اتوار، 27 دسمبر، 2015

افغان طالبان ،مذاکرات اور پاکستانی دانشور




پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی کیاحقیقت ہے؟
طالبان کے نئے امیر ملا منصور بھی پچھلے امیر ملا عمر کی طرح زیرک ہیں جو کسی بھی بیرونی طاقت(بشمول پاکستانی اسٹیبلشمنٹ) کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں،اور جنہوں نے ملا عمر کی وفات کے بعد تعزیت و بیعت کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے جنگ کو امریکی انخلا اور طالبان حکومت کے قیام تک جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا،اور تب تک کسی قسم کے مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا۔یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ طالبان افغان حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے شروع سے ہی انکاری ہیں کیونکہ وہ افغان حکومت کو امریکہ کا مکمل آلہ کار سمجھتے ہیں اور انہیں ان امور میں مکمل بااختیار نہیں سمجھتے اور ملک میں جاری خانہ جنگی کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھتے ہیں اس لیے امریکی انخلا کے بعد ہی صرف امریکہ سے امن مذاکرات کے خواہاں ہیں۔اس لیے ان مذاکرات کی حقیقت یہیں واضح ہو جاتی ہے مگر طالبان نے حالیہ کچھ عرصے کے دوران عالمی میڈیا کی مذاکرات سے متعلق پھیلائی گئی خبروں اور مختلف ممالک کے سرکاری عہدیداروں کے بیانات کو مسترد کر دیا ۔
افغان طالبان کا اعلامیہ جس میں مذاکرات سے لاتعلقی کا اظار کیا گیا۔

امن مذاکرات کےآغاز سے متعلقہ افواہات کے بابت امارت اسلامیہ کا اعلامیہ

ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ جلد ہی چین یا پاکستان میں امارت اسلامیہ اور کابل انتطامیہ کے درمیان امن مذاکرات شروع ہونگے۔اس بارے میں امارت اسلامیہ نے تمام صلاحیت سیاسی دفتر کو دی ہے، جبکہ دفتر اس سے عمل سے آگاہ نہیں ہے۔امارت اسلامیہ کی اپنے مؤقف اور پالیسی کی رو سے سیاسی امور کے لیے خصوصی اعضاء ہیں۔ ماضی میں بھی اس سے متعلق کئی بار وضاحتیں نشر ہوکر امارت اسلامیہ کی پالیسی واضح ہوئی ہے



چین میں کابل انتظامیہ سے ملاقات کی تردید کا ایک اور بیان
http://www.shahamat-urdu.com/?p=61
دوسری بات یہ ہے کہ ملا عمر کی وفات کے اعلانا ت کے بعد چند ایک مخصوص کمانڈر اور گروہ طالبان کے نئے امیر کی سربراہی قبول کرنے سے انکاری ہیں۔اور ان میں سے اکثریت افغان حکومت سے مذاکرات کی حامی ہے۔اس میں سے ایک فدائی محاز ہے جسے2006 میں ہی طالبان کی صفوں سے نکال دیاگیا تھا(اس گروپ کے رہنماؤں میں سے ایک کی پشاور میں رہائش ہے اور آئی ایس آئی سے قریبی تعلقات کے الزامات ہیں)،اسی طرح سابقہ طالبان کمانڈر منصور داداللہ ہیں(جنہیں حال ہی میں پاکستانی ایجنسیوں کی قید سے رہائی ملی ہے،اور کچھ ذرائع کے مطابق یہ رہائی مخصوص مقاصد کے تحت عمل میں آئی)۔ان کے علاوہ چند مخصوص کمانڈر جنہیں مری مذاکرات میں طالبان کا نمائندہ سمجھا جا رہاہے وہ بھی نئے امیرکی سربراہی اور شوریٰ کا فیصلہ قبول کرنے سے انکاری ہیں (گویا یہ لوگ فی الحال طالبان کے نظم سے نکل چکے ہیں) ،جبکہ طالبان کی شوریٰ اور نئے امیر ملا منصور مذاکرات سے متعلق وہی موقف رکھتے ہیں جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ایسی ہی چند لوگوں نے ملا عمر کے بیٹے اور بھائی کو ملا منصور اور شوریٰ کے خلاف کرنے کی کوشش کی مگر یہ کوشش ناکام گئی اور ملاعمر کے بیٹے اور ان کے بھائی نےملا منصور کی اطاعت کا اعلان کر دیا۔اس لیے اگر کچھ لوگ مذاکرات کے حامی ہیں یا جنہیں طالبان کا نمائندہ سمجھا جا رہاہےوہ طالبان نہیں ہیں بلکہ انہیں افغانستان میں آئی ایس آئی کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے۔یہ ہے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کیے جانے والے مذاکرات کے دعووں کی حقیقت۔

0 Responses to “افغان طالبان ،مذاکرات اور پاکستانی دانشور ”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ