جمعرات، 6 اگست، 2015

شیخ انورالعولقیؒ کےویڈیو انٹرویو کا متن



[ربیع الثانی ۱۴۳۲ہجری میں جماعۃ القاعدہ، یمن کے شعبہ اعلام ‘الملاحم میڈیا’ نے شہید الدعوۃ شیخ انور العولقی ؒ سے ویڈیو انٹرویو لیاتھا ۔ جس کا تحریری متن ملحمہ بلاگ پر پیش کیا جارہا ہے۔]
الملاحم: شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربا ن اور رحم کرنے والا ہے۔ تما م تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی اور رحمتیں ہوں۔ ادارہ الملاحم انورالعولقی کے ہمراہ اس خصوصی نشست میں آپ کو خوش آمدید کرکے خوشی محسوس کرتا ہے جنہوں نے ہماری درخواست کو قبول کیا اور ہمیں یہ انٹرویو لینے کا شرف بخشا۔ معزز شیخ آپ کو بھی خوش آمدید۔
شیخ انورؒ:خوش آمدید اور یہاں پہنچنے کے لیے ساری تکالیف اٹھانے کا شکریہ۔
الملاحم: جزاک اللہ شیخ، ہم اس انٹرویو کا آغاز عمومی طور پر امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ میں آپ کے حوالے سے ہونے والے شور سے کرتے ہیں جس میں انہوں نے آپ پر امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں ۱۴ واقعات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔میڈیا کے پھیلائے گئے ان دعوؤں کی کیا حیثیت ہے اور اس حملے کے پیچھے کون سی وجوہات کارفرما ہیں؟
شیخ انورؒ:اس حملے کی وجہ یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں اور اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں نے حسن نضال اور اس کے بعد عمر فاروق کو (جہادکی)ترغیب دلائی اور اب یہ معاملہ بھی جس کا آپ نے ذکر کیا۔ ان سب میں مشترکہ بات ترغیب دلانا ہے۔
کس چیز کی ترغیب دلانا؟ جہاد کی، اس اسلام کی جو اللہ نے اپنے قرآن اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں وحی کیا ہے، اور یہ ایک قصور ہے۔آج امریکہ ایسا اسلام نہیں چاہتا جو امت کا دفاع کرتا ہو، وہ ایسا اسلام نہیں چاہتے جو جہاد کی طرف بلاتا ہو، شریعت کے نفاذ کی دعوت دیتا ہو، جو الولاء والبراء کا درس دیتا ہو۔ وہ نہیں چاہتے کہ اسلام کے یہ دروازے کھلیں اور لوگوں کو ان کی طرف بلایا جائے۔ وہ کیا چاہتے ہیں؟ وہ ایک امریکی، لبرل، جمہوری، امن پسند اور سیکولر اسلام کے خواہاں ہیں، جس کا وہ اپنے بیانات میں تذکرہ اور چرچا بھی کرتے رہتے ہیں جیسا کہ پہلے بھی بہت دفعہ میں ذکر کرچکا ہوں، مثال کے طور پر رینڈ کی رپورٹ میں۔
اب ہمارے پاس ایک فقہ ہے عزت اور انصاف کی پکار کی اور ایک فقہ ہے ذلت اور مغلوبیت کی تہذیب کی۔سی آئی اے کے ایک ممتاز افسر نے کہا کہ اگر ملا عمر ہمارے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو ہم اس کی مخالفت میں ملا بریڈلی کو کھڑا کردیں گے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا کہنا ہے کہ اگر تمہارے پاس علما حق ہیں تو ہمارے پاس بھی جعلی علما ہیں۔ اگر تم اپنے ہاں ملا عمر کو کھڑا کرو گے تو ہم بھی اپنی طرف سے ملا بریڈلی کو میدان میں لے آئیں گے۔
 
اسلامی دنیا میں یہ دل اور دماغ کی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ آج امریکہ ایک خودساختہ اسلام کی ترویج اور تشہیر کررہا ہے بالکل اسی طرح جیسے اس کے آباؤ اجداد یہ کام کرچکے ہیں، انہوں نے عیسائیت کو تبدیل کردیا، یہودیت کو تبدیل کردیا اور اب وہ اسلام کو بدلنے کے خواہش مند ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا دین تو محفوظ ہے ۔ اب عزت کی فقہ ہے جو مقابلے کے میدان میں ہے۔ کچھ داعی اس کی دعوت دیتے ہیں اور کچھ لوگ جو اسلامی میدان میں کام کررہے ہیں مثلا ً آپ القاعدہ کے لوگ اس فقہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آپ کی دعوت عزت اور عزیمت کی دعوت ہے۔ مثلاً ڈاکٹر ایمن الظواہری،جب انہوں نے اوباما کو مخاطب کیا تو اس کو کیا کہا تھا؟ ”اے مسٹر اوباما! اللہ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ مجاہدین کے ہاتھوں امریکہ کو ختم کردے تاکہ ہم سب کوچین میسر ہو اور پوری دنیا کو تمہارے شر سے نجات ملے۔“یوں بات کرنا عزت کے ساتھ بات کرنا ہے۔ یہ امریکہ کے بارے میں مسلمانوں کے نقطہ نظر پر ایک صاف اور واضح خطاب ہے کہ ہم سب تم سے چین حاصل کرنے کے انتظار میں ہیں، تمہارے اس سارے ظلم اور زیادتی کی وجہ سے تمہارے شر سے آرام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ جب اوباما نے مسلم دنیا کا دورہ کیا اور قاہرہ سے گزرتے ہوئے ریاض کا دورہ کیا تو وہاں ایک داعی نے ان کا یہ کہہ کر استقبال کیا کہ ”کتنا مبارک لمحہ ہے اے ابو حسین!“مبارک لمحہ؟ کیا یہ مبارک لمحہ ہے کہ اوباما مسلم دنیا کے قلب میں آئے؟ جزیرۃ العرب میں؟ کیا یہ مبارک لمحہ ہے کہ ہم اوباما کا استقبال کریں؟ آج کی صلیبی جنگ کا قائد، اسلا م کے خلاف جاری جنگ کا سربراہ، اس دور کا فرعون!!!کہ ہم اس کا ان الفاظ سے استقبال کریں؟ یہ ایک عکس ہے ذلت کی فقہ اور مغلوبیت کی تہذیب کا۔اوباما جس نے اسرائیل کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے، اوباما جس نے پاکستان اور افغانستان میں اِن ڈرون طیاروں سے بم باری میں اضافہ کیا اور اب وہ یمن میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ اوباما جس نے صومالیہ اور یمن میں ”دہشت گردوں“کے خاتمے کا تہیہ کیا۔ وہ اوباما جو امریکہ کو نت نئی جنگوں میں جھونکنا چاہتا ہے۔ کیا ہم یوں اس کا استقبال کریں؟ ’کتنا مبارک لمحہ ہے یا ابو حسین‘مبارک لمحہ؟! اوباما کے دورے میں برکت کہاں سے آئی؟
روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے، مدینہ اور مکہ سے صرف چند کلو میٹر کے فاصلے پر،جزیرۃ العرب میں، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دو‘،اب ہم یوں اوباما کا استقبال کرتے ہیں ’کتنا قیمتی لمحہ ہے یا ابو حسین!‘قیمتی لمحہ!
اس طرح کے خطابات امریکہ کو خوش کرتے ہیں اور اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سیٹلائیٹ چینل اس فقہ سے وابستہ لوگوں کی ایسی ہی باتوں سے بھرے پڑے ہیں۔اور جیسا کہ ہم نے کہا ڈاکٹر ایمن جیسے لوگ کیونکہ وہ عزت و حمیت اور حق کی پکارکی فقہ کی نمائندگی کرتے ہیں، امریکہ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے؟ دو طرح کا برتاؤ کرتا ہے۔ یا تو اس شخص کو ختم کردیتا ہے یا اس کی شخصیت کو۔ شخص کو تو وہ قتل کرکے ختم کرتا ہے وگرنہ اس کی شخصیت پر حملہ کرتا ہے۔ اگر اس کو قتل کرنے میں ناکام ہوجائے تو میڈیا کی مہم کے ذریعے اس کی ساکھ کو تباہ کرتا ہے اور اس کی شخصیت کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔آج یہی امریکیوں کا طریقِ کار ہے چنانچہ ہمیں دھیان کرنا چاہیے اور ہوشیار ر ہنا چاہیے۔
الملاحم:یعنی معاملہ یہ ہے کہ حق بات کرنے والے اور اہل ِ حق کو ان کے حقوق دینے کی بات کرنے والے اسلام کے داعی کی ساکھ کو خراب کیا جائے، لیکن امریکہ نے آپ پر فورٹ ہڈ میں کیے گئے بھائی نضال حسن کے آپریشن میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔
شیخ انورؒ:جی ہاں! نضال حسن میرے شاگردوں میں سے ایک ہیں اور میرے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔ مجھے اس بات پر خوشی محسوس ہوتی ہے کہ نضال حسن جیسے لوگ میرے شاگردوں میں سے ہیں۔ اُنہوں نے جو کیا‘بہت بہادری والا کام ہے، بہت زبردست آپریشن تھا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ انہیں ثابت قدم رکھے، ان کی حفاظت کرے اور ان کی جلد از جلد رہائی کو ممکن بنائے۔ انہوں نے جو کام کیا میں اس کی حمایت کرتا ہوں اور ہر اس شخص کو جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتا ہے اور اس کے باوجود امریکی فوج میں ملازم ہے میں دعوت دیتا ہوں کہ نضال حسن کے نقش قدم پر چلے کیونکہ نیک اعمال برے اعمال کو مٹا دیتے ہیں اور میں تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ بھی اس راستے کو اپنائیں، اپنے اقوال سے جہاد کریں یا ہاتھ سے جہاد کریں۔اور جو مثال حسن نضال نے پیش کی ہے وہ بہتر مثال ہے۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس کے ذریعے دوسرے بہت سے مسلمانوں کے لیے نضال حسن کے نقش قدم پر چلنے کے لیے دروازے کھول دے۔
الملاحم: شیخ! آپ اس طرح کی کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں جبکہ امریکہ کی کچھ اسلامی تنظیموں نے اس کارروائی کی مذمت کی ہے اور اس کو دہشت گردی اور شدت پسندی قرار دیا ہے، اور یہ کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلاً ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ’ہم اس بزدلانہ حرکت کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ایساکرنے والوں کو قانون کے تحت سخت ترین سزا دی جائے‘ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ’اور جو بات اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ کرتی ہے وہ یہ کہ اس کا ہدف وہ رضاکار افواج ہیں جو ہمارے ملک کا دفاع کرتی ہیں۔ امریکی مسلمان دہشت گردی کے شکار لوگوں کے لیے دعا کے لیے اپنے ہم وطنوں کے ہمراہ کھڑے ہیں اور زخمیوں اور مرنے والوں کے لواحقین سے اظہارِ افسوس کرتے ہیں۔
آپ ایسے بیانات کا کیا جواب دیتے ہیں اور ایسے موقف کی کیا وجہ ہے؟
شیخ انور:یہ ذلت والی، گری ہوئی، پستی اور مغلوبیت کی باتیں ہی آجکل ان کی باتیں ہیں، لیکن ہم امریکہ کی ان میں سے کچھ تنظیموں کو چند سال قبل تک دیکھتے رہے ہیں کہ یہ تنظیمیں ایک وقت تھا کہ افغانستان میں جہاد کی حامی تھیں، بوسنیا میں جہاد کی حامی تھیں، شیشان میں جہاد کی حامی تھیں، فلسطین میں جہاد کی حامی تھیں اور میں ان دنوں وہیں امریکہ میں تھا۔ہم مساجد کے منبروں پر سے اسلام کی ہر چیز کی طرف دعوت دیا کرتے تھے،جہاد فی سبیل اللہ، خلافت کے قیام کی دعوت، ولاء والبراء۔ کھلم کھلا بات کی جاتی تھی۔امریکہ میں ہمارے لیے یہ باتیں کرنے کی آزادی تھی اور یہ آزادی بہت سے اسلامی ممالک سے بھی زیادہ تھی۔لیکن پھر امریکہ گھیرا تنگ کرتا گیا اور یہی دعوت کی سنت بھی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ابتداء میں قریش ان کو نظر انداز کرتے رہے یہاں تک کہ انہیں خطرہ محسوس ہونے لگااور اسی لیے انہوں نے کہا: ’جب انہوں نے کھلم کھلا دعوت دینا شروع کی تو لوگ ان کے خلاف جمع ہونا شروع ہوگئے۔‘ اسی طرح جب امریکہ نے وہاں پر مسلمانوں کی دی جانے والی دعوت کا خطرہ محسوس کرنا شروع کیا تو ان پر گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا اور آہستہ آہستہ تنگ کرتے رہے۔ آزادی کی فضا تنگ ہوتی گئی یہاں تک کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کے بعد اپنی حد کو پہنچ گئی۔اور وہاں مسلمانوں کے لیے نئے قوانین وضع کیے گئے جن کے بعد امریکہ میں کسی آزمائش کے بغیر بحیثیت مسلمان رہنا اور حق کی طرف دعوت دینا انتہائی دشوار ہوگیا۔چنانچہ دو ہی راستے رہ گئے، ہجرت یا قید۔
جن تنظیموں کا آپ نے ذکر کیا وہ اس تنگ فضا کی چھاؤں میں بات کررہے ہیں جس میں اک مسلمان کو ہمیشہ یہ محسوس کرایا جاتا ہے کہ وہ غلط ہے اور وہ اپنا دفاع کرنا چاہتا ہے۔ بالکل جس طرح سقوط ِ غرناطہ کے بعد اندلس میں مسلمانوں کا حال تھا کہ ہر وقت اپنی وفاداری ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بچ جائیں اسی لیے ان لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا بیکار ہے۔
اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، ہم بھائی نضال حسن کی کارروائی پر بھلا کس طرح نقطہ چینی کرسکتے ہیں؟ انہوں نے امریکی فوجیوں پر حملہ کیا جوکہ افغانستان اور عراق جارہے تھے، اس پر بھلا کس کو اعتراض ہے؟!یہ تو متفق بات ہے،تمام ابنائے آدم کا، سب انسانوں کا اس پر اتفاق ہے بلکہ پالتو جانوروں کا بھی ہے کہ اگر حملہ ہو تو وہ اپنا دفاع کرتے ہیں۔ اگر کسی بلی کو بھی گھیرا جائے تو وہ اپنے بال پھلا کر پنجے نکال لے گی۔ تو کیا اب ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اک مسلمان کو اپنے دفاع کا بھی حق نہیں ہے؟! نضال حسن کا تعلق فلسطین سے ہے اور وہ اپنی قوم کا دفاع کررہا تھا۔ جب جانوروں کی دنیا میں بھی یہ بات قابل قبو ل ہے تو پھر اس طرح کی بات کے بارے میں کیا خیال ہے جس کو شریعت کا لبادہ اوڑھایا گیا ہو؟ یہ کہا جائے کہ مسلمان کو اپنی امت کے دفاع کا حق نہیں ہے؟ اپنے معاملات میں دفاع کی اجازت نہیں ہے؟ اور اس کے لیے اس امریکی فوجی کو مارنے کی اجازت نہیں ہے جو ابھی مسلمانوں کے قتل کے لیے نکل رہا ہے؟ ایسی باتیں بالکل بھی قابل قبول نہیں۔ نضال حسن کا یہ قدم بہت ہی زبردست اور دلیرانہ تھا۔ ہم اللہ سے ان کی ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں۔
الملاحم: لیکن ان لوگوں کا کہنا تو یہ ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں مغرب اور امریکہ میں اسلام کا نام بدنام کرتی ہیں۔
شیخ انورؒ:ہاں یہ ان کا ایک بہانہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں وہاں پر مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں اور مغرب میں مسلمانوں کو بدنام کرتی ہیں۔ لیکن ہم ان سے چند سوال کرتے ہیں۔
کیا امریکہ میں مسلمانوں کی ساکھ کو بچانا ان ہزاروں بلکہ کروڑوں مسلمانو ں کو بچانے سے زیادہ اہم ہے جو روزانہ امریکی میزائلوں اور بموں کا سامنا کرتے ہیں؟ اور پھر ہم یہ کہتے ہیں:وہ کون سی ساکھ ہے جسے آپ بچانا اور دکھانا چاہتے ہیں؟
اگر ساکھ یہ ہے کہ مسلمان عذر ڈھونڈتا ہے اور جتنا ہوسکے معاف کرنے والا ہوتا ہے اور ہم بھلائی کے ساتھ اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں، تو یہ اچھی بات ہے لیکن ابھی ہمارا معاملہ ایک ایسی کفریہ قوم کے ساتھ ہے جو ہمارے ساتھ برسر جنگ ہے۔اور ہم امریکہ کو جو تاثر دینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اے امریکہ اگر تم ہم پر زیادتی کرو گے توہم تم پر زیادتی کریں گے اور اگر تم نے ہم میں سے قتل کیا ہے تو ہم تم میں سے قتل کریں گے۔یہ ہے وہ تاثر جو ہمیں دینا چاہیے۔یہ جو امریکی فوجی افغانستان اور عراق جارہے تھے ہم ان کو ماریں گے۔ ان کو مارسکیں تو فورٹ ہڈ میں ماریں گے، اگر مارسکیں تو انہیں عراق اور افغانستان میں ماریں گے۔ ان کفار کے شر کو قتال کی ترغیب دے کر رفع کریں گے،ہتھیار ڈال کر اور مغلوب ہوکر نہیں۔
الملاحم: خصوصاً یہ کہ امریکہ مسلمان ممالک پر قابض ہے۔
شیخ انور:جی ہاں! ابھی ہم افغانستان اور عراق میں امریکی قبضے اور باقی مسلم دنیا میں بھی تسلط کی تصاویر کا مشاہدہ کررہے ہیں۔
الملاحم: کیا آپ کے خیال میں یمن پر امریکہ کا قبضہ ہے؟
شیخ انور:یمن پر امریکہ کا قبضہ نہیں بلکہ اس سے بھی بدتر صورتحال ہے کہ قبضے کومسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر ہم قبضے کی بات کریں تو بات کریں گے امریکی داخلے کی زمینی افواج، ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کے ساتھ اور یمن کے پہاڑوں اور ریگستانوں پر فوجیوں کے قبضے کی۔ اسے قبضہ کہتے ہیں کہ وہ زمین پر اپنا کنٹرول نافذ کریں۔ لیکن ابھی جو کچھ ہورہا ہے وہ اس سے بھی بدتر ہے۔ یمنی حکومت امریکہ کو کہتی ہے ’تم فضا پر قابض ہوجاؤ، سمندرپر قابض ہوجاؤ اور زمین پر ہم تمہارے لیے کافی ہوں گے۔ہم زمین پر تمہیں یمن کے لوگوں میں سے جاسوس فراہم کریں گے تاکہ وہ مسلمانوں پر جاسوسی کریں۔اور تم لوگ اپنے  ہوائی جہازوں سے جاسوسی کرو، ہم تمہیں نہیں روکیں گے۔ مسلمانوں کے نجی معاملات کی جاسوسی کرو، یمن کے علاقوں پر جاسوسی کرو، اور اپنے بحری ٹاور تیار کرو تاکہ یمن کے لوگوں کو کروز میزائلوں کا نشانہ بناسکو اور ہوائی جہازوں سے ان پر بم برساؤ جیسا کہ ابیان اور شبوہ میں ہوا، اور زمین پر ہم تمہارے لیے کافی ہوں گے اور تمہارے لیے اس کو کنٹرول کریں گے۔
امریکہ آج عراق اور افغانستان کے بعد کسی نئی مہم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اگر امریکی یمن میں داخل ہوں تو امریکی سپاہی کو یمن کے پہاڑوں پر قتل کیا جائے گا، اس کی چوٹیوں پر اور وادیوں میں، اور سبزہ زاروں اور ریگستانوں میں اس کو قتل کیا جائے گا۔ امریکی خزانہ یمن جیسے کسی اور ملک میں کسی نئی مہم کے لیے وسائل مہیا کرنے کے قابل نہیں جسے حملہ آوروں کا قبرستا ن کہا جاتا ہے۔امریکی معیشت آج لڑکھڑا رہی ہے۔لہٰذا یمن کی حکومت نے امریکہ کو اس پریشانی سے بچا لیا ہے یہ کہہ کر کہ ’ہم تمہارے لیے کافی ہیں‘ تم بس فضا اور سمندر پر اپنا قبضہ رکھو باقی کام ہم کریں گے۔ اور اب ہوتا یہ ہے کہ امریکہ مثلاً کسی کو ختم یا قتل کرنا چاہتا ہے مثلاً شیخ عبداللہ المہدار کو تو امریکی انتظامیہ نے یمن میں فوج سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم اس شخص کوختم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا امریکہ کو یمن کی حکومت کے سامنے کوئی ثبوت پیش کرنا ہوگا؟ نہیں، صرف نام لینے کی دیر ہے کہ یہ فلاں شخص، اسے ہم ختم کرنا چاہتے ہیں، یہی کافی ہوجاتا ہے۔ شیخ عبداللہ المہدار معاشرتی میدان میں لوگوں کے درمیان جانے پہچانے ہیں اور ایک قبیلے کے شیخ ہیں۔ یمن کی حکومت نے اپنے قوانین کے مطابق بھی ان پر کوئی الزام نہیں لگایا، کوئی عدالتی فیصلہ ان کے خلاف نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود فوج اور سیکورٹی فورسز آئیں اور انہوں نے شیخ المہدار کے گھر کو گھیر ے میں لے لیا اور امریکہ کے حکم پر گھر میں جتنے افراد موجود تھے سب کو قتل کردیا۔ اس کے بعد یمن کی حکومت امریکیوں کے سامنے بل پیش کرتی ہے؛ یہ قیمت ہے شیخ عبداللہ کے خو ن کی، اسی طرح جیسے انہوں نے ان عورتوں، بچوں  اور بوڑھوں کے خون کی قیمت حاصل کرنے کے لیے بل پیش کیا تھا جو ابیان میں شہید ہوئے۔چھوٹی چھوٹی بچیاں، بچے اور عورتیں امریکی بمباری میں شہید ہوئیں اور پھر یہ لٹیروں کا گروہ جو یمن پر حکومت کرتا ہے، یہ کوئی حکومت نہیں بلکہ جرائم پیشہ گروہ ہے جو اپنے بچوں کے خون کی تجارت کرتا ہے اور مغرب سے اس خون کی رشوت وصول کرتا ہے، اور جیسے جیسے مردہ لوگوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اس کو ملنے والی امداد بڑھ جاتی ہے، اور اب ان لوگوں نے یمن میں بہنے والے مسلمانوں کے خون کے بدلے کروڑوں ڈالروں کا وعدہ کیا ہے۔
الملاحم: ویسے یمن کے علما نے امریکیوں کے یمن میں داخل ہونے پر ان سے قتال کے فرض ہونے کا فتوی جاری کیا ہے، کیا آپ ایسے فتوؤں کی حمایت کرتے ہیں؟
شیخ انور:بیشک یہ علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کی رہنمائی کریں، اور یہ رہنمائی حالات کے مطابق ہی ہونی چاہیے۔ موجودہ حالات نہایت اہم ہیں اور اس میں علما کا بیان جس میں انہوں نے جہاد کی دعوت دی ہے ظاہر ہے کہ ایک لائق تحسین بات ہے۔ لیکن ایک بات کی وضاحت ضروری ہے: آج مسلمانوں اور امریکہ کے درمیان جو جنگ ہے  وہ پٹرول کے لیے نہیں، پانی پر نہیں، کسی خاص خطہ زمین یا سمندر کے لیے نہیں۔ یہ جنگ محض فلسطین، عراق یا افغانستان کے لیے نہیں۔ ہاں یہ سب عوامل جنگ کی وجوہات میں شامل ہیں لیکن اصلاً یہ جنگ تو حید کی جنگ ہے۔ اب امریکہ اُس اسلام کو ختم کرنے کے درپے ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کیا گیا تھا اور ایک خودساختہ جعلی اسلام سامنے لانا چاہتاہے جس کا میں نے تذکرہ بھی کیا۔ یہ جنگ توحید کی جنگ ہے اسی لیے اس کو تنگ نظری سے نہیں یا دنیا کے ایک معاشی معاملے کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔ اس جنگ کی حیثیت اس سے بڑھ کر ہے اور اسی لیے علما کو اس سے بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔اس فتوے کو تشریح اور تنفیذ کی ضرورت ہے۔
تشریح کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ کچھ نکات ایسے ہیں جن پر فتوے میں سیر حاصل بحث نہیں کی گئی اورکچھ نکات سرے سے موجود ہی نہیں۔ مثلاًاس میں یمنی حکومت کے موقف پر روشنی نہیں ڈالی گئی جبکہ یہ نہایت اہم معاملہ ہے۔ علما نے کہا ہے کہ’دفاع کرنے والوں کا حکم ایک بلاواسطہ حکم ہے‘  یمنی حکومت امریکہ کا دفاع کرنے والی نہیں بلکہ بلاواسطہ ہے۔ یمن کی حکومت بلاواسطہ امریکہ کے ہمراہ صلیبی مہم کا حصہ ہے۔ جب امریکی طیارے ابیان اور شبوہ پر بمباری کررہے تھے، اسی وقت عسکری قوتیں ارہاب میں ہمارے بھائیوں کے گھروں پر حملہ کررہی تھیں۔چنانچہ یہ لوگ امریکہ کے ساتھ اس مہم میں شریک ہیں۔فتوے میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ اس ایجنٹ اور غدار حکومت کے بارے میں کیا موقف ہونا چاہیے۔ یہ حکومت جو امریکیوں کے ساتھ کام کرتی ہے اس کے بارے میں کیا موقف ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ اس فتوے کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ٹھیک ہے آپ نے یہ فتوی دیا کہ ’امریکیوں کے خلاف جہاد کیا جانا چاہیے۔‘اب لوگ آپ سے چاہیں گے کہ آپ ان کے لیے اس فتوے کو نافذ کریں۔ آپ ان سے یہ کہیں کہ یہ جو طیارے تمہارے اوپر گھوم رہے ہیں ان کو نشانہ بناؤ۔ یمن میں قبائل کے پا س ایسے ہتھیار موجود ہیں جو ان طیاروں کو گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ علما کو چاہیے کہ وہ قبائل کو اس کی دعوت دیں کہ ان طیاروں کو مار گراؤ، یہ کیوں تمہارے گھروں کے اوپر گھوم رہے ہیں؟ یہ جو امریکی ٹاور ہمارے پانیوں میں ہیں ان کو نشانہ بناؤ، امریکی اہلکار جو تمہیں صنعاء اور عدن میں ملیں انہیں اپنا ہدف بناؤ۔“ یہ اس فتوے کی تنفیذ ہے اور یہ وہ کردار ہے جو آج علما کو ادا کرنا چاہیے جبکہ انہیں حکومت کی طرف سے ایسی ہدایات نہیں مل رہیں۔ ہمارے حکمران گمراہ ہوگئے ہیں اور ان کا کوئی کردار نہیں، اب لوگوں کی درست رہنمائی علما ہی کو کرنی ہے۔
الملاحم: ابیان اور شبوہ میں بمباری کے بعد مجاہد عمر فاروق نے امریکی ڈیلٹا کمپنی کے ایک طیارے کو اڑانے کی کوشش کی جو ایمسٹرڈیم سے ڈیٹروئٹ کی طرف جارہا تھا۔ یہ کارروائی یمن پر امریکہ کی سفاکانہ بمباری کے ردعمل میں کی گئی۔ آپ کا عمر فاروق سے کیا تعلق ہے؟
شیخ انورؒ:اس کارروائی نے مجاہدین کے بہت سے اہداف پورے کیے۔ یہ امریکیوں کے لیے ایک جوابی اور دہشت زدہ کرنے والی کارروائی تھی۔ اور اس سے امریکہ کے سیکورٹی  اور حفاظتی آلات کا خلل ظاہر ہوتا ہے چاہے وہ انٹیلی جنس کے ہوں یا سیکورٹی میں۔ امریکی فضائی اڈوں پر یہ لوگ ۴۰ ملین ڈالر سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اور اس کے باوجود عمر فاروق ان حفاظتی آلات سے گزرنے میں کامیاب ہوگئے۔ نیز انٹیلی جنس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اس کو نگرانی میں رکھا تھا لیکن اس کے باوجود وہ امریکہ کے قلب ڈیٹروئٹ پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ چنانچہ کارروائی کو بہت زیادہ کامیابی بھی حاصل ہوئی اگرچہ ایک بھی شخص مارا نہیں گیا لیکن پھر بھی یہ بہت کامیاب رہی۔
اور جہاں تک بھائی عمر فاروق کا تعلق ہے تو وہ بھی میرے ایک شاگرد ہیں اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ان جیسے لوگ میرے شاگردوں میں سے ہیں اور میں ان کے اس اقدام کی بھرپور حمایت کرتا ہوں۔
الملاحم: آپ ان کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں حالانکہ جیسا کہ میڈیا میں کہا جاتا ہے اس کارروائی میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا تھا؟
شیخ انور:جہاں تک شہریوں کا معاملہ ہے تو اس تناظر کا آجکل بہت ذکر ہوتا ہے لیکن ہم اس تناظر میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جو ہمارے علما استعمال کرتے ہیں۔ یعنی محاربین اور غیر محاربین(لڑنے والے اور نہ لڑنے والے)۔محاربین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہتھیار اٹھائے ہوئے ہوں چاہے کوئی خاتون ہی کیو ں نہ ہو اور غیر محاربین سے مراد وہ ہیں جو جنگ میں حصہ نہیں لیتے۔جہاں تک امریکی عوام کی بات آتی ہے تو مجموعی طور پر وہ سب جنگ میں شریک ہیں۔ کیونکہ یہ عوام ہی تو ہے جس نے اس انتظامیہ کو چنا ہے اور یہی لوگ ہیں جو جنگ کی مالی معاونت کررہے ہیں۔ اس حالیہ انتخابات میں اور گزشتہ انتخابات میں امریکی عوام کے پاس یہ آزادی تھی کہ وہ ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو جنگ کے حامی نہیں لیکن اس کے باوجود ایسے لوگوں کو بہت تھوڑے ووٹ ملے۔
پھر یہ کہ باقی باتوں سے پہلے ہمیں اس معاملے کو شریعت کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور یہی اس معاملے کو حل کرے گا کہ آیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں۔
اگر مجاہد بھائی عمر فاروق ہزاروں فوجیوں کو ہدف بناسکتے تو یہ بہت اچھا ہوتا لیکن ہم حقیقی جنگ کی بات کررہے ہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دن میں جنگ کرسکتے تو ضرور ایسا ہی کرتے  لیکن کچھ ایسے حالات ہوتے تھے جب وہ مجموعات کو رات کے وقت بھیجتے اور یہ مجموعات جو رسول اللہ روانہ کرتے تھے اندھیرے کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کیا کرتے تھے۔ لہٰذا صحابہؓ نے واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاکہ’وہ ان ہی میں سے ہیں‘یعنی کہ ان کا بھی وہی حکم ہے جو ان کے باپوں کا ہے۔ یعنی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے۔
نیز ہم سیرت کے واقعات سے بھی اس کا جواز پیش کرسکتے ہیں جب قبیلہ ثقیف طائف میں قلعہ بند ہوگئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر منجنیقوں سے حملہ کیا اور یہ منجنیقیں مردوں، عورتوں اور بچوں کے درمیان فرق نہیں کرتیں، چنانچہ یہ جنگ کی ایک حقیقت ہے۔اور آج امریکہ کے پاس ایسے ہتھیار ہیں جو فرق کرسکتے ہیں، ان کے ہتھیار خاص نشانے پر لگتے ہیں۔ اگر وہ اہداف کے درمیان فرق کرنا اور ان کو الگ کرنا چاہیں تو آسانی سے کرسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ شادی کی تقریبات کو نشانہ بناتے ہیں، جنازوں کو ہدف بناتے ہیں، گھر والوں کو ہدف بناتے ہیں اور بیشمار عورتوں اور بچوں کو قتل کرتے ہیں۔
الملاحم: جس طرح انہوں نے بکازام میں بدیوں کا قتل عام کیا تھا۔
شیخ انور:جی ہاں، بکازام میں بدویوں کا، عورتوں، بچوں اور کسانوں کا قتل عام کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ جان بوجھ کر عورتوں اور بچوں کو مارنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی معاملہ ہے، امریکی امداد، اسلحہ اور تعاون سے ۵۰ سال سے ایک پوری قوم، فلسطین کی مسلمان قوم کا گلہ گھونٹ رہا ہے۔عراق  میں۲۰سال کی پابندیاں اور پھر قبضہ اور اب افغانستان پر بھی قبضہ ہے۔ ان سب باتوں کے بعد ہم سے چند امریکیوں کو نشانہ بنانے کے بارے میں سوال نہیں ہونا چاہیے جو جہاز میں مارے جاتے۔ ہمارے اور امریکیوں کے درمیان جو فہرست ہے اس میں ملین سے زیادہ عورتیں اور بچے شامل ہیں، ہم مردوں کی بات نہیں کرتے، صرف عورتوں اور بچوں کی تعداد کی فہرست ہمارے اور ان کے درمیان کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ تو یہ لوگ جو جہاز میں مارے جاتے محض سمندر میں ایک قطرے کی حیثیت رکھتے ہیں، اور ہم ان سے ان ہی جیسا برتاؤ کریں گے۔ ہم ان پر اسی طرح زیادتی کریں گے جس طرح انہوں نے ہم پر کی ہے۔
الملاحم: یمنی حکومت کا دعویٰ ہے کہ حالیہ مہم میں جو بمباری ہوئی وہ یمن کی طرف سے ہوئی اور(ان کے دعوؤں کے مطابق) امریکی انٹیلی جنس اور سیکورٹی کے شعبوں کے علاوہ کسی چیز میں مداخلت نہیں کرتے۔آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
شیخ انور:نہیں، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ ابین میں جو بمباری ہوئی وہ باکازام پر ہوئی اور ان کا تعلق میرے ہی قبیلے سے ہے۔ شبوہ اور رفد میں جو بمباری ہوئی وہ بھی میرے ہی قبیلے پر ہوئی۔ ہم ان لوگوں کو جانتے ہیں اور ان سے رابطے میں ہیں۔ ہم نے حملے کے بعد بھی ان سے رابطہ کیا اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکی کروز میزائل دیکھے ہیں اور بمباری کے بعد بھی کچھ ایسے بم تھے جو پھٹ نہیں سکے اور ان پرMade in America لکھا ہوا تھا۔چنانچہ یہ بالکل غلط بات ہے، وہ امریکی طیارے تھے اور امریکی ٹاور تھے جن سے ابین اور شبوہ پر بمباری کی گئی۔
اور اگر حکومت کا یہ دعویٰ صحیح بھی ہے تو ان کا یہ بہانہ ان کے جرم سے زیادہ قبیح ہے کیونکہ انہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ انٹیلی جنس کے معاملات میں امریکہ کا تعاون حاصل ہے۔ گویا ان کا کہنا ہے کہ ہم نے امریکیوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ آئیں اور ہماری پوشیدہ باتوں کی جاسوسی کریں، اور یہ کہ ہم نے ان سے معلومات لے کر ان کے اشاروں کی بنیاد پر یہ بمباری کی ہے۔
الملاحم:امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ نضال حسن کی کارروائی کے بعد انہوں نے آپ کا گھیراؤ کیا اور انٹرنیٹ پر آپ کی ویب سائٹ کو بند کردیا ہے اور یہ کہ آپ کا پیچھا کیا جارہا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
شیخ انور:جی ہاں، انہوں نے نضال حسن کے آپریشن کے بعد میری ویب سائٹ بند کردی۔ میں نے سائٹ پر نضال حسن کی حمایت میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اس کے بعد میں نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون پڑھا کہ وہ لوگ میرے روابط کو زیر نظر رکھے ہوئے ہیں، چنانچہ میں نے مجبورًا یہ روابط ختم کردیے اور اس جگہ سے نقل مکانی کرلی۔ اور پھر اس کے بعد امریکی بمباری ہوئی۔
لیکن یہ بات کہ میرا پیچھا کیا جارہا ہے صحیح نہیں ہے۔ میں اپنے قبیلے کے لوگوں کے درمیان اور یمن کے دوسرے علاقوں میں بھی آزادانہ نقل و حرکت کر رہا ہوں۔کیونکہ یمن کے لوگ امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ حق کا ساتھ دینے والے ہیں اور حق کا ساتھ دینے والے کمزوروں کی حمایت کرتے ہیں۔ لہٰذا میں عوالیک کے درمیان گھوم رہا ہوں اور یہاں پر یمن کے بہت وسیع علاقے کے لوگوں کی مجھے حمایت حاصل ہے چاہے وہ ابیدہ ہو یا وہم، ویلہ ہو حشید ہو یا  بیقال، خولان ہو، حضرموت ہویا ابیان ہو، شبوہ، عدن یا صنعاء ہو، الحمدللہ لوگوں میں بہت خیر ہے حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ امریکہ کے مطلوب افراد کوپناہ دے کر وہ کس بڑے خطرے کا سامنا کررہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ رحمدلی اور کھلے دل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور بہترین وسائل کے ساتھ ان کی خدمت و ضیافت کرتے ہیں۔ اور یہ ہم پر اور ملک کے دیگر اہل ِ حق پر اللہ کی مہربانیوں میں سے ایک مہربانی ہے۔
الملاحم:ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ آپ کی حفاظت کرے اور بہترین اجر دے اور بچائے رکھے اور دشمن کو آپ سے دور ہٹا دے۔ ہم یمنی حکومت کی طرف لوٹتے ہیں۔ یمن کی حکومت نے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے شبوہ میں ضلع سعید کے علاقے رفد میں ایک فضائی حملے میں آپ کو شہید کردیا ہے جبکہ آپ القاعدہ کی قیادت کے ہمراہ ایک میٹنگ میں مصروف تھے۔ آپ ان غلط عبارات کو کیسے لیتے ہیں؟
شیخ انور:کچھ واضح علامات ہوتی ہیں جو کسی فردیا گروہ کا امتیازی وصف بن جاتی ہیں۔ مثلا ً فلاں فلاں بہت ذہین ہے تو یہ اس کا امتیازی وصف بن جاتا ہے(فلاں ذہین)کوئی خاص قوم اپنی بہادری کی وجہ سے مشہور ہوتی ہے تو یہ بہادری اس کا امتیازی وصف بن جاتا ہے۔ کوئی حکومت اپنے ظلم کی وجہ سے مشہور ہو تو یہ اس کا امتیازی نشان بن جاتا ہے۔
یمن کی حکومت کا امتیازی وصف جھوٹ بولناہے، یہ ایسی حکومت ہے جو دروغ گو ہے۔ اپنے لوگوں سے جھوٹ بولتی ہے، اپنے ہمسایوں سے جھوٹ بولتی ہے، اندر باہر ہر جگہ جھوٹ ہے۔ اسی لیے انہوں نے یہ دعوی کیا کہ ہم نے فلاں اور فلاں کو شہید کردیا ہے لیکن آخر میں یہ ظاہر ہوگیا کہ یہ سب جھوٹ تھا۔لوگوں کا حکومت پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اب کوئی اس حکومت کی بات کا یقین نہیں کرتا اور ان کا ایسا کہنا کہ مجھے ماردیا گیا ہے قطعاً غلط تھا۔
الملاحم: شیخ آپ کو یمن کی حکومت نے کچھ عرصہ پہلے قید کیا تھااور آپ کو صنعاء کے سیاسی قید خانے میں رکھا گیا تھا۔ آپ کی قید کی مدت کتنی تھی اور کیا حالات تھے؟
شیخ انور:قید کی مدت ڈیڑھ سال تھی اور یہ ایک مقامی الزام کی وجہ سے ہوئی۔ لیکن جب امریکیوں کو پتہ چلا کہ میں قید میں ہوں تو انہوں نے مجھ سے تفتیش کرنا چاہی اور یہ تفتیش موخر ہوتی گئی۔ یمن کی حکومت کہا کرتی تھی کہ معاملہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اور ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لہٰذا میں قید میں ہی رہا یہاں تک کہ قبائلی دباؤ کی وجہ سے مجھے رہا کردیا گیا۔
الملاحم: نیشنل سیکورٹی کے مینیجر علی العنسی نے وال سٹریٹ جرنل کے ساتھ ایک گفتگو میں کہا کہ آپ کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے قبائل کو ثالث بنایا جارہا ہے۔ ان ثالثوں کی کیا حقیقت ہے اور کیا آپ اپنے آپ کو امریکہ کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں خصوصاً جبکہ آپ کے پاس امریکی شہریت ہے؟
شیخ انور:کچھ عرصہ پہلے یمنی حکومت کی طرف سے چند مذاکرات ہوئے تھے لیکن ظاہر ہے میں نے بہت صاف اور واضح طور پر انکار کردیا کیونکہ اول تو میر ا کوئی قصور نہیں ہے۔ قصور کیا ہے؟ کہ میں حق کی طرف دعوت دیتا ہوں؟ کہ میں جہاد فی سبیل اللہ کی طرف بلاتا ہوں؟ کہ میں امت کے دفاع کی خاطر بلاتا ہوں؟
قصوروار تو یمن کی حکومت ہے۔ اس کا قصور یہ ہے کہ یہ غدار اور منافق ہے اور مسلمانوں کے مال کو ضائع کرتی ہے اور زمین میں شر اور فساد پھیلاتی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرا کوئی قصور نہیں اور اسی لیے یہ مذاکرات بغیر کسی شک کے ناقابل قبول ہیں۔ حق پر مصالحت نہیں کی جاسکتی۔اور جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو بھی یہی معاملہ ہے کہ میں کسی صورت اپنے آپ کو ان کے حوالے نہیں کروں گا۔ اگر وہ مجھے پکڑنا چاہتے ہیں تو مجھے ڈھونڈ لیں، اللہ سب سے اچھا محافظ ہے۔ اگر اللہ مجھے ان سے محفوظ رکھنا چاہے گا تو چاہے یہ امریکی دنیا کا سارا مال خرچ کر ڈالیں مجھ تک نہیں پہنچ پائیں گے اور اگر اللہ تعالیٰ ارادہ رکھتا ہے کہ میری موت ان کے یا ان کی کٹھ پتلیوں کے ہاتھوں ہو تو یہی میری آرزو ہے۔
الملاحم:علی العنسی کا کہنا تھا کہ اگر یہ مصالحت کارگر نہ ہوسکی تو ان کے مطابق ان لوگوں کو آپ کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا پڑے گا۔ اور اسی طرح ایک اور بیان ہے یحییٰ محمد عبداللہ صالح کا کہ یمنی قبائل کو اس بات کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے ان بیٹوں کا دفاع نہ کریں جو دہشت گردی میں ملوث ہیں اوراس کے مطابق جو سب سے زیادہ پیسے دے وہ اس کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
شیخ انور:آج کوئی بھی ایسا میدان نہیں جہاں امریکہ کا مقابلہ ہورہا ہو سوائے مجاہدین کے۔ مثلاً چین سے امریکہ کا فرق معیشت پر ہے، روس اور امریکہ کے درمیان فرق اراضی پر اثر کے حوالے سے ہے۔ لیکن کوئی بھی میدان ایسا نہیں جہاں امریکہ کے دنیا پر قبضہ کرنے کی مہم کا مقابلہ کیا جارہا ہو سوائے مجاہدین کے اس گروہ کے۔اور آج جہاد کی آماجگاہیں یہ قبائل ہی ہیں۔ افغانستان میں قبائل ہیں، عراق میں قبائل ہیں، صومالیہ میں قبائل ہیں، پاکستان میں بھی کچھ علاقہ جات قبائلی ہیں اور کچھ غیر قبائلی اور ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد کی پناہگاہیں یہی قبائلی علاقے ہیں۔ یہی صورتحال یمن کی بھی ہے۔
امریکہ قبائل کے بیچ شر اور فساد کے بیج بونا چاہتا ہے۔ یہ امریکی مہم کا انتہائی اہم حصہ ہے کہ قبائل میں شر کو فروغ دیا جائے۔ انہیں وہ خصوصیات نہیں پسند جو قبائل میں موجود ہیں؛بہادری، مدد کرنے کا جذبہ، سخاوت اور قربانی، یہ وہ مستحسن اسلامی خصوصیات ہیں جو امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ یہ قبائل بدعنوان اور بد اخلاق ہوجائیں اور اسی لیے وہ قبائلی علاقہ جات میں خرابی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ قبائل میں نشہ اور کرپشن پھیلانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
قبائل میں فساد پھیلانے کی سب سے خطرناک صورت ان کو فوج میں بھرتی کرنا ہے کیونکہ اگر قبائل کا بیٹا  فوج سے منسلک ہوجاتا ہے تو گویا وہ امریکہ کا وفادار بن جاتا ہے۔ہوسکتا ہے وہ یہ بات نہ جانتا ہو یا نہ جاننا چاہتا ہو، لیکن حقیقت میں اسے جو احکام ملتے ہیں وہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے ہوتے ہیں، ظاہر ہے براہ راست امریکہ اس کو تو حکم نہیں دیتا، وہ تو یمن کے سیکورٹی اہلکاروں کو حکم دیتا ہے اور پھر یمن کے یہ سیکورٹی اہلکار ہیں جو اس سپاہی کو جاکر مجاہدین کے گھروں پر ہلہ بولنے کا، ملک کے راست رو لوگوں کو قتل کرنے کا، ان لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں جنہوں نے اپنی جان اور مال اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے، اس امت کے دفاع کے لیے سب کچھ چھوڑا ہے۔
یہ مجاہدین کیا چاہتے ہیں؟ کیا یہ دنیا کی تلاش میں نکلے ہیں؟ وہ دنیا سے بچ کر نکلے ہیں، بلکہ درحقیقت  ان میں بیشتر کے پاس دنیا تھی اور انہوں نے اس کو اللہ کی خاطر چھوڑ دیا۔وہ افغانستان میں جہاد کرنا چاہتا ہے، عراق میں، یمن میں، فلسطین میں امریکہ کے خلا ف جہاد کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اب حکومت ان کا پیچھا کررہی ہے، یمنی حکومت ان کا پیچھا کررہی ہے اور یہ یمن کا سپاہی ہے جو ان کے لیے یہ کام سر انجام دیتا ہے۔ جان لو اے سپاہی! کہ تمہارے لیے یہ حکم امریکہ سے آیا ہے اور یہی قبائل کے بیٹوں کو خراب کرنے کی سب سے خطرناک صورت ہے۔یہ امریکہ کا ایک پروجیکٹ ہے اور لوگوں کو اس سے ہوشیار ہوجانا چاہیے۔
الملاحم:آپ نے قبائل کے بارے میں امریکہ کے جس منصوبے کا ذکر کیا کیایہ پیٹریاس کے کام اور تجاویز میں سے ہے اور مسلمانوں، مجاہدین اور قبائل اور مسلمان امت  کے بارے میں اس کے منصوبے کا حصہ ہے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟
شیخ انور:پیٹریاس اسلامی دنیا کی ایک خاص حقیقت سے نمٹنے آیا تھا۔ امریکہ کو افغانستان اور عراق میں بہت کڑوے تجربات کا سامنا ہوا، لہٰذا پیٹریاس امریکہ کے اس تجربے کی بنیاد پر ایک نیا منصوبہ پیش کرنے آیا۔ پیٹریاس کی ان تجاویز میں سے یہ ہے کہ مجاہدین کے ساتھ کچھ کام منسوب کیے جائیں، مثلاً سڑکوں پر دھماکے کرکے مسلمانوں کا قتل کرنا  اور پھر یہ کہنا کہ یہ مجاہدین کا کیا دھرا ہے، یا کسی خاص فرد کو قتل کردینا  اور پھر یہ کہنا کہ مجاہدین نے ایسا کیا ہے۔یہ ایسے لسانی گروہ بنانے پر بھی مبنی ہے تاکہ قوم کے لوگ آپس میں لڑنا شروع کردیں، اور امریکی پیچھے بیٹھ کر تماشہ دیکھتے رہیں، جیسا کہ ہم عراق میں ان لسانی گروہوں کے تجربے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ قبائلی نوجوان ہیں جنہیں مجاہدین کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جو ہم سنتے ہیں کہ برطانیہ کی پولیسی تھی کہ ’Divide and rule‘۔ چنانچہ اب یہ لوگ اسلامی دنیا میں یہی پالیسی لاگو کرنا چاہتے ہیں۔
الملاحم: امریکہ نے آپ پر صومالیہ کے مجاہدین کے ساتھ تعلق کا الزام لگایا ہے خصوصاً شباب المجاہدین کی تحریکیں، خاص طور پر جب آپ نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر ان کی فتح پر خوشخبری دینے کے لیے مضمون لکھا۔ شباب المجاہدین تحریک کے ساتھ آپ کی وابستگی کی کیا حقیقت ہے؟ اور آپ صومالیہ میں جہاد اور مجاہدین کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
شیخ انور:جی ہاں میں نے صومالیہ میں شباب المجاہدین کو ان کی فتح پر مبارکباد کا ایک خط لکھا تھا جس کے جواب میں انہوں نے بھی مبارکباد کا خط لکھا اور اسی پر امریکہ نے یہ کہا تھا۔ جہاں تک صومالیہ میں جہاد کے تجربے کی بات ہے تو میری رائے میں، واللہ اعلم، اسلامی تحریکوں اور علما اور اسلامی تنظیموں کو صومالیہ میں اپنے وفود بھیجنے چاہئیں تاکہ وہ وہاں جاکر ان مجاہدین سے کچھ سیکھ سکیں اور واپس آکر یہ تجربات منتقل کریں۔
اسلامی تحریکیں امت کے لیے حل تلاش کررہی ہیں، اور علما بھی حل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یہ اسلامی تحریکیں جو قابل قبول حل سمجھتی ہیں وہ پیش کرتی ہیں، اور اسی طرح بہت سے علما نے بھی اپنی سمجھ کے مطابق بہت سے حل پیش کیے ہیں۔ اب ہمیں حل صومالیہ میں اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آرہا ہے۔ یہ مجاہد گروہ،معمولی صلاحیتوں کے ساتھ ایک ایسی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا جہاں وہ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے کرسکتے ہیں۔اب وہ لوگوں کے مسائل حل کرتے ہیں، مجاہدین کے کنٹرول کردہ علاقوں میں لوگ امن سے رہتے ہیں اور وہاں کی معیشت ترقی کررہی ہے، کیونکہ جب امن ہوتا ہے تو تجارت اور زراعت بھی ترقی کرتی ہے۔لہٰذا یہ تجربہ ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے، اب وہ حقیقت کا سامنا کررہے ہیں اور اس حقیقت کا اسلامی شریعت سے حل پیش کررہے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا کہ یہ تجربہ انوکھا ہے اورمسلم اقوام کواس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
الملاحم:معزز شیخ،امریکہ اور یورپ میں مجاہدین کے لیے ہمدردیوں میں اضافے کا خطرہ بار بار دہرایا جارہا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے مسلمان نوجوان امریکہ کے خلاف کارروائیاں کرسکتے ہیں اور وہ ایسی تنظیموں میں شامل ہونے کے لیے سفر کررہے ہیں جن کو مغرب دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا چیز ہے جو نوجوانوں کو اس چیز کی طرف راغب کرتی ہے؟
شیخ انور:مثال کے طورپرہم نضال حسن کو لیتے ہیں، نضال حسن کبھی ایک ایسا ہی امریکی مسلمان ہو ا کرتا تھا جیسا امریکہ چاہتا ہے، وہ نمازیں پڑھتا تھا، روزے رکھتاتھا،زکوۃ دیتاتھالیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ امریکی فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام بھی کررہا تھا اور اس کی وفاداریاں امریکہ کے ساتھ تھیں،لیکن پھر نضال حسن امریکی جرائم کی وجہ سے ایک امریکی فوجی سے ایک مجاہد فی سبیل اللہ میں تبدیل ہوگیا، نضال حسن امریکی فوجی سے ایک ایسا مجاہد بن گیا جو ان فوجیوں کو قتل کرتا ہے جس نے کبھی اس کے ساتھ کام کیا تھا، اور اگر امریکی جرائم اسی طرح چلتے رہے تو ہم اور بھی بہت سے نضال حسن دیکھیں گے۔
اسی طرح افغانستان اور عراق میں بھی مغربی دنیاکے بہت سے مجاہدین ہیں، اوراسلامی دنیا میں امریکی اور مغربی جرائم جیسے جیسے بڑھتے جائیں گے اس تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
الملاحم: معزز شیخ جزاک اللہ خیر، اس ملاقات کے اختتام میں، آپ عمومی طور پر تمام مسلمانوں کو اور خاص طور پر جزیرۃ العرب کے لوگوں کو آخر میں کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
شیخ انور:تمام مسلمانوں سے اور خاص طور پر جزیرۃ العرب کے باشندوں سے میں یہ کہوں گا کہ ہمیں امریکہ کے خلاف جہاد میں شریک ہونا چاہیے، امریکہ ہی ہے جو آج مسلمانوں کے خلاف عالمی صلیبی جنگ کی قیادت کررہا ہے، آج کا امریکہ ہی کل کا فرعون ہے۔ اسی لیے ہمیں جہاد میں شریک ہونا چاہیے، اور ہمیں اس مجاہدگروہ سے امید ہے جو افغانستان، عراق اور صومالیہ میں امریکی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتا ہے اور یہ جہاد ہی کی بدولت ہے کہ آج امریکی معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔ اگر یہ چھوٹا سا مجاہدین کا گروہ امریکہ کو ہرانے میں کامیاب ہوسکتا ہے تو پوری امت کھڑی ہوکر کیا کچھ نہیں کرسکتی!امریکہ اس امت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ امریکہ اس سے بہت کمزور ہے۔ امریکہ کی چالیں کمزور ہیں، مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہیں۔ امریکہ امت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ہمیں بس یہی کرنا ہے کہ اپنے مجاہدین بھائیوں کے ساتھ شریک ِ عمل ہوجائیں، اور اپنے الفاظ، زبان، ہاتھ اور مال سے ان کی امداد کریں اور جو کچھ کرسکتے ہیں ان کو پیش کریں۔ یہ آج ہم پر فرض ہے کیونکہ امریکہ اسلام او ر مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اللہ اپنے دین کی حفاظت کرے گا اور ان مجاہدین کے ذریعے امریکہ کو شکست دے گا اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اس اجر میں سے کچھ ہمارے حصے میں بھی آجائے۔
الملاحم:  اے اللہ، آمین۔ اس ملاقات کے اختتام میں میں انور العولقی کا بہت شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس انٹرویو کی درخواست کو قبول کیا اور ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ آپ کی حفاظت کرے اور آپ کی عمر میں برکت دے۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
شیخ انورؒ:جزاک اللہ خیر۔ 

0 Responses to “شیخ انورالعولقیؒ کےویڈیو انٹرویو کا متن”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ