پیر، 14 ستمبر، 2015

دنیا کے بچاو کا راستہ



[شہیدِ امت ، شیخ اسامہ بن لادن ؒ کا  یہ بیان ۱۴۳۱ ہجری میں  السحاب میڈیا نے جاری کیا، جس میں دنیا کے بدلتے موسم ، آلودگی  اور انسانی معاشرے پر اس کے خطرناک اثرات  کے علاوہ امریکہ کی گرتی معیشت پر اہم گفتگو کی ۔ ان بیانات سے شیخ اسامہؒ کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی نمایاں ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے مسلمانوں کو عالمی طاغوت سے آزاد کروانے کےلیے قتال فی سبیل اللہ کے ساتھ ساتھ دنیا کے انسانوں کو مستقبل میں پیش آنے والے خطرات  سے بھی وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے رہتے تھے اور اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ان کو عمدہ بصیرت سے نوازہ تھا۔  جس کا اہم ثبوت ، اِس بیان کے علاوہ، پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاری اور اس کے سدباب  اور سیلاب کے متاثرین کی مدد پر مشتمل دو بیانات ہیں۔]

تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے تمام مخلوق کوصرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا، انہیں خیر کی اتباع اور شر سے اجتناب کا حکم دیا اور انہیں بر و بحر میں فساد مچانے سے روکا۔ اما بعد۔
میری اس وقت کی گفتگو کے مخاطب تمام دنیا کے لوگ ہیں جن سے میں اس گروہ سے متعلق گفتگو کرنا چاہوں گاجو جان بوجھ کر یا انجانے میں موسمی تبدیلیوں اور ان کے خطرناک نتائج کا سبب بن رہا ہےاور یہ کہ اس حوالے سے ہماری عملی ذمہ داری کیا ہے۔ عالمی موسم اوع درجہ حرارت میں تبدیلی محض کسی واہمے یا خیال پر مبنی بات نہیں!بلکہ یہ ایک زمینی حقیقت ہے اور یہ مسئلہ بڑی بڑی عالمی کمپنیوں کے چند لالچی مالکان کی وجہ سے اب تک کسی پائیدار حل تک نہیں پہنچ پایا۔ موسمی تبدیلیوں کےمضر اثرات اس وقت تمام براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں، ایک جانب قحط پھیل رہاہے اور صحرا وجود میں آرہے ہیں تو دوسری جانب جس طرح کے سیلاب اور طوفان کئی دہائیوں میں آیا کرتے تھے اب ہر چند سال بعد آنے لگے ہیں، جبکہ جزیروں کا سکڑنا اور سمندری پانی میں آہستہ آہستہ غرق ہونا اس کے علاوہ ہیں ۔ اور یہ معاملہ روز بروز تیزی پکڑتا جا رہا ہے۔ بے مکان ہونے اور نقل مکانی کرنے والوں سے متعلق اعدادو شمار اکٹھا کرنے والے اداروں کے حساب اور اندازے کے مطابق آئندہ چار دہائیوں میں ایک ارب سے زیادہ لوگ بے گھر اور نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔ 


میری اس گفتگو کا مقصد چند عارضی اور جزوی حل پیش کرنا نہیں بلکہ مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل تلاش کرنا ہے۔ دنیا کے سامنے عالمی موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں کے اعداد و شمار کے ڈھیر لگے ہیں جن میں سے بعض بھوک کے ہاتھوں موت کا شکار ہوئے تو بعض غرق ہو کر۔ جس سال امریکی تحقیقی ادارے 'ناسا'  (NASA) کے ایک بڑے اور ماہر سائنسدان 'جیمز ای ہینسن' (James E Hansen) نے عالمی  درجہ حرارت میں اضافے اور تبدیلی کو ایک سنجیدہ مسئلہ قرار دیا تھا اسی سال بنگلہ دیش میں ایک لاکھ چالیس ہزار  لوگ سیلاب کے نتیجے میں لقمہِ اجل بنےاور دو کروڑ چالیس لاکھ بے گھر ہوئے۔اور تب سے اب تک نقصانا ت  یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ لہذا اس مسئلے کے اصل ذمہ داران کو روکنے اور ان کے ساتھ اپنے برتاؤمیں تبدیلی لائے بغیر کوئی چارہ کار نہیں!  عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی کے اصل ذمہ دارصنعتی۔۔۔۔ اور خاص طور پر ۔۔۔ بڑے صنعتی ممالک ہیں۔  ان میں سے بہت سے کیوٹو معاہدے کے تحت اس بات پر متفق ہو چکے تھے کہ مضر گیسوں کے اخراج میں کمی لائی جائے۔لیکن بش اور اس سے پہلے امریکی کانگریس نے محض چند بڑی کمپنیوں کے مالکان کی رضا کی خاطر اس معاہدے سے انکار کر دیا۔ اس لحاظ سے عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی کے اصل ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ اور انسانیت کے حق میں یہ ان کا کوئی پہلا جرم نہیں!بلکہ عالمی معاشی بحران ، افواہوں کا پھیلاؤ، اجارہ داریاں قائم کرنے اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے پیچھے بھی یہی ہاتھ کارفرما ہیں۔عالمی نظام کو رائج کرنے اور اس کے برے نتائج۔۔۔۔جن میں لاکھوں لوگوں کا غربت کی لکیر سے نیچے جانااور لاکھوں لوگوں کا بے روزگار ہوناشامل ہے۔ ۔۔۔۔ کے ذمہ دار بھی یہی لوگ ہیں۔پھر اس کے بعد جب اپنے بچھائے ہوئے جال میں یہ لوگ خود بھی پھنسنے لگتے ہیں تو ملکوں کے سربراہ اور صدور انہیں اس میں سے نکالنے کےلیے بے دھڑک عام لوگوں کا پیسہ استعمال کرتے ہیں۔اس اعتبار سے لوگوں کے اموال دوہری سطح پر ہڑپ کیے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ کمپنیوں کی اجارہ داری اور فریب کاری کے ذریعے اور دوسری دفعہ حکومتوں کی حیلہ سازی اور دھونس کے ذریعے۔ بڑے بڑے سرمایہ کار فسق و فجور اور قساوتِ قلبی کا شکار ہیں۔ نصیحت آموز الفاظ، کانفرنسیں اور مظاہرے ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔سال 1988 ء میں 'ہینسن'نے واضح الفاظ میں انہیں اور امریکیوں کوموسمی تبدیلیوں کے خطرے سے آگاہ کر دیا تھا، لیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔پچھلی صدی کے اختتام پر منعقد ہونے والی 'کیوٹو کانفرنس'کے مندرجات پر بھی انہوں نے کان نہ دھرے!اور رہ گئے مظاہرے۔۔! تو چھوٹے تو ایک طرف ۔۔ بڑے بڑے مظاہروں کا بھی آپ کوئی فائدہ تلاش نہیں کر سکیں گے! سال 2003ء میں عراق پر حملے سے پہلے دنیا کے ہر کونے میں کروڑوں لوگ مظاہروں میں ایک ہی نعرہ بلند کرتے دکھائی دیے، یعنی: سرخ خون کے بدلے سیاہ تیل۔۔۔۔ نامنظور۔۔۔!لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلاکہ اس مجرم ٹولے کے سربراہ نے ان سب کا مذاق اڑاتے ہوئے معصوم عراقی عوام پر وحشیانہ حملے کا حکم صادر کر دیا، جبکہ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ ان کا ملک سیاہ سونے سے مالا مال تھا۔ انہوں نے ایک کروڑ سے زائد عراقیوں کو قتل کیا، انہیں زخموں سے چور کیا، انہیں یتیمی اور بیوگی کے داغ دیے اور بے گھر ہونے پر مجبور کیا،اور ابوغریب اور گوانتاناموبےکے عقوبت خانے کی داستانیں تو اس سے بڑھ کر ہیں جہاں ہونے والے انسانیت سوز مظالم نے پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لیکن عسرت کے ان سالوں کے بعد بھی ابھی تک کوئی قابلِ ذکر تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوئی۔ ان سب کے بعد اس مجرم ٹولے کے نئے ایجنٹ (اوباما) کو امن کے نوبل پرائز سے نوازا جاتا ہے۔۔! اور وہ انسانیت کی حد درجہ تذلیل اور  دھوکے کی نئی مثال قائم کرتے ہوئے اسے وصول بھی کر لیتا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا کہ ' بدترین آفت وہ ہے کہ جس کے ساتھ طنزکے تیروں کی بارش بھی آئے'۔اس لحاظ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا اس وقت چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سرکردہ لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکی ہے،  جو اسے مسلسل ہلاکت کے گڑھے کی جانب گھسیٹ رہے ہیں۔ آج کی سیاست عوام الناس کی مصلحت کو مدِ نظر رکھ کر عقلی تقاضوں کی بجائے کھوکھلے سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردارچند پٹرول کے لٹیروں اور جنگی مجرموں  کے ہاتھ کا کھلونا بن چکی ہے۔ 'نوم چومسکی' نے امریکی سیاست کو جرائم پیشہ مافیا  کی سیاست سے تشبیہ دی ہے، اور اس کی یہ بات ہے بھی درست۔۔ اس اعتبار سے اصل فسادی اور دہشت گرد یہی لوگ ہیں! جنہیں قرار واقعی انجام تک پہنچانا اور انکے وحشیانہ اعمال سے روکنا لازم ہے!اس مقصد کے حصول کے لیے میں آپ کے سامنے چند نکاتی حل پیش کرتا ہوں:
اوّلا: بلاشبہ آب و ہوا اور ماحول میں فساد، قلب و نظر  اور اعمال کے فساد ہی کا ایک نتیجہ ہے اور یہ دونوں فساد باہم لازم و ملزوم ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے سابقہ اقوام پر ان کے قلوب کے فساد اور بد اعمالیوں کے نتیجے میں عقوبت نازل فرمائی،  اور ان پر طوفان مسلط کیے۔۔۔ جیسے فرعون اور اس کی قوم پر۔۔۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: "بحر و بر میں انسانوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد برپا ہو گیا،  تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مز ہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ لوٹ آئیں" (الروم 41) سو سعادت مند ہے وہ جو عبرت حاصل کرتے ہوئے استغفار کرے اور تمام عالم کی جانب مبعوث کی گئی آخری رسالت کے طریقے پر اپنی عبادت کو  اللہ وحدہ لا شریک کے لیے خالص کر لے۔
ثانیاً: تمام امور میں میانہ روی کی روش اپنائیں! خاص طور پر کھانے پینے، لباس، رہائش اور بجلی و ایندھن کے استعمال میں اسراف  اور تعیش پسندی سے پرہیز کریں!
ثالثاً: جب فیکٹریاں ہی بند ہو جائیں گی تو فیکٹریوں سے فاضل مادوں کا اخراج  خود بخود بند ہو جائے گا۔ اور یہ انتہائی آسان اور آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔  امریکی اقتصادیات کی مثال سائیکل کے پہیے کی مانند ہے ، وہ جس کی زنجیر میں سے اگر ایک کڑی بھی غائب ہو جائے تو یہ چلنے کے قابل نہیں رہتی۔ امریکی اقتصادی زنجیر کی اہم کڑیوں میں سے ایک اس کا خام مال ، دوسری کڑی سرمایہ اور تیسری کڑی روزمرہ استعمال میں آنے والی اشیاء صرف ہیں۔ ان تمام کڑیوں پر مختلف اعتبار سے ضربیں لگانا ممکن ہے، تاہم آخری کڑی سب سے زیادہ کمزور اور ضرب لگانے میں سب سے زیادہ آسان اور نتائج کے اعتبار سے سب سے زیادہ موثر ہے۔ اگر لوگ امریکی اشیاء کا استعمال بند کر دیں تو زنجیر کی یہ کڑٰی کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جائے گی۔ اور اس کا لازمی نتیجہ مضر گیسوں کے اخراج میں کمی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
رابعاً: بڑی بڑٰ ی کمپنیوں کے مالکان اور ان کے سیاسی حاشیہ نشینوں کا محاسبہ کیا جائے تا کہ وہ انسانیت کو نقصانات پہنچانے کا سلسلہ بند کر دیں۔امریکی عوام۔۔۔ خاص طور پر کترینہ طوفان کے متاثرین اور مالی بحران کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والوں کے لیے یہ کام کچھ مشکل نہیں۔۔۔  کیونکہ موت کے یہ تاجر انہیں کے مابین رہتے ہیں۔۔۔۔ خاص طور پر واشنگٹن ، نیویارک اور ٹیکساس میں!ڈنمارک میں ہونے والی حالیہ کانفرنس میں ان کی غیر سنجیدگی اور ٹال مٹول کے حربے کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ اور کسی پائیدار حل تک پہنچنا تو درکنار ۔۔۔۔ انہوں نے سابقہ حادثات کی ذمہ داری قبول کرنے اور متاثرین کو اس کا معاوضہ دینےتک کی زحمت گوارا نہ کی۔۔۔۔ اور یہ اب تک صرف مال کی خاطر عالمی موسم اور درجہ حرارت سے کھیلنے میں مصروف ہیں۔۔۔۔چاہے اس کی قیمت ہمیں اپنے بچوں کی زندگیوں سے ہاتھ دھو کر ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے!
خامساً: ہمیں چاہیے کہ ڈالر کے استعمال سے پرہیز کریں ! اور جلد از جلد اس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کریں! میں جانتاہوں کہ اس فعل کے نتائج و عواقب انتہائی سخت و گہرے ہوں گے، لیکن انسانیت کو امریکہ اور اس کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے چنگل اور ان کی غلامی سے نجات دلانے کےلیے یہ اہم ترین اقدامات میں سے ایک ہے۔ کہنے والے کتنا ہی کہیں کہ اس فیصلے کے نتائج بڑے سخت ہوں گے۔۔لیکن امریکہ اور اس کی کمپنیوں کی غلامی میں رہنے کا نتیجہ اس سے زیادہ برا  اور نقصان دہ ہے! اس مقصد کے لیے ابتدائی  طورپر افراد کو موقع دینا چاہیے کہ وہ ڈلر اور اس کے ساتھ مربوط دیگر کرنسیوں سے نجات حاصل کر لیں۔ بڑے 'ریزرو' کے حامل ممالک ۔۔ خاص طور پر مشرقی ایشیائی ممالک کے لیے یہ فیصلہ کرنا نسبتاََ زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ وہ  اس کے اثرات کا تحمل کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی  نہیں کہ ڈالر  اور اس کے ساتھ مربوط دیگر کرنسیاں یورو کے آنے کے بعدسے اب تک اس کے مقابلے میں پر اپنی اسی فیصد قدر کھو چکی ہیں۔ اسی طرح گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد ڈالر کے مقابلے پر سونے کی قیمت چار سو فیصد 400% تک بڑھ چکی ہے۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے ڈالر مسلسل خسارے کی جانب بڑھ رہا ہے۔  اور میرے خیال میں یہ خسارہ آنے والے وقت میں سو فیصد  سے تجاوز کر جائے گا۔ عسکری، سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی علوم کے ماہرین کے نزدیک اب یہ حقیقت بالکل واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ کی قسمت کے ستارے گردش میں آچکے ہیں۔ ۔اس کی معیشت مسلسل زوال کی جانب گامزن ہے۔اور ڈالر کی کشتی اب ڈوبنے کو ہے۔ لہذا سمجھ دار وہ ہے جو دوسرے کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرلے۔۔!
آخر میں تمام دنیا کے لوگوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت آپ کے پاس امریکی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا ایک نادر موقع ہے،  کیونکہ اب وہ مصائب کے گرداب میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ عراق کی دلدل میں وہ مزید دھنستا جارہا ہے۔ اور افغانستان کی بھول بھلیوں میں واپسی کی راہ گم کر چکا ہے۔مجاہدین اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے روزانہ کی بنیاد پر اسے مادی اورمعنوی اعتبارات سے کاری ضربیں لگانے مین مصروف ہیں۔ ۔۔ امریکی اب وہاں سے بھی فرار کی راہ تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں ، لیکن انہیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ اور وہ اپنے اقتصادی بحران اور مجاہدین  کے ساتھ مسلسل ٹکر کے بعد افسوس اور حسرت بھری نگاہوں سے شرق و غرب میں اپنی  مقابل ریاستوں کی اقتصادی او رمالی حالت  کو بہتری کی جانب بڑھتا دیکھ رہا ہے۔ سو اے دنیا کے لوگو!بھلا یہ بھی کوئی انصاف اور حکمت کی بات ہے کہ ایک مسئلہ جس کا ضرر تمام عالم کو پہنچ رہا ہو، اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے  کی ذمہ داری صرف مجاہدین کے سر ڈال دی جائے؟ اور پھر آپ سے تو محض اتنا سا تقاضہ کیا جارہا ہے  کہ آہستہ آہستہ ان کے حصار کو تنگ کرتے جائیں ۔۔۔ لہذا پہلے قدم کے طور پر ان کی مصنوعات کا مقاطعہ کریں ! اور خود کو اور اپنے بچوں کو موسمی تبدیلیوں  کے تباہ کن اثرات سے بچائیں۔۔۔۔!کانفرنسوں میں شریک ہو کر زندگی کی بھیک مانگنے کی بجائے عزت اور وقار کی زندگی گزاریں ! کیونکہ ایسی زندگی کا کیا فائدہ جو آزادی سے سانس لینے کا حق بھی سلب کرلے ! اسی طرح آسودہ حال ممالک کو چاہیے کہ وہ امریکہ کو مزید قرض دینے سے اجتناب کریں !کیونکہ یہ سارا مال ضعیف لوگوں پر مسلط ظالمانہ جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے۔ خاص طور پر آپ کے ہمسایہ ملک افغانستان میں۔ جہاں تک مجاہدین کا معاملہ ہے تو وہ اللہ کے حکم سے  حق کے غلبے ، باطل کا قلع قمع کرنے ، اپنے بھائیوں۔۔۔اور خاص طور پر اپنے فلسطینی بھائیوں۔۔۔۔کی نصرت اور ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں بے یار و مددگار ضعیف لوگوں کی فریاد رسی کی خاطر۔۔۔ عراق، افغانستان اور دیگر علاقوں میں اپنا جہادجاری رکھے ہوئے ہیں، اور ان شاءاللہ جاری رکھیں گے۔
وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

0 Responses to “دنیا کے بچاو کا راستہ”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ