بدھ، 21 اکتوبر، 2015
کورٹ کچہری
عبداللہ حفیظ
کسی بھی نظامِ حکومت کی اہم ترین اور بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک عوام کو
انصاف کی فراہمی ہے۔ اگر عوام کو انصاف بہم پہنچانے کے لیے وضع کردہ نظام اپنے
مقاصد میں ناکام رہے تو جہاں ایک طرف حکمران عوام پر اپنا حقِ حکومت کھو دیتے ہیں،
وہیں دوسری طرف معاشرہ بھی جرم و زیادتی
اور قتل و غارتگری کا اکھاڑا بن جاتا ہے۔ ہر فرد انصاف سے ناامید ہو کر اپنے معاملات کو
خود ہی سنبھالنے کی فکر کرتا ہے۔ جب بات نظام کی تنفیذ اور اس کی کارکردگی کی آتی
ہے تو اس میں دو بنیادی عوامل قابلِ غور
ٹھہرتے ہیں۔ ایک، قوانینِ عدل کی حقیقت و ماہیت اور دوسرا عدالتوں کا انتظامی
ڈھانچہ اور کارروائی کا طریقہ کار۔
جہاں تک پاکستان کے عدالتی نظام کی بات ہے تو اس میں کوئی دو راۓ نہیں پائی
جاتی کہ یہ نظام عوام کو انصاف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ اس وقت ملک
کی حالتِ زار اس ناکامی کا بھرپور ثبوت دے رہی ہے۔عوام باقاعدہ طور پر کورٹ کچہری
سے پناہ مانگتے ہیں۔ عدالتوں سے مایوس ہو کر ملزموں کو خود سے سزا دینے کے واقعات
کے تسلسل اور شدت میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کہیں ڈاکوؤں کو زندہ جلاۓ
جانے کے دہشت ناک مناظر ہیں اور کہیں عوام کے محافظوں( پولیس) کی چھترول، کہیں
خاندانی جھگڑوں کی بنیاد پر قتل کی کہانیاں ہیں اور کہیں وہ بھیانک وارداتیں جو
کسی غریب آدمی نے اپنے ساتھ ناروا ظلم و
ناانصافی کے بدلےمیں کر ڈالیں۔ دیوانی مقدمات کا حال یہ ہے کہ چھوٹے سے زمین
کے تنازعے کے لیے عدالت جایا جاۓ تو فیصلے کہ انتظار میں بیس تیس سال بیت جانا
یہاں کا معمول ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران وکیل کی فیسوں اور گاڑی کے کرایوں کو
جمع کیا جاۓ تو متنازعہ رقبہ سے کئی گنا زیادہ زمین خرید لی جاۓ۔ جہاں تک
فوجداری مقدمات کا تعلق ہے تو بڑے سے بڑا با اثر قاتل و ڈاکو شک کا فائدہ اٹھاتا ہوا جرم کے تھوڑے ہی
عرصہ بعد پھر سے کھلی فضا میں دندنا رہا ہوتا ہے اور کئی بے گناہ ملزم سالہا سال
فیصلے کے انتظار میں جیل میں پڑے پڑے اپنی زندگی ضائع کر بیٹھتے ہیں۔
زیادتی کی اس ساری داستان کا جائزہ لیا جاۓ تو پاکستان کا عدالتی نظام ، اپنی
اصل اور کارکردگی ، ہر دو لحاظ سے ناکام اور باطل معلوم ہوتا ہے۔ یہاں کے قوانین،
طریقۂ کارروائی، ججوں کی دیانت، عدلیہ کی آزادی اور حکام کا اخلاص،ہر سطح کی
ناکامی پر شاہد ہیں۔ پاکستان کے عدالتی قوانین انگریز کے برصغیر پر تسلط کی باقیات
میں سے ہیں، جن کا اسلام سے قریب کا بھی تعلق نہیں۔ جب انگریز کی برصغیر پر حکومت
کو قبضہ اور تسلط سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور تھا بھی ایسا ہی، تو اس کے وضع کردہ
قوانین بھی تو جابرانہ قرار پائیں گے جن کا بنیادی مقصد برصغیر کے عوام کو تاجِ
برطانیہ کا غلام بنا کر رکھنا تھا۔پھر عدالتی کارروائی کا نظام بھی اتنا بودا ہے
کہ مجسٹریٹ کی عدالت سے سپریم کورٹ تک مقدمے کی سماعت سالوں لے لیتی ہے۔ سپریم کورٹ میں زیرِ التوا
مقدمات کی تعداد ہر وقت دس ہزار سے زائد ہوتی ہے جبکہ ہائیکورٹ میں اس سے بھی تین
گنا مقدمات فائلوں میں بند پڑے ہوتے ہیں۔ جہاں تک ججوں کی دیانت کی بات ہے تو
پاکستان میں جج اس لیے نہیں بنا جاتا کہ لوگوں کو انصاف فراہم کیا جاۓ بلکہ یہ
ایک طاقتور گدّی ہے جو پولیس تک پر حاوی ہوتی ہے، اس طاقت کو حاصل کرنے اور اس کے
تحت ملنے والے پروٹوکول کے لیے لوگ مقابلے کے امتحان میں بیٹھتےتو ہیں مگر ساتھ ہی
ساتھ سلیکشن کے لیے خفیہ چینل استعمال کرتے ہیں۔ ایسے حرص پرست افسروں سے رشوت کی وصولی کی بھی
توقع لازمی رکھنی چاہیے۔ بڑی سطح پر عدلیہ، حکومت اور فوج کی باہمی کشمکش بھی
دراصل اختیارات ہی کی جنگ کا تسلسل ہے۔ کیا چیف جسٹس کو بحال کروانے کے بعد بھی لوگ
انصاف سے محروم نہیں؟عدالتی نظام میں اگر کوئی جج اصول پسند بننے کی کوشش کرے تو
اسے وفاقی شرعی عدالت یا اسی طرح کے کسی اور بنچ کا حصہ بنا کر، اس کے ہاتھ پاؤں
باندھ دئیے جاتے ہیں۔ رہے حکمرانوں ۔۔۔تو بھلا مجرم بھی انصاف کا خواہاں ہو گا۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “کورٹ کچہری”
ایک تبصرہ شائع کریں