ہفتہ، 4 اپریل، 2015
دینی مدارس اور اسرائیلی سکولز
تحریر: شہید زوی
بشکریہ: شہامت اردو(امارت اسلامیہ افغانستان کی باضابطہ ویب سائٹ)
بشکریہ: شہامت اردو(امارت اسلامیہ افغانستان کی باضابطہ ویب سائٹ)
مدرسہ وہ جگہ ہے جہاں کسی تحریف ،تغیر اور تبدیلی کے بغیر شرعی
علوم اپنی اصلی صورت میں پڑھائے جاتے ہیں ، جہاں دین کا حقیقی مفہوم بیان ہوتا ہے یہ
مدرسہ درس کی شکل میں ایک سادہ سا حلقہ ہوتا ہے یا کسی جامعہ اور بڑے تعلیمی مرکز
کی صورت میں ایک منظم پروگرام۔ ہمارا پہلا مدرسہ کونسا تھا ؟اور اس کی ابتداءکیسے
ہوئی ؟ پھر پوری دنیا میں اس کی جڑیں اور شاخیں کیسے پھیل گئیں ؟ انسانی شعور کی
بیداری اور ارتقاءمیں اس کاکیا حصہ ہے؟ اس نے انسانی معاشرہ کووحشت اور جہالت کی
تاریکیوں سے نکالنے کے لیے کون کون سے انقلابی اقدامات اٹھائے ؟انسانی تہذیب وتمدن
کے عروج میں اس کا کردار کیا تھا ؟ اس نے انسانی معاشرے کو مادی اوراخلاقی ترقی
دینے والی کتنی عظیم المرتبت مہذب شخصیات فراہم کیں ؟انسان کو رذیل صفات ، غلط
عادات اور حیوانیت سے نکالنے اور انسانوں کو انسانیت سکھانے کے لیے کتنی کوششیں
کیں ؟ اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں سے
متعلق اس کے خیالات کیا تھے ؟یہ بہت دلچسپ سوالات ہیں جن کا جواب انتہائی ضروری ہے
۔ یہ انتہائی اہم موضوع ہے ، اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔ تقریبا 4سال
قبل میں نے اس کے لکھنے کا اردہ کیا تھا اور اس کے لیے مواد جمع کرنے کا آغاز بھی
کیا تھا، لیکن افسوس ہے کہ انتہائی مصروفیات کے باعث اب تک اس میں کامیاب نہ ہوسکا
۔ اللہ تعالی سے توفیق کا طلبگار ہوں ، امید ہے بہت جلد یہ کوششیں رنگ لے آئیں گی
۔
موضوع سے ہٹ جانے اور بات لمبی ہونے کے خوف سے مختصراً اتنا
کہہ دیتا ہوں کہ انسانی معاشرے کو درپیش بڑی بڑی رکاوٹوں کے باوجود ہمارے دین کی
اشاعت، شرعی احکام کی حفاظت، اسلامی تہذیب کے تحفظ اور اغیار کی ثقافتی یلغار کا دفاع
ان ہی مدارس نے کیا ہے ۔ مسلمانوں میں بھی ایک حدتک دین داری اور دینی جذبہ اگر ہے
تو یہ بھی ان ہی مدارس کے وجود اور ان کے فعال کردار کا مرہون منت ہیں ۔ پوری
مغربی دنیا اور خاص کر یہودی چونکہ مسلمانوں کے لیے مدارس کے وجود کی اہمیت سے
بخوبی واقف ہیں اورمسلمانوں سے زیادہ انھیں ان ساری چیزوں کا احساس ہے، اسی لیے تو
یہ لوگ ہمارے مدارس کے پیچھے پڑگئے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ یہ بنیادپرستوں اور
دہشت گردوں کے تربیتی اڈے ہیں ۔
جہاد جو ہمار ے رب کاحکم اور اسلام کا ایک عظیم رکن ہے اس لئے
ظاہرہے کہ ہمارے مدارس میں طلبہ کو صوم و صلوة ، حج و زکوٰة کی طرح اس رکن کے
احکامات بھی بتائے جاتے ہیں ، اس کی اہمیت اور ضرورت بتائی جاتی ہے، جن اخلاقی
حدود وقیود میں یہ رکن ملفوف ہے ان سب کی تعلیم دی جاتی ہے ،انہی مدارس میں جہاد اور
فساد کے درمیان فرق کرنے والے نکات کی نشاندہی بھی کرائی جاتی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں
کہ ان مدارس میں پڑھنے والا ہر طالب علم نماز کی طرح جہاد کوبھی اپنے رب کا فریضہ
سمجھتا ہے ،ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ غاصبوں اور جارحین کے خلاف جاری جہاد کی قیادت
اور لڑنے والے مجاہدین کی اکثریت ان مدارس کے طلبہ کی ہے ۔ مختصر یہ کہ جہاد میں
طلبہ کی عملی طورپر مصروفیت اور مدرسے اور جہاد کے درمیان نظریاتی تعلق سے انکار
نہیں کیا جاسکتا ۔اگراسلامی ممالک کی حکومتوں کی اجازت ہوتی اور مدارس میں جہاد کی
عملی تربیت بھی ہوتی تو یہ بھی ایک مناسب کام ہوتا ، مگرحالات اور دیگر تنگیوں
،حکومتوں کی جانب سے اجازت نہ ہونے ، شہروں اور گنجان آبادی والے علاقوں میں واقع
ہونے اور دیگر انتظامی مشکلات کے باعث ہمارے مدارس میں جہاد کی عملی تربیت تقریبا
ناممکن ہے ، دنیا کے کسی کونے میں بھی کوئی ایسا مدرسہ نہیں دکھایا جاسکتا جہاں جہاد
کی عملی تربیت ہوتی ہو ۔
اب تو حالات انتہائی ناموافق ہیں ،روس کے خلاف جہاد کی تو
تقریبا ساری دنیا کی جانب سے حمایت کی جاتی تھی اور ساری دنیا چاہتی تھی کہ
مسلمانوں میں جہادی نظریے کی پختگی اور اشاعت کے لیے مدارس اپنا بھر پور کردار
اداکریں ،اس وقت مدارس کو اپنی حکومتوں کی جانب سے کوئی مشکلات بھی نہ تھیں ۔ پھربھی
کسی مدرسے میں جہادکی عملی تربیت کی کسی کوضرورت پیش نہیں آئی۔اور اب جب اپنی
حکومتوں اور دنیا بھرکی انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے مدارس کی سخت نگرانی ہوتی ہے
اورانہیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو اب کیسے عملی تربیت ممکن ہوسکتی ہے ؟۔
اس کے باوجود امریکا اور دیگر مغربی دنیا سب یک زبان ہوکر بار
باریہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دینی مدارس دہشتگردی کی تربیت کے مراکز ہیں ، یہیں
پر جہاد کی عملی تربیت ہوتی ہے،یہاں طلبہ کو دیگر مذاہب اور فرقوں سے نفرت کا درس دیا
جاتا ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ روئے زمین پر مسلمان کے علاوہ کسی کو زندہ
رہنے کا حق حاصل نہیں ۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں دینی مدارس کے خلاف اتنا پروپیگنڈا
ہواکہ غیر مسلم تو غیر مسلم اب بہت سے مسلمان بھی مدارس کے خلاف ہوگئے ہیں اور
مدارس کی خوشحالی اور ترقی کی بجائے اس کے خاتمے کے خواہشمند ہیں ۔
یہی مغرب جہاں دن رات ہمارے مدارس کے خلاف پروپیگنڈا کیاجاتا
ہے اور ان کے ختم کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں ان اسرائیلی تعلیمی اداروں کے
بارے میں بالکل خاموش ہے جہاں طلبہ کوانسانیت سے نفرت کا درس دیا جاتا ہے اور ان
کی باقاعدہ عسکری تربیت کی جاتی ہے ۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں غلطی سے بھی ان کا تذکرہ
نہیں ہوتا ۔ اسرائیل کے سکولوں میں بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ آل اسرائیل یا بنی
اسرائیل حقیقی انسان ہیں ان کے علاوہ سب وحشی حیوان ہیں ، ان کی شکلیں انسانوں کی
ہیں لیکن ان کی روحیں پلید جانوروں کی ہیں ۔ یہ سب یہودیوں کی خدمت کے لئے پیدا
کیے گئے ہیں ۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہودیوں کی خدمت کریں اگر وہ ایسا نہیں
کرتے تو ان کو قتل کردیا جائے، ان کا ایک دودھ پیتا بچہ بھی زندہ نہ چھوڑا جائے
کیوں کہ سانپ کا بچہ بڑا ہوکر سانپ ہی بنتا ہے ،اور یہ ساری تعلیمات ان کے مذہبی
اور اجتماعی تربیتی سلسلے کا حصہ ہیں ۔سکولوں میں پڑھنے والوں کو بتایا جاتاہے
انسانی شکلوں میں ان باغی جانوروں کو قتل کرنا اسرائیلیوں کی ذمہ داری ہے اس لیے
ہر اسرائیلی مرد ہو یا عورت اسے رسمی یا غیر رسمی طور پرفوجی ہونا چاہیے ۔
اسرائیل کے پہلے صدر ڈیوڈ بن گوریان نے خو ب وضاحت کے ساتھ
کہاتھا کہ "اسرائیل صرف اور صرف ایک فوجی معاشرہ ہے "۔بن گوریان نے جس
طرح کہا بالکل اسی طرح تقریبا 7دہائیوں کی کوششوں کے نتیجے میں اب اسرائیلی معاشرہ
جنگ وجدل کو پسند کرنے والا ایک ظالم عسکری معاشرہ بن چکا ہے اور فوجی رنگ اس پر
بہت غالب ہے ۔ بسوں ، گاڑیوں ، ہر دفتر کے سامنے اور ہرگلی میں فوجی موجود ہوتا ہے
۔ تمام اداروں کی سربراہی فوجی آفیسرز کرتے ہیں ، ہر شخص کا مزاج عسکری ہے اور ہر
ایک فرد خود کو فوجی سمجھتا ہے ۔ ارنیکزین نامی ایک اسرائیلی مصنف لکھتے ہیں کہ
اسرائیل میں تعلیمی نصاب ایسا بنا ہوا ہے کہ ہر یہودی بچپن سے عسکری زندگی سے جنون
کی حدتک محبت کرنے لگتا ہے اور سارے انسانوں کے خلاف جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ
سمجھنے لگتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں سب سے پہلے یہ درس دیا جاتا ہے کہ ہر
یہودی اللہ تعالی کی موعودہ زمین پر اللہ کا خاص اور امتیازات سے بہرہ مند بندہ ہے
اوریہودکے علاوہ سب goyam (غیر انسانی مخلوق) ہیں ۔ ان کی روحیں حیوانوں کی ہیں ،یہ
یہودیوں کی خدمت اور ان کی لذت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ یہود کی ذمہ داری ہے کہ
گویم کو مقدس زمین سے دور رکھیں ۔ اگر غور کیا جائے تولگتاہے صہیون ازم تعلیمی
نصاب کا حصہ نہیں بلکہ تعلیمی نصاب صہیون ازم کا حصہ ہے ۔حیفہ کے ایک سکول کے استاد
ایلی بویونامی ایک یہودی استاد نے لکھا ہے کہ ہمارے نصاب میں عرب اسرائیل جنگ کو
ایک نہ ختم ہونےوالی جنگ سمجھا گیا ہے جس کے باعث امن لانے اور مسائل کے حل میں
بہت بڑی رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں اس نصاب کی بنیاد صہیونیت پر قائم ہے، جو سارے عرب
اور خصوصا فلسطینیوں کے خلاف نفرت بڑھاتاہے ۔ اس نصاب میں فلسطینیوں کو شرپسند،
انتہاءپسند اور حیوانی نسل قرار دیا گیا ہے ۔ سگرولھین نامی یہودی مصنف اس کا
اعتراف کرتا ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ عرب مسلمان گویم ہیں ۔ یورپین ہمارے سامی
دشمن اور سوشلسٹ پسماندگی کے نمائندے ہیں ۔اسرائیل کے تعلیمی نصاب کے مذہبی حصے
میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے پیغمبروں کو حکم دیا ہے کہ گویم
یعنی غیر یہودی انسانوں کو قتل کردیں ۔ مرد ہوں یا عورتیں ، چھوٹے ہوں یا بڑے، بلاتفریق
مارے جائیں ۔ ان کی فصلیں ،باغات اور گھر جلادیے جائیں ۔ اس کے لیے دلیل کے طور پر
عہد نامہ عتیق میں میمویل اور شاہ ساول کے اختراعی قصے پیش کیے جاتے ہیں ۔ ان من
گھڑت قصوں میں یہ بھی آیا ہے کہ گویم کے خلاف یہودیوں کی لڑائی میں خدایہود کی مدد
کے لیے مقابل پر آگ اورپتھر کی بارش برساتے ہیں یہودی بچے جب یہ اور اس طرح کی
دیگرچیزیں تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں تو شعوری عمر کو پہنچتے پہنچتے ان کا یہ
عقیدہ بن جاتا ہے کہ یہود کے علاوہ سارے لوگوں کو مارنا ان کا مذہبی فریضہ ہے ۔
دلچسپ بات تو یہ کہ یہود کے عقائد کے مطابق اب بھی اللہ جل
جلالہ اپنے خاص بندوں سے ہم کلام ہوتے ہیں اور وہ خاص بندے (ربی) یہود کے مذہبی
رہنما ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ انہیں حکم دیتا ہے کہ آگے بڑھو اور عربوں کو
قتل کرو۔ یہود کے مذہبی رہنما اسی عقیدے کی رو سے مسلسل ایسے فتوے جاری کرتے ہیں
جن میں فلسطینیوں کے قتل عام کو نہ صرف جائز قراردیا گیاہو بلکہ یہ بھی کہاجاتا ہے
کہ اس عمل سے اللہ تعالی خوش ہوتے ہیں ۔ اسرائیل کے سابقہ بڑے ربی (مذہبی پیشوا)
"مرداخایی ایلیاھو" نے کچھ عرصہ پہلے یہ فتوی جاری کردیا تھا کہ
فلسطینیوں کا قتل یہودیوں کی مذہبی ذمہ داری ہے ۔کچھ عرصہ پہلے "ایلیازارملمدہ" نامی ایک یہودی رِبی نے یہ فتوی جاری کیا
کہ اسرائیلیوں پر فرض ہے کہ فلسطینیوں کی فصلیں اور باغات جلادیں ۔ ان کے جانورختم
کردیں ۔ ان کے چشموں میں زہر ڈالدیں ۔ستمبر 2005ءمیں ڈف لیز کی سربراہی میں
اسرائیل کے بلند مرتبہ مذہبی رہنماؤں نے
ایک فتوی جاری کیا تھا جس میں اس وقت کے وزیراعظم ایریل شیرون کو نہ صرف یہ اجازت
دی گئی تھی بلکہ ان پر زور دیا گیا تھا کہ فلسطینیوں کے سارے گاؤں کو نشانہ بنادے جیساکہ خدا شاہ ساول اور شاہ داود (نعوذباللہ
من ذلک)کاحکم ہے کہ چھوٹے بڑے کی تفریق کے بغیر سارے گویم کا قتل عام کیا جائے ۔ اسرائیل
کے مذہبی پیشوا جو فتوی جاری کرتے ہیں وہ پھرقانونی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں اور
نصاب کا حصہ بن جاتے ہیں ۔یہود کے مذہبی پیشوا یہودیوں کو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو
یہودی عرب مسلمانوں کے قتل عام میں کامیاب ہوجائے وہ ولایت کے بلند مقام پر پہنچ
جاتا ہے ۔
باروخ گولڈ سٹین جس نے 1994ءمیں مسجد ابراہیمی میں فلسطینیوں
پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ سجدے میں تھے اس واقعے میں 29افراد شہید اور کئی زخمی
ہوگئے اسرائیلی مذہبی رہنماؤں نے یک
زبان ہوکر اس شخص کو ولایت کے بلند مرتبے پر پہنچادیا ۔ اس کی سیرت پرکتابیں لکھی
گئیں ۔ اورآج "قریات اربع" نامی مقبوضہ علاقے میں اس کی قبر پر جوق
درجوق یہودی مرد اور عورتیں اس لیے آتی ہیں کہ مسلمانوں کے اس قتل عام کی وجہ سے
یہودی مذہبی پیشواؤں اور رہنماؤں کے کہنے پر وہ بہت بڑا ولی بن گیا ہے۔
ہر اسرائیلی تعلیمی ادارے کے طلبہ کو سال میں کئی مرتبہ فوجی
مراکز اور محاذوں کا وزٹ کرایاجاتا ہے تاکہ ان کے مزاج میں عسکریت پسندی خوب راسخ ہوجائے
، انہیں ہر طرح کے اسلحوں کی پہچان ہوجائے اوراپنے ملک کی عسکری طاقت کا غرور ان
کے دل میں بیٹھ جائے ۔ جو طلبہ اسلحہ سیکھنے کے قابل ہوتے ہیں انہیں ہر قسم کے بڑے
اور چھوٹے اسلحہ کا چلانا سکھایاجاتا ہے ۔ ان سے نشانہ بازی کروائی جاتی ہے اور
انہیں مصنوعی جنگوں میں شریک کیا جاتا ہے ۔ ایک طرف فلسطینی مسلمان مجاہدین فرض
کرلیے جاتے ہیں اور دوسری طرف اسرائیلی فوجی،اور پھر فلسطینیوں پر غلبے کی مصنوعی
صورت پیش کی جاتی ہے ،تاکہ بچوں کے حوصلے بلند ہوجائیں ۔ جب غزہ یا فلسطین کے دیگر
علاقوں پر بمباری کی جاتی ہے تو اس وقت بھی تعلیمی اداروں کے طلبہ کو ان مراکز پر
بلایا جاتا ہے ۔ انہیں بڑے بڑے بم دکھائے جاتے ہیں ، ان سے فلسطینی مسلمانوں کے
لیے ان بموں پر مختصر مگر دردناک پیغام لکھوائے جاتے ہیں ۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے
جب فلسطینی مسلمانوں پر کوئی بڑا حملہ ہوجاتا ہے تو حملے کے بعد تعلیمی اداروں کے
طلبہ اسرائیلی فوجیوں کو مبارکباد کے پیغام بھیجتے ہیں کہ انہوں نے خداکے محبوب
بندوں (یہودیوں ) کے دشمنوں کو قتل کیاہے ۔ جنگ میں جو فوجی خوب وحشت اور درندگی
دکھاتے ہیں انہیں ان تعلیمی اداروں میں بلایا جاتا ہے تاکہ طلبہ کو اپنی بہادری
اور دشمن پرغلبے کے واقعات سنائے ۔ یہ اس لیے ہوتا ہے تاکہ اسرائیل میں سکولوں اور
تعلیمی اداروں کا مزاج عسکری رکھا جائے ۔
تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹرز اور پرنسپلز فوجی افسر یا موساد کے
سابقہ سربراہ مقرر کیے جاتے ہیں ۔ اسرائیل کی وزارت تعلیم وتربیت میں Tsafta نامی
دارالمعلمین اسی مقصد کے لیے بنایا گیا ہے ۔ اس دارالمعلمین میں صرف فوجی افسروں
اور موساد کے سابقہ رہنماؤں کو
تربیت دی جاتی ہے تا کہ ان میں ایک اچھے استاد اور پرنسپل کی قابلیت پیدا ہوجائے ۔
اس کے ساتھ اسرائیل میں "یشووت ھاسادیر" کے نام سے
ایک فوجی مذہبی ادارہ بھی قائم ہے ، اس ادارے کی سربراہی اسرائیل کے مذہبی رہنما
یعنی ربی کرتے ہیں ۔ اس ادارے میں مختلف اداروں کے فضلاءلائے جاتے ہیں جہاں انہیں
فوجی اور نسلی برتری کا درس دیا جاتا ہے ۔ ان اداروں کے اخرجات وزارت دفاع اٹھاتا
ہے لیکن یہ ادارے وزارت دفاع کے کنٹرول اور ماتحتی میں نہیں ہیں ۔ تقریبایہ سارے
ادارے بیت المقدس اور فلسطینیوں کے تازہ مقبوضہ علاقوں میں قائم ہیں تاکہ ان کے
شاگرد فلسطینی مسلمانوں کے خلاف عملی کارروائیوں میں آسانی سے حصہ لے سکیں ۔
جب فلسطینیوں کے ساتھ صلح کی باتیں سامنے آتی ہیں تو اس کی
مخالفت سب سے پہلے انہیں اداروں کی جانب سے سامنے آتی ہے ۔ بنظر انصاف دیکھاجائے
تو اسرائیل کا چھوٹا بڑاہر تعلیمی ادارہ درحقیقت دیگر مذاہب کے خلاف نفرت پھیلانے والا،یہودی
نسل میں دوسرے لوگوں پر فوقیت کا ذہن پھیلا نے اور دہشت گردی کی تربیت کرنے
والامرکز ہے ۔
لیکن حیرت اقوام متحدہ ، امریکا اور سارے مغرب کی انصاف پر ہے
جس نے یہ سب دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں ۔ ان سب کے باوجود فلسطینی شرپسند
ہیں اور اسرائیل امن پسنداور صلح جو ہے ۔ اسرائیل کی ساری وحشتیں اور انسان دشمن
اقدامات ان کا حق سمجھا جاتا ہے اور انہیں اچھی نظرسے دیکھا جاتا ہے لیکن اگر
مسلمان اپنا حق مانگنے کے لیے کمزور سی آواز بھی اٹھا تے ہیں اور یا اپنے دین ،
اپنی جان یا اپنی سرزمین اور ناموس کے تحفظ کے لیے کوئی معمولی قدم اٹھاتے ہیں تو
یہ اتنا بڑا جرم سمجھا جاتا ہے کہ اس کے بدلے میں اسے ہر طرح کے برے القابات سے
یاد کرنا جائز سمجھ لیا جاتاہے ۔ اس کے خاتمے کے لیے پوری اسلام مخالف دنیا
کااتحاد اور اس کے خلاف جنگ قانونی جنگ مان لی جاتی ہے ۔ بقول شاعر :
ہم آہ بھی کرتے ہیں توہوجاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں
توچرچانہیں ہوتا
دشمن سے تو یہی توقع کی جاسکتی ہے اور یہی اسکی تاریخ ہے۔
افسوس تو مسلمانوں کے درمیان موجود ان فکری غلاموں کی حالت پر ہے جنہوں نے مغربی
آقاؤں کی اتباع اور تقلید کرکے حقائق سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔
مغرب کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر دین ، مدارس اور اسلامی شعائر کے خلاف کفارکا
موقف اختیارکیا ہوا ہے ۔ کفار ہی کی طرح ان سے دشمنی روارکھے ہوئے ہیں ، اور جب ممکن
ہوتا ہے تو ان کے خلاف ان کا عملی اقدام بھی دشمنوں سے کم نہیں ہوتا۔یہ بہت حساس
اور اہم مراحل ہیں ،تمام مسلمانوں خصوصا طلبہ اور باہمت نوجوانوں کی ذمہ داری ہے
کہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور یہود کے بڑے اور طویل جھگڑوں سے اسلامی دنیا کی
حفاظت کے لیے اپنی صلاحتیں بروئے کار لائیں ۔ اس سے کوئی دریغ نہ کریں ۔ دشمن کی
مزید بڑی اور طاقتور موجوں کا انتظار نہ کریں اور اپنے دین،اپنی جان ، اپنی عزت
وناموس اور اسلامی سرزمین کے دفاع اور دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش
کریں ورنہ
تمہاری داستان بھی ہوگی داستانوں میں
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “ دینی مدارس اور اسرائیلی سکولز ”
ایک تبصرہ شائع کریں