پیر، 26 اکتوبر، 2015

مجاہدکےعہدوپیماں کے دس نکات



شہیدڈاکٹرعبداللہ عزامؒ  کی کتاب مجاہد کا زادِ راہسے انتخاب
امام حسن البنا شہیدؒنے ایک مومن اور مجاہد کی صفات کا احاطہ یوں فرمایا ہے: ''ہمارے عہدو پیماں کے دس اجزا ہیں'' انہیں یاد کرلیجئے:
1۔ فہم
فہم سے میری مراد یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا یقین ہو کہ ہمارا طرز فکر خالص اسلامی ہے۔ اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ یہ سلطنت بھی ہے اور وطن بھی یعنی حکومت بھی ہے اور رعایا بھی۔ اسلامی احکامات سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے قرآن و حدیث ہی علم کا منبع ہیں۔
2۔ اخلاص
اخلاص سے میری مراد یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے قول و عمل اور ہر طرح کی جدوجہد میں صرف رضائے الٰہی اور اچھے انجام کو اپنا مقصود بنائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ وبذالک امرت
'' کہو، میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے۔''
اس سے ایک مسلمان اپنے دائمی نعرے اللہ غایتنا (اللہ ہی ہمارا مقصود ہے) واللہ اکبر وللہ الحمد اللہ سب سے بڑا ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کو سزا وار ہیں کو سمجھ لیتا ہے۔


  3۔ العمل
عمل سے میری مراد ایسا عمل ہے جو علم و اخلاص کا پھل ہو۔ اللہ نے منافقین کے بارے میں فرمایا:
وقل اعملوا فسیری اللہ عملکم ورسولہ والمومنون و شردون الی عالم الغیب والشھادة فینبکم بما کنتم تعملون۔
'' ان سے کہہ دو کہ اپنا کام کئے جاؤ جلد ہی اللہ، اس کا رسول e اور ایمان دار لوگ تمہارے کام کو دیکھیں گے۔ جلد ہی تم اس ہستی کے پاس واپس چلے جاؤ گے جو ظاہر اور پوشیدہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ ہستی تمہیں بتائے گی جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔''
4۔جہاد
جہاد سے میری مراد وہ فریضہ ہے جو اپنی اسی حیثیت میں قیامت تک قائم رہے گا جیسا کہ رسول اللہﷺکا فرمانِ مقدس ہے:
عن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:
من مات ولم یغزولم یحدث نفسہ یغزو مات علی شعبة نفاق
''حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے: نبیﷺنے فرمایا جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس نے نہ جہاد کیا اور نہ جہاد کا ارادہ دل میں رکھا، وہ نفاق کی ایک حالت میں مرا۔''[مسلم،ابوداؤد،مسنداحمد[
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وجاھدوا فی اللہ حق جھادہ
'' اللہ کی راہ میں اس طرح جہاد کرو کہ جہاد کا حق ادا کر دو۔''
اس سے ہی مجاہد فی سبیل اللہ کا یہ دائمی نعرہ' پکار اور شعار ہے کہ الجھاد سبیلنا '' جہاد ہمارا راستہ ہے۔''
5۔قربانی
قربانی سے میری مراد یہ ہے کہ جان، مال، وقت، لمحات زندگی اور ہرچیز کو مقصد کی راہ میں خرچ کر ڈالنا۔ دنیا میں کوئی جہاد قربانی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ہم نے جو راستہ اختیار کیا ہے اس میں جتنی بھی قربانی دی جائے' ضائع نہیں ہوتی۔ اس کا اجر بہت زیادہ اور ثواب بہترین ہے۔ ہمارے ساتھیوں میں سے جو شخص قربانی نہیں دے گا' وہ مجرم ہوگا۔ قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ:
ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم واموالھم۔
''کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں۔''
ایک جگہ تنبیہ کی گئی:
قل ان کان اباوکم وابناوکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقتر فتموھا وتجارة تخشون کسادھا ومسکن ترضوتھا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجھاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرہ۔
'' ان سے کہو اگر تمہیں اپنے باپ، بیٹے، بیویاں، خاندان اور وہ مال جو تم کماتے ہو اور وہ تجارت جس میں گھاٹے کا خدشہ تمہیں لاحق رہتا ہے، تمہیں اللہ،رسول ﷺاور اللہ کی راہ میں جہاد کی نسبت زیادہ پسند ہیں تو اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو۔''
6۔ اطاعت
اطاعت سے میری مراد یہ ہے کہ تنگی اور آسانی، خوشی اور ناخوشی ہرحال میں حکم مانا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا:
فان تطیعوا یوتکم اللہ اجر احسنا۔
''اگر تم اطاعت کرتے رہو گے تو اللہ تمہیں اچھا بدلہ دے گا۔''
اس سے ایک مومن اور مجاہد کا یہ شعار بنا کہ
والموت فی سبیل اللہ اسمٰی امانینا۔
''اللہ کی راہ میں موت ہماری بلند ترین خواہش ہے۔''
7۔ ثابت قدمی
ثبات و استقلال سے میری مراد یہ ہے کہ ہر مومن مجاہد اپنے مقصد کے حصول کی خاطر سرگرم عمل رہے۔ خواہ مدت عمل کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہوجائے۔ اس میں سالہا سال ہی کیوں نہ لگ جائیں۔ یہ کام ہر مجاہد کو اس وقت تک جاری رکھنا ہوگا جب تک وہ اپنے رب سے نہیں جاملتا۔ اس وقت وہ دو کامیابیوں میں سے ایک ضرور حاصل کرے گا۔ یعنی یا تو مقصد کو پالے گا یا مقصد کی راہ میں شہید ہوجائے گا۔
قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
من المومنین وجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظرو مابدلوا تبدیلا
'' ایمان دار لوگوں نے اپنا عہد سچا کردکھایا ہے۔ ان میں سے کچھ تو اپنی منزل کو پہنچ گئے ہیں اور باقی انتظار میں ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے مقصد میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں کی۔''
8۔ تجرّد
تجرّد سے میری مراد یہ ہے کہ آپ اپنی فکر کو باقی تمام اشیاء و اشخاص سے ہٹا کر صرف دعوت کے لیے مخصوص کرلیں کیونکہ یہی سب سے اعلیٰ اور جامع مقصد ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
صبغة اللہ ومن احسن من اللہ صبغة۔
'' اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہوسکتا ہے۔''
دوسری جگہ فرمایا:
قد کانت لکم اسوة حسنة فی ابراھیم والذین معہ اذقالوا لقومھم انا برء وا منکم ومما تعبدون من ودن اللہ کفر نابکم وبدابینتا وبینکم العداوة والبغضاء ابدا حتی تومنوا باللہ وحدہ۔ ]المتحنہ:٤[
'' تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کے اُس واقعہ میں ایک اچھی مثال ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: ہمارا تمہارے اور تمہارے معبدوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ہم تمہاری بات نہیں مانیں گے اور ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اس وقت تک موجود رہے گی جب تک تم صرف ایک اللہ پر ایمان نہیں لے آتے۔''
9۔ اخوت
اخوت سے میری مراد یہ ہے کہ دل اور روح عقیدے کی رسی کے ذریعے بندھے ہوئے ہوں۔ عقیدہ ہی سب سے زیادہ پختہ اور قیمتی تعلق ہے۔ بھائی چارہ ایمان کا بھائی چارہ ہے اور تفرقہ بازی کفر کا…سب سے پہلی قوت'' اتحاد'' ہے۔ اور اتحاد محبت کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔
قرآن کریم میں ہے:
والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض۔
'' مسلمان مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔''
ایک اور جگہ فرمایا :
انما المومنون اخواة۔
'' اور بے شک مومن بھائی بھائی ہیں۔''
محبت کا ادنی ٰ درجہ دوسرے شخص کے لیے دل کا صاف ہونا اور اعلیٰ درجہ اس کی خاطر قربانی کرنا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
ومن یوق شح نفسہ فاولیک ھم المفلحون۔
'' جو لوگ ذاتی مفادات سے بچا لئے گئے وہ کامیاب ہیں۔''
رسول اللہﷺکا ارشاد ہے:
المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا۔
'' ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایک دیوار کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت بخشتا ہے۔''
10۔ اعتماد
اعتماد سے میری مراد یہ ہے کہ ماتحت کو اپنے قائد کی قابلیت اور خلوص کے بارے میں پورا پورا اطمینان ہو… ایسا اطمینان جو محبت بھروسہ احترام اور اطاعت پیدا کرتا ہے۔
اللہ نے فرمایا:
فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجربینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما۔
'' تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات ختم کرنے کے لیے تجھے حکم(ثالث) نہ بنائیں پھر تو جو فیصلہ کردے اُس کو اس طرح تسلیم کرلیں کہ اس کے خلاف ذراہ برابر میل ان کے دل میں نہ آئے۔''
یاد رکھئے قیامت دعوت کا ایک جزو ہے۔ قیادت کے بغیر دعوت کا کوئی وجود نہیں۔ کمانڈراور افواج کے باہمی اعتماد ہی سے جماعت کا نظم مضبوط ہوتا ہے اور اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

----------------

0 Responses to “مجاہدکےعہدوپیماں کے دس نکات”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ