پیر، 4 جنوری، 2016
سِتارۂ سحر
آسمان پر بہت سے ستارے ٹمٹما رہے تھے۔۔۔ ایسے میں ایک جانب،
ایک ستارہ بجھ گیا۔۔۔ مگر ساتھ ہی ایک کائنات منوّر کر گیا۔۔۔یہ بجھنا گویا دلیلِ
راہ تھا۔۔۔یا اللہ!۔۔۔راہِ جہاد کیسی پاکیزہ راہ ہے ۔۔۔ کیسے کیسے پاکیزہ نفوس اس
میں اپنی جانیں وارتے ہیں!۔۔۔دِل کی کیفیات عجیب تھیں۔۔۔ خوشی کے آنسو بھی مسلسل
بہہ رہے ہیں، کہ ہمارے ’’طیّب بھائی‘‘، مالک کا انتخاب ٹھہرے اور غم جدائی کا ، جس
کا زخم، صرف جنت ہی کے مرہم سے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ وہ جنت جہاں اپنوں سے کوئی جدائی
نہیں۔
ہمارے طیّب، زندہ شہید تھے اور اب شہید ہو کر بھی زندہ ہیں۔
دل اکثر ان کی عجیب خوبیوں کو دیکھ کر ان
کی شہادت کی پیش گوئی کر دیتا ۔۔۔بے اختیار ان کی حفاظت اور لمبی عمر کی دعا
نکلتی۔ طیّب بھائی اور میں جب بھی اکٹھے
ہو تے اکثر ابتدائے کلام اللہ کا ذکر ہی ہوتا۔ کئی مجالس میں ہم دونوں
شہیدشیخ احسن عزیز رحمۃ اللہ علیہ کے
اشعار کا بھی تبادلہ کیا کرتے۔ آج بھی طیّب بھائی کے تذکرےہی کی محفل ہے اس لیے شہیداحسن عزیز ؒ کی ایک نظم کے چند مصرعے تحریر کیے دے رہا ہوں۔ جب مجھے
طیّب بھائی جان کی شہادت کی خبر ملی تب بھی میرے ذہن میں جو پہلا خیال تھا وہ اس
سے ملتا جلتا تھا:
سچے لوگ تھے
سچ کی خاطر
سچا کر کے وعدہ اپنا
سچے دیس سدھار گئے!
اور سچ ہے، طیّب بھائی ایسے
ہی تھے۔
مندرجہ بالا
مصرعے اس آیتِ قرآنی کے مفہوم سے ہیں:
مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا
عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ
انہی اِیمان والوں میں وہ لوگ بھی
ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا، اُسے سچا کر دکھایا۔ (سورۃ الاحزاب: 23)
آپ میرے لیے سراپا شفقت رہے۔ جب تک آپ ہمارے درمیان
رہے محبتیں بانٹنے والے بن کر رہے۔ اللہ سے ڈرتے رہے اور اللہ سے
ڈراتے رہے۔ اکثر مجاہد ساتھیوں کی
مجالس میں (جن میں، احقر بھی شریک رہا)
شہداء کا تذکرہ چھیڑ دیتے۔ اس تذکرے کا مقصود شہداء کی صفات و مناقب جاننا ہوتا، کئی بار مشاہدہ میں آیا کہ وہ صفات
سننے کے بعد ہمارے طیّب ان صفات کا پیکر
بن جاتے۔
آج تیسرا روز ہے، کہ آپ شہادت کی وہ منزل پا گئے جو آپ کی شدید
خواہش تھی۔ ان کے تذکرے کی خاطر دِل ابھی تک قوت جمع نہیں کر پا رہاتھا اور ہاتھ
قلم تھامنے کی جان نہیں پا رہےتھے، مگر ایک
تو میری اُن سے شدید محبت نے مجبور کیا کہ میں یہ چار جملے جوڑنے بیٹھ گیا، دوسرا
یہ بات دل جما رہی ہے کہ بلا شبہ اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں فرماتے، إِنَّ اللّهَ لاَ
يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ(سورۃ التوبۃ: 120)۔ اورطیّب بھائی زندہ ہیں، مگر ہم نہیں جانتے۔۔۔ وَلاَ تَقُولُواْ
لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ
تَشْعُرُونَ))
اور جو لوگ اللہ
کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو۔ دراصل وہ زندہ ہیں، مگر تم کو (ان کی
زندگی کا) احساس نہیں ہوتا۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۵۴)
انفاق فی سبیل اللہ
طیّب بھائی کا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا۔ عمر بوقتِ
شہادت تقریباً پینتیس سال تھی۔ آپ کے تین بچے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو نیک بنائے
اور انہیں ہمارے طیّب بھائی کی آنکھوں کی
ٹھنڈک بنائے۔ وہ اپنی شہادت سے کم و بیش
پانچ سال قبل قافلۂ جہاد میں شامل ہوئے۔
سافٹ وئیر انجنیئر تھے۔ آپ کے امیر صاحب
نے آپ کی شہادت کے بعد ہمیں بتایا کہ
طیّب بھائی کی تنخواہ میدانِ جہاد
میں آنے سے قبل لگ بھگ دو لاکھ روپے
ماہانہ تھی۔ جب آپ کو جہاد کی دعوت ملی تو اپنے امیر صاحب کے پاس تشریف لائے
اورکہا کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے جہاد بالنفس سے پہلے جہاد بالمال فرض کیا ہے، تو میں اللہ کی
راہ میں کتنا اِنفاق کیا کروں؟ [جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے کہ:
وَتُجَاهِدُونَ
فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ اور اپنے مال و
دولت اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ (سورۃ الصّف:11)]
آپ کے امیر صاحب نے جواب دیا :
’’ایک روایت میں آتا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص کہیں جا رہا تھا کہ اس نے
آواز سنی کہ کوئی شخص بادل کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ تُو جا اور فلاں شخص کے
باغ میں جا کر برس۔ یہ بات سن کر وہ بادل
ایک طرف کو جانے لگا۔ یہ شخص کہتا ہے کہ اس اشتیاق میں کہ یہ فلاں آدمی کون ہے اور
کیا عمل کرتا ہے کہ بادل کو خاص طور پر اس کے باغ میں برسنے کا حکم ہوا ، میں وہاں
وہاں جاتا رہا جہاں جہاں سے بادل گزرتا رہا۔ آخر کار میں نے دیکھا کہ وہ بادل ایک
باغ پر رکا اور وہاں برسنا شروع ہو گیا۔
میں اس باغ میں داخل ہوا اور اس کے مالک کو سارا ماجرا سنایا اور دریافت کیا کہ
ایسا کیوں ہے؟
باغ کے مالک نے جواب دیا کہ اس کی وجہ یہ ہے مجھے اس باغ سے جو کمائی حاصل
ہوتی ہے میں اس کے تین حصے کرتا ہوں۔ ایک حصہ اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیتا ہوں،
ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے رکھ لیتا ہوں اور ایک حصہ دوبارہ اسی باغ میں لگا
دیتا ہوں۔‘‘
ہمارے طیّب بھائی جان کے امیر صاحب
کہتے ہیں کہ بس اس دن کے بعد، طیّب بھائی
ہر ماہ بلا ناغہ اپنی کمائی کا تیسرا حصہ لا کر میرے حوالے کر دیتے تاکہ یہ پیسہ جہادی امور میں استعمال
ہو سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ کے پیسے دینے میں
دیر ہوئی ہو۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنی پاک کتاب میں فرماتے
ہیں:
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی
مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اُگائے (اور) ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اور
اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (ثواب میں) کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے۔ اللہ بہت وسعت والا
(اور) بڑا علم والا ہے۔ (سورۃ البقرہ: ۲۶۱)
میدانِ دعوت و اعلام کے ایک فدائی شہسوار:
ایک مجاہد عالمِ دین فرماتے ہیں کہ إنّ الإعلامي إستشهادي بلاحزام یعنی ایک ایسا مجاہد جو جہاد کی دعوت کو اعلام (میڈیا) کے ذریعے پھیلانے پر
متعین ہو وہ بارودی بیلٹ کے بغیر ایک
استشہادی و فداکارمجاہد ہے۔ یعنی اعلام و
میڈیا کے ذریعے دعوتِ جہاد کا کام اپنی اہمیت اور خطرات کی وجہ سے استشہادی حملے
کی مانند ہے۔ ہمارے طیّب بھائی اعلام کے فدائی شہسوار تھے۔ آپ شوّال1435 ھ (اگست 2014ء)میں شمالی وزیرستان کے علاقے
لِواڑہ میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر شہید ہوئے۔شہادت کے وقت آپ شیخ ابودجانہ پا شا
رحمہ اللہ کا بیان هذه رسالتنا (یہ ہمارا پیغام ہے)انٹرنیٹ پر
اپلوڈ کر رہے تھے۔ اس دوران امریکی ڈرون
طیاروں نے ان پر پانچ میزائل داغے جس کے سبب آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ اِنّا للہ و اِنّا اِلیہ راجعون، بلا شبہ ہم سب اللہ ہی
کے ہیں اور ہم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(القرآن)
بلا شبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے داعیانِ جہاد کے
سردار حضرتِ حسّان ابنِ ثابت رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے سچ فرمایا:
’’اے حسّان! ان کی ہجو بیان کرو، تمہارے اشعار ان پرتیروں
سے زیادہ سخت ہیں!‘‘
ہمارے عراق میں شہید ہونے والے مجاہد قائد شیخ ابو حمزہ
المہاجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’اعلام کا پارچہ، میزائلوں اور بموں کے پارچوں سے زیادہ
سخت اور بہت خطر ناک ہے۔‘‘
بے شک ہمارا دشمن اس
کام کی اہمیت کو جانتا ہے کہ اعلامی وسائل کے ذریعے کس موثر انداز میں دعوتِ جہاد
پھیلتی ہے، اسی لیے تو وہ اعلام کا کام کرتے مجاہدین پر کروڑوں روپے لاگت کے ہیل فائر (hellfire)میزائل
مارتا ہے، اعلام کا پارچہ واقعی بہت سخت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے
طیّب بھائی جان کی شہادت قبول فرمائےاور ان کے دعوتی و اعلامی کاموں کو رہتی دنیا
تک کے لیے باعثِ خیرِ کثیر بنائے۔آمین۔
ہمارے طیّب بھائی باوجود یہ کہ بہت بلند پایہ تکنیکی
صلاحیتوں کے حامل ہونے کی وجہ سے دنیاوی اعتبار سے نہایت آسودہ حال تھے، مگر پرانے
دور کے آدمی معلوم پڑتے تھے۔ کتابوں میں
جو اسلاف کے بارے میں تواضع اور منکسر
المزاجی کے قصّے پڑھے تو جاننے میں آیا کہ
طیّب رحمہ اللہ کچھ ایسی ہی صفات سے آراستہ تھے۔
پرانے لوگ ہیں ہم، عہدِ نو میں جیتے ہیں
ہماری جانچ کو معیار تو ہمارا ہو
ہماری جانچ کو معیار تو ہمارا ہو
خیال آیا کہ طیّب بھائی نے مجھے اپنے گھر لے جا کر دعوت
کھلانے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔ تو وعدہ یہ ان پر قرض رہا۔۔۔ اور اگلے خیال نے دل کو
خوشی سے بھر دیا کہ وہ دعوت طیّب بھائی جان سے جنّت میں جا کر ان کے محل کے باغ
میں کھاؤں گا، ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی طیّب بھائی کی طرح سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرمائے،
آمین۔
بلاشبہ ہمارے طیّب ایسے ہی تھے کہ مالک کا انتخاب ٹھہرتے
اور ہمارا اُن کے بارے میں یہی گمان ہے۔ ایسے ہی کسی جگمگاتے ستارے کے بارے میں
شیخ احسن عزیز نے فرمایا تھا:
دلیلِ راہ
بن کے جو ستارۂ سحر رہا
بجھا تو روشنی کی کائنات دِل میں بھر گیا
بجھا تو روشنی کی کائنات دِل میں بھر گیا
و آخر دعوانا ان الحمدللہ ربّ العالمین
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “سِتارۂ سحر”
ایک تبصرہ شائع کریں