے جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت میں علامہ ابنِ نحاس شہید رحمہ اللہ کی کتاب: مشاری الاشواق
3 ہم داعشیوں ہی کی طرز پر، ان کو مطعون نہیں کرتے نہ ہی اپنے خود ساختہ ’’اصولوں‘‘ کی بنیاد پر ان کو خوارج کہتے ہیں۔ نہ ہی ان کو خارجی کہنے کا طریقہ ہم نے پاکستان و سعودی عرب کی دین دشمن ، فرنٹ لائن امریکی اتحادی افواج اور ان کے علمائے سو سے حاصل کیا ہے۔ اگر ہماری زبانوں سے اس گروہ کو خارجی کہا گیا ہے تو اہل السنۃ و الجماعۃ کے ٹھوس دلائل کی بنیاد پر۔ ملاحظہ ہو شیخ عبداللہ المحیسنی حفظہ اللہ کا خطبۂ جمعہ بعنوان: ’ہم نے انہیں خوارج کیوں کہا؟‘۔

by malhamah · 0

منگل، 11 اکتوبر، 2016

جو جنوں کے ہمرکاب ہوئے ترے نقشِ پا کو وہ پا گئے!



دکھ درد،کرب وآزار،تکلیف ورنج اوراذیت والم میں ڈوبی ہوئی،ہرروزاہل کفروارتداد کےزہریلے چرکے سہتی ‘امت محمدیہ علی صاحبھاالسلام کے حالت پر غورکریں تو چار طرح کے طبقات اس صلیبی جنگ میں اپنے اپنے کردار اورعمل کے ساتھ سرگرم دکھائی دیتے ہیں…ایک تو ایلان کردی اور عمران دقنیش جیسے بچے ہیں جو کہیں سمندروں کی لہروں کی نذرہورہے ہیں او رکہیں لعین کفار کی بم باریوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں،اوریہ معاملہ بچوں تک محدود ہے نا ہی سرزمین شام تک!امت مسلمہ سے وابستہ مظلومین ‘دنیا بھر میں گھیرے جارہے ہیں،ستائے جارہے ہیں،رُلائے جارہے ہیں، تابکاریوں اوربم باریوں کاشکار بنا کر مٹی اورغبار کی ماننداُڑائے جارہے ہیں!جن ممالک میں بظاہر ’’امن وامان‘‘میسر ہے وہاں نظامِ شریعت سے محرومی، معاش کے تنگنائیوں میں گھٹے روزوشب ،کفری قوانین میں جکڑی زندگیاں گزارنے پر مجبورہیں اوراللہ کے دین کے باغیوں کے نرغے میں آکر اوراُن کے جبرِ وتعدی کے نتیجے میں پِس کررہ گئے ہیں!


ان تمام مظلومین کی آہ وبکااورپکار کوسننے اوراُنہیں کفار کے جوروستم سے نجات دلانے کے لیے نکلنے والے مجاہدین ‘دوسراطبقے اورگروہ میں شمار کیے جاسکتے ہیں!یہ مجاہدین بلاشبہ اس امت کو قہرِ وذلت اورتحقیر وپستی کی گہرائیوں سے نکال کر عروج وکمال کے دور میں لوٹانے اورعزت وسرفرازی کی منزلوں سے روشناس کروانے کے لیے اپنی جانیں گھُلا اورکھپا ہی نہیں رہے بلکہ لٹا اورفدا بھی کررہے ہیں…آج کے دورمیں اگربے بسی اوربے کسی میں سسکتی ‘امت کی مائیں اوربیٹیاں ہرسرزمین پر نظر آتی ہیں تو ان کی بے کسی وبے بسی کے ازالے کے لیے ان کے بھائی بیٹے بھی سربکف وشمشیرزن ہر خطے میں دکھائی دے رہے ہیں…توحید کے یہی فرزند ہیں جن کے ساتھ اُن کے رب کی معیت ہے،اور رب کریم کی مددونصرت کویہ میادینِ جہاد میں بسرِ چشم ملاحظہ کررہے ہیں!عالمی تحریکِ جہاد کے یہ سرفروش ’’اپنوں‘‘کی خیانتوں اورغیروں کی عداوتوں کا بیک وقت نشانہ بن رہے ہیں!کھرب ہا کھرب ڈالروں کے بارودکی بارشوں سے ان کے گھروں ،آنگنوں اورزمینوں کو’’سیراب‘‘کیا گیا…لیکن اللہ کے دین پراپنا سب کچھ نچھاور کرنے کا عہد نبھانے والوں کا یہ قافلہ پندرہ سالوں میں کہاں سے کہاں جاپہنچا!کیسے کیسے سنگ ہائے میل اس سخت جان کارروان نے طے کیے اور کیسے کیسے محاذوں کو ان مجاہدین نے برپا اورآباد کیا… چند سال قبل تک جن خطوں میں جہاد کا نام لینے والا ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا ،آج وہاں کے بچے بچے کی زبان پر جہاد کے ترانے اورنعرے ہیں اورجن ملکوں میں اللہ کے دین کے نفاذ کی کوششیں کئی دہائیوں تک ’’آئینی،قانونی، جمہوری اور دستوری‘‘ڈھکوسلوں میں مقید کردی گئیں تھیں وہاں بھی نفاذِ شریعت کے لیے جہادوقتال کے میدان سجانے کا غلغلہ ہے!ہلمند سے لے کرحلب تک یہ مبارک فتوحات ’صبح نو‘ کی نویدہی تو سنا رہی ہیں!

تیسرا طبقہ امت کی گردنوں پر مسلط خائن حکمرانوں اورطواغیتِ کفارکے دریوزہ گروں کا ہے!(1)سقوطِ خلافت عثمانیہ کے بعدائمۃ الکفر نے خلافت ِاسلامیہ کے مقبوضات اورمسلم سرزمینوں کے نا صرف حصے بخرے کیے بلکہ اپنے وفاداروں اورخائنین ِ امت کوفوج درفوج تیار کیا کہ وہ ہر ایک خطے میں پوری’’دیانت‘‘سے اپنے کافرآقاؤں کی نیابت کریں… یہ حکمران کہیں فوجی وردیوں میں امت کے سرپرسوار ہوئے،کہیں جمہوری لبادے میں انہیں اقتدارواختیارسونپا گیااورکہیں ’شاہوں کی شاہی ‘کی صورت میں مسلمانوں کو ان کا زیرِ نگیں بنایا گیا …ان سب کے نام اور’’عہدے‘‘مختلف سہی لیکن ’’فرائض منصبی‘‘یکساں اورمساوی ہیں!اہل ایمان کو دین کی تعلیمات سے (جہاں ممکن ہو علمی طور پر بھی وگرنہ) عملی طورپر بہرصورت بے گانہ رکھنا،شریعت کی برکات سے محروم کرکے کفریہ (غیرالٰہی) دساتیر وقوانین کواُن پرمسلط کرنا،معاش واقتصاد کو اُن کے لیے تنگ کر کے ہمہ وقت روزگار اورکفاف کے بکھیڑوں میں الجھا کراُن سے دینی تعلیمات وہدایات پر عمل پیراہونے اوردنیاوی واخروی فلاح کا ہرہرموقع سلب کرنا،مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے کفار کے دست نگربنائے رکھنا،اُن سے ایمان وایقان کی دولت چھین کرکفرکی ہیبت،رعب ، حشمت،ٹیکنالوجی ،تہذیب اور دھاک سے بٹھائے رکھنا،اُن کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر آقاؤں کی خدمت میں پیش کرنا اوراُن کی دنیا وآخرت کو برباد کرنے کے لیے اُن کی زندگیوں میں شیاطینِ عالم کے ایک ایک حکم کی بزور تنفیذ کرناہی ان کامقصدہوتا اوراسی سب کو ’’سرکاری رِٹ‘‘کے نام سے موسوم کیا جاتاہے !
چوتھا طبقہ علمائے کرام کا ہے…یہ علمائے حق ‘وراثت نبوت کے منصب ِ عالیہ پرفائز ہیں ،اسی بنا پراس امت مرحومہ کی اصلی قیادت ہیں…بلاشک وریب ‘صالحین اورصادقین کایہی گروہ ہے کہ جس کی رہ نمائی اور امامت کی امت اس وقت متلاشی اورطلب گار ہے!یہ امت مسلمہ کے زریں ماضی کی تاب ناک روایتوں کے امین بھی ہیں اورصبحِ روشن کی مانندچمکتے مستقبل کی ضمانت اورنوید بھی ہیں…ان کے سینوں میں موجود علومِ نبوت اوردلوں میں پائی جانے والے فراست ایمانی کی بدولت ‘امت مسلمہ کے ہرفرد کے لیے ان کی اقتدااورمتابعت ہی شریعت کی نظر میں ضروری ٹھہری ہے…اسی لیے اے علمائے اسلام!اے حق کے پاسبان علمائے کرام!اس پُرفتن دوراوردل شکن حالات میں یہ مجاہدین آپ کی جانب دیکھ رہے ہیں!کٹھن اورنامساعد حالات کی وجہ سے آپ کی علمی مجالس کی برکتوں سے محرومی پر یہ مجاہدین دل گرفتگی کا شکار رہتے ہیں…آپ کے عظمتِ کردار اور علمی فضائل سے بلاشبہ ہمارے دل مسخر ہیں …آپ کی جوتیاں سیدھاکرنا ہمارے لیے سعادت اورآپ کے قدموں میں بیٹھنا ہمارے لیے خیروبرکت کا ذریعہ ہے…
اے معززعلمائے دینِ متین! آپ کا یہی مقام اور رتبہ ہے جس بنا پر مجاہدین آپ کو اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں اورآپ کی عظمتیں ہمارے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہیں…اسی لیے ہمیں سب سے زیادہ امید اور توقع آپ سے ہے کہ آپ اپنے سینوں میں شریعت مطہرہ کی تعلیمات کا جو خزانہ رکھتے ہیں اُس بنا پر یہ آپ ہی کا حق اور منصب ہے کہ احکامات ِدین کے اجرااور تنفیذ کے لیے بھی آپ کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہو…آپ کی فقاہت وثقاہت اورذہانت ومتانت کی امت کو جس طرح علمی طورپرضرورت ہے اسی طرح آپ کی دانائی و ذکاوت ،علمی وجاہت وجلالت اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ مبارک علم نبوت ‘اپنی ضوفشانیوں اورتابناکیوں کے ساتھ‘امت کو عملی میدانوں میں بھی درکار ہے …امت کے حالات کو گہرائی سے دیکھنا، ہر طرح کے خوف مکمل آزاد ہوکر ان حالات کے ذمہ داران اورامت کی زبوں حالی اورسسکتے بلکتے اہل ایمان کے مجرموں کوپہچان کر اِن سے برأت ،بے زاری اورنجات کی عوامی تحریک کو اٹھانا آپ ہی کے شایانِ شان بھی ہے اور آپ کی اولین ذمہ داری بھی!شریعت کے دشمنوں اور شیاطین کے دوستوں نے امت محمدیہ علی صاحبھاالسلام کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے!ان کے طرزِ معاشرت کو باطل نظریات وافکار نے پراگندہ اوردین بے زارکردیا ہے!ان کے قلوب واذہان کو الحادوبے دینی کے زہریلی تحریکوں نے مسموم کرڈالا ہے!ان کی زندگیوں کوشریعت سے محروم کرکے مستقل روگ اورکرب وآزارسے بھردیا ہے…اس کرب ناک صورت حال میں ‘نظریں آپ کی طرف اٹھتی ہیں!آپ کے مجاہد بیٹوں نے تمام تر مشکلات ،بے پناہ آزمائشوں اور کٹھن ترین حالات میں بھی میادینِ معرکہ کو سجایا ،خوب سجایا اوراللہ کی نصرت کے سہارے کفاراوراُن کے چیلوں کی ہر سازش اورمکر کے سامنے ڈٹ کرآہنی چٹان کی مانند کھڑے ہوگئے!
اپنے ان مجاہد بیٹوں کی رہ نمائی کیجیے کہ یہ اپنے رب کی مدد سے امت کے لیے فتح کے دروازے کھول رہے ہیں اور ان دروازوں سے گزر کر امت کی قیادت وسیادت پر آپ ہی کو متمکن ہونا ہے!ذرا دیکھئے کہ دنیا بھرمیں کیسی ’الٰہی ترتیب‘چل رہی ہے!کہ جہاں لفظ ’جہاد ‘بالکل ہی اجنبی تھا وہاں پوری کی پوری نسلیں شریعت و جہاد کے متوالوں میں شامل ہوچکی ہے،یہ سب مجاہدین کے بس میں تو نہیں تھا…مجاہدین کے پاس اول تو وسائل ہی کتنے ہیں،اورجتنے بھی وسائل موجود ہیں ،اللہ کے یہ بندے اُن تمام کے تمام وسائل کو لگا دینے کے بعدبھی دنیا بھر میں پھیلے جہادی منظرنامے میں چندایک رنگ بھی نہیں بھرسکتے تھے کجا کہ یہ پورامنظرنامہ ہی تخلیق کرپاتے…یہ تو ربِ کریم کا خالص کرم او رفضل ہے،یہ اُس کا نظام ہے جو حرکت میں آچکا ہے،یہ اُس کا احسان ہے جو وہ اپنے عاجز بندوں پر انڈیل رہاہے،یہ مالک کی عطا ہے جس سے وہ اِن خاک نشینوں کو نواز رہا ہے اورمسلسل نواز رہا ہے…آپ سے التماس ہے،گزارش ہے اور آپ کی تمام تر قدرومنزلت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتہائی درمندانہ اپیل ہے کہ اللہ کے باغی ‘اس گرتے اورزوال پذیر باطل وشیطانی نظام کو ایک لمحے کے لیے بھی سہارادینے کا موجب نہ بنئے!اپنے مجاہد بیٹوں کی حوصلہ افزائی کیجیے!ان کی قیادت کو آگے بڑھیے !اللہ تعالیٰ نے فتح اِس امت کے مقدر میں لکھ دی ہے!پس مجاہدین ِاسلام کی صفوں کی امامت کرتے ہوئے فتح ِ مبین کی منزل تک اِس امت کو لے چلئے!آخر میں مجاہدین برصغیر کے فکری اور عسکری رہ نما اورقائد استاد احمد فاروق شہید رحمہ اللہ کے حضرات علمائے کرام کی عظمت کوبیان کرتے دردِ دل میں ڈوبے الفاظ پیش خدمت ہیں:


’’قسم رب ذوالجلال کی کہ ہم آپ سے اللہ کی خاطر محبت کرتے ہیں۔اگر فرضِ عین جہاد کی مصروفیت نہ ہوتی تو آپ کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کرنے اور آپ کی مجالس سے علم کے موتی سمیٹنے سے بڑھ کر ہمیں کوئی شے عزیز نہ ہوتی۔آ پ ہمارے دلوں کا قرار ہیں،ہمارے سروں کا تاج ہیں،ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔آپ کی کسی ایک شب کی دعالینا ہمارے نزدیک دنیاومافیہا سے بہتر ہے،آپ کا ایک تائیدی قول،ایک حوصلہ افزائی کا جملہ ہمارے سینوں کو ثبات و سکینت سے بھردیتا ہے۔ان شاءاللہ آپ ہم سے بڑھ کر کسی کو اپنا محب ووفادار نہیں پائیں گے…ہمارے سروں پر اپنا دستِ شفقت رکھیے!ہماری غلطیوں کی اصلاح فرمائیے!ہم کمزورپڑیں تو حوصلہ دیجیے!اللہ جل جلالہ کی تائید کے بعد ہمیں سب سے بڑھ کر آپ ہی کا سہارا ہے!رب آپ سے راضی ہوجائے،ہر شریر ومفسد کی چالوں سے آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے،آمین‘‘۔
اداریہ، ماہنامہ نوائے افغان جہاد۔ اگست ، ستمبر ۲۰۱۶ء
--------------------------------------------------- 
(1)ویسے تو یہ کسی بھی طورامت میں شمار نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے ایمان واسلام کا قلادہ مرضی و منشا اورخوشی سے اپنی گردنوں سے اتار پھینکا ہے اوربرضاورغبت کفرکے ’’صف اول کے اتحادی‘‘ہونے کے تمغے سینوں پر سجائے ہوئے ہیں…لیکن چونکہ امت کی زبوں حالی کے یہ اول وآخر ذمہ دار ہیں اس لیے ان کے کرتوت ذکرکرنے اوران کی اصلیت سے پردہ اٹھانے کے لیے انہیں ’’طبقہ‘‘میں شمار کیا گیا ہے!

………………………………

منگل، 11 اکتوبر، 2016 by malhamah · 0

حضرت اقبال” بچ”گئے!


مصعب ابراہیم
بھلے وقت تھے کہ حضرت اقبال نے دوٹوک اورواضح انداز میں عصبیت وطنی کے فتنے اور قومی تعصب کے زہر کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی فرما دی ،ساتھ ہی امت کے لیے اس کی تباہ کاریوں سے بھی متبہ کردیا…اچھے زمانے تھے کہ علامہ اقبال ‘شدت پسندی اور ’’دہشت گردی‘‘کوپروان چڑھانے والے نظریات پھیلاتے رہےاورطبعی طورپرداعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے…آج اس سب کے عشر عشیر بھی ارشاد فرمادیتے تو ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘کی زد میں آتے،پہلے گھرسے اٹھاکر غائب کردیے جاتے ،تاریک کوٹھریوں میں ڈال دیے جاتے اوروحشی درندے مہینوں تک اُن کے جسم وجان کو بھنبھوڑتے رہتے…آخر کارگھٹاٹوپ اندھیروں میں کسی ویرانے میں لے جا کر ’’پولیس مقابلے‘‘کی نذرکردیے جاتے اور اگلے دن ہتھ کڑیوں میں جکڑی ،خاک وخون میں غلطاں‘علامہ اقبال کی لاش کی تصویر کے ساتھ خبر آتی کہ 
’’ سی ٹی ڈی اورخفیہ اداروں کی مشترکہ کارروائی …اقبال نامی شدت پسند‘ دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں مصروف تھا کہ قانون نافذکرنے والے اداروں نے اُنہیں جالیا ،اقبال کے ساتھیوں نے ہمارے جوانوں پر فائرنگ کی اور جوابی فائرنگ پرفرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جب کہ اقبال اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کی زد میں آکرماراگیا !‘‘…

ذراشاعری پڑھیے اور پھرسوچئے کہ آج کے دور میں ایسے خالص توحیدی اوروطنیت کی جڑ کاٹنےوالے نظریات کی ترویج واشاعت کرنے والوں کا انجام اس کے علاوہ بھی کچھ ہورہا ہے؟! 
؎اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے‘جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
…………………
 
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استور
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
…………………
 
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی نہ افغانی
…………………

ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انساں کو
اخوت کابیاں ہوجا ، محبت کی زباں ہوجا
یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی ، وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل ، اچھل کر بیکراں ہوجا
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہيں پيمانے سے 
ہے عياں يورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
…………………

عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری!
…………………

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر ِکاشانۂ دین نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے !
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد ِوطن صورت ماہی
ہے ترک ِوطن سنت ِمحبوب ِالہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
گفتار ِسیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
……………………………………………………

by malhamah · 0

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ