بدھ، 13 اگست، 2014
قصہ افغانستان کا
[یہ واقعہ، ایک پاکستانی مجاہد کا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔ جو خود افغانستان میں مجاہدین ِطالبان کے دستوں میں شامل ہوکر وہاں مصروفِ جہاد ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ مجاہدین طالبان صلیبی حملہ آوروں سے قتال کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو انصاف کی فراہمی، عوام کو سہولیات پہنچانے کی فکرہمیشہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ڈالر کےپجاری میڈیا اور خواہشاتِ دنیا کے اسیر صلیبی لشکروں کے سپاہی جس آنکھ اور زبان سے مجاہدین کے خلاف صبح و شام مختلف مناظر اور واقعات دکھاتے ہیں۔بعض اوقات ایک مخلص مسلمان بھی یہ سمجھتا ہے کہ حالات بالکل ویسے ہی ہیں، جیسے میڈیا پر دکھائے جارہے ہیں۔جبکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے ، اس پر عمل کرنے والا بنائے اور اس پر استقامت نصیب کرے، امین، ہمیں شیطان کے وسوسوں، اس کی شیطانی چالوں سے محفوظ رکھے۔ صلیبی لشکروں کو تباہ و برباد کرے، ڈالر کے پجاری ، صلیبی لشکروں کے پیادہ سپاہی کو ہدایت دے کہ وہ دین کی طرف پلٹ آئیں، یا پھر ان کا انجام مجاہدین کے ہاتھوں ہو۔ امین یا رب العالمین]
دو سال قبل بہار کے موسم میں ہم کچھ لوگ صوبہ لوگر میں تھے تو ایک صبح ایک گاؤں کے باہر کھیتوں میں وہاں کے مقامی کمانڈر کے ساتھ نشانہ بازی کا مقابلہ کر رہے تھے۔
ایسے میں گاؤں کے ایک شخص کا مرغ سامنے آگیا اور وہ اس مقامی کمانڈر کی گولی کی زد میں آگیا اور مر گیا۔
وہ گاؤں والا بھاگا بھاگا آیا کہ ‘‘تم نے میرا مرغ کیوں مار دیا؟’’۔
مقامی کمانڈر نے اسے زیادہ گھاس نہیں ڈالی اور کہا کہ ‘‘جاؤ کچھ نہیں ہوتا ایک مرغ ہی تو تھا’’۔
جن علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ہے وہاں ہفتے میں ایک بار ایک وفد لازمی چکر لگاتا ہے جس کے اندر ایک قاضی بھی ہوتا ہے اور وہ لوگوں کے مسائل سنتے ہیں، اور ان کو حل کرتا ہے۔
دو دن بعد ہی وہاں وہ وفد پہنچ گیا تو اس دیہاتی نے جا کر اسے شکایت کی کہ یہاں کے مقامی کمانڈر نے میرا مرغ مار دیا ہے۔ تو قاضی نے کہا کہ‘‘ اس کمانڈر کو بلا کر لاؤ’’۔میں بھی اس وفد کے پاس موجود تھا اور جو اس میں قاضی تھا وہ انتہائی دبلا پتلا سا نوجوان تھا۔ جبکہ جس کمانڈر کو بلایا تھا وہ اچھا خاصا تگڑا آدمی تھا۔ میں اپنی عام لوگوں والے تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ اتنا تگڑا طاقتور کمانڈر اس بیچارے نحیف سے قاضی کو کہاں لفٹ کروائے گا۔
لیکن جب وہ آیا تو وہ کمانڈر قاضی کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ قاضی نے پوچھا کہ ‘‘جو اس دیہاتی نے الزام لگایا ہے وہ ٹھیک ہے؟’’تو وہ کمانڈر مان گیا۔قاضی نے اسے حکم دیا کہ تمہارے پاس 2 گھنٹے کا وقت ہے بالکل اسی مرغ جیسا مرغ ڈھونڈ کر لاؤ اور اس دیہاتی کا حق ادا کرو۔
وہ کمانڈر وہاں سے بھاگا سارا گاؤں بھا گتا پھرا، لیکن اس گاؤں میں ویسا مرغ کہیں نہیں تھا تو وہ تیزی سے ساتھ والے گاؤں پہنچا ۔وہاں اسے خوش قسمتی سے مرغ مل گیا۔ وہاں سے وہ مرغ خرید کر لایا اور لا کر پیش کر دیا۔
قاضی نے دیہاتی سے پوچھا کہ ‘‘کیا یہ ویسا ہی ہے جیسا تمہارا تھا؟’’۔ تو دیہاتی نے ‘‘کہا جی بلکہ یہ اس سے زیادہ صحت مند ہے’’۔
تو قاضی نے کہا کہ‘‘ یہ تو دیہاتی کا حق ادا ہو گیا۔ اب جو تم نے اسے اسی وقت اس کا حق ادا نہیں کیا اس کی سزا کے طور پر تم اب اس علاقے کے کمانڈر نہیں رہے ’’۔اور اسے ایک اور علاقے کا بتایا کہ اس علاقے میں چلے جاؤ اور وہاں کے کمانڈر کے تحت جا کر کام کرو۔
یہ سب میرے لئے بہت حیران کن تھا اور میں تب اس سے بہت متاثر ہوا۔ لیکن اب دو سال گزرنے کے بعد میرے لئے یہ بات معمول کی بات بن چکی ہے۔ یہاں اسی طرح فوری حق ادا کیا جاتا ہے اور غلطی کرنے والا چاہے جتنا بھی بڑا ذمہ دار ہو اسے فوری معزول کر دیا جاتا ہے۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “قصہ افغانستان کا”
ایک تبصرہ شائع کریں