جمعرات، 19 نومبر، 2015

اسامہ بن لادن شہید ؒ کا آخری بیان






(۲۰۱۱ ء میں عرب ممالک کے سیاسی نظام میں تبدیلیوں کے پیش نظر شہیدِ امت ، شیخ اسامہ بن لادنؒ نے یہ بیان جاری کیا، جس کا اردو متن یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ متن کے آخر میں آڈیو بیان کا لنک موجود ہے۔)
 ان الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ انستغفرہ ا نعوذ باللہ من شرور انفسنا اسیئات اعمالنا من یھدی اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ واشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھدان محمدا عبدہ و رسولہ
ہر تعریف اللہ کے لیے ہے ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اس سے بخشش طلب کرتے ہیں، اور ہم اپنے نفوس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی برائیوں  سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں ، جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ بھی نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی بھی ہدایت نہیں سے سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اس کے بندے اور رسول ہیں۔

اما بعد:
 

میری امتِ مسلمہ!
آج ہم  (مسلم دنیا میں تبدیلی کے واقعات کے)اس عظیم تاریخی واقعے کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور اس خوشی، سرور و تازگی اور فرحت میں آپ کے ساتھ شریک ہیں ، آپ کی خوشی سے ہی ہماری خوشی، آپ کے دکھ سے ہی ہمارا دکھ وابستہ ہے۔ یہ کامیابیاں آپ کو مبارک ہوں اور اللہ تعالیٰ اُن شہدا پر رحمت نازل کرے اور زخمیوں کو صحت دے اور اسیروں کو رہا کرے۔امین
و بعد:
ھلت بنجدبنی بنی الاسلام ایام۔۔۔۔و اختفی عن بلاد العرب حکام
طوت عروش حتیٰ جاء نا خبر۔۔۔۔ فیہ مخایل للبشریٰ و اعلام
"فرزندان اسلام کی عظمت کے ایام چمکنے لگے اور عرب ممالک سے وہ حکام غائب ہونے لگے جنہوں نے مسندیں سنبھالی ہوئی تھیں، حتیٰ کہ ہمارے سامنے ایسی علامتیں ظاہر ہونے لگیں جن میں خوش خبری کے پیغام ہیں۔"

مشرق سے آنے والی فتح کے آثار واضح تھے اور امت اس فتح کے لیے سراپا انتظارتھی۔۔۔ اس دوران ایک عجیب انقلاب کا سورج  مغرب سے طلوع  ہو گیا ، اس کی کرنیں تیونس سے روشن ہوئین تو انہوں  نےامت کی آنکھوں مین اپنے لیے مانوسیت پائی ، لوگوں کے چہرے چمک اٹھے ، حکمران غصے میں لال پیلے ہونے لگے اور یہود بے بہبود، آنے والے خطرات سے دہشت زدہ ہوگئے۔۔۔  طاغوت کے گرنے  سے مسلمانوں پر چھائی ذلت ، غلامی اور خوف و پسپائی کی تمام نشانیاں بھی مٹ گئیں۔۔۔ اور انہوں نے حریت و عزت، جرأت اور پیش قدمی کے اسباق دہرانا شروع کیے۔ طاغوت سے آزادی کی چاہت لیےتبدیلی کی ہوائیں چل پڑیں۔  تیونس اس معاملے میں بازی لے گیا۔ پھر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ کنعانہ (مصر)کے شاہسوار تیونس کے باسیوں سے شمعِ آزادی کی ایک چنگاری تحریر سکوائر میں لے آئے، یہاں بھی ایک عظیم تبدیلی رونما ہوئی ، اور تبدیلی بھی کیسی؟  یہ تبدیلی  مصر اور تمام امت کےلیے اس شرط پر عطا ہوئی کہ یہ اپنے ربّ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ یہ تبدیلی طعام و لباس کی تبدیلی نہیں بلکہ  یہ عزت و غیرت کی تبدیلی تھی، جودوسخا کی تبدیلی تھی، جس نے نیل کے شہروں اور دیہاتوں کو زمین تا فلک روشن کر دیا، فرزندانِ اسلام کے سامنے ان کی عظمتوں کو واشگا ف کر دیا اور انہیں اپنے آباؤاجداد کی تاریخ یاد دلا دی۔ وہ قاہرہ کت تحریر سکوائر میں مشعلیں تھامے کھڑے رہے تاکہ وہ باطل حکومتوں پر قہر ڈھائیں ، انہوں نے باطل کے سامنے کھڑے ہو کر اسے مقابلے کے لیے دعوت مبازرت دی، اس کے سپاہیوں سے ڈرے نہیں، انہوں نے عہد کیا اور اسے پورا کیا۔ اب حوصلے بڑھ رہے ہیں اور بازوؤں میں نئی قوت انگڑائیاں لے رہی ہے۔  
ہرخطے  میں طاغوت سے آزادی کے متوالوں کے لیے پیغام:
فتح کی طرف
اٹھتے قدم رکنے نہ پائیں، مذاکرات  کے جال میں پھنسنے سے بچئے۔ اس لیے کہ اہلِ حق اور اہلِ باطل کے درمیان دورانِ معرکہ مشاورت نہیں ہوتی، ایسا کبھی سوچیے گا بھی نہیں!یاد رکھیے اللہ نے ان دنوں میں ملنے والی کامیابیوں کی صورت میں آپ پر احسان کیا ہے، جن کے بعد آپ ہی ان کامیابیوں کے ثمرات کو سمیٹنے والے ہوں گے اور حالات کی لگام آپ کے ہاتھ میں ہی ہوگی، امت نے آپ کو اسی عظیم فتح  کے لیے بچا رکھا ہے سو اب بڑھتے رہیے اور تنگی حا لات سے مت گبھرائیے۔
بداءالمسیر الی الھدف۔۔۔ والحرفی فی عزم زحف
والحران بداءالمسیر۔۔۔ فلن یکل ولن یقف
"ہدف کی جانب پیش قدمی شروع ہوچکی ہے اور مردِ حر پختہ عزم کے ساتھ پیش قدمی کرنے لگا ہے۔ اور جب مردِ حر پیش قدمی کرنے لگتا ہے تو پھر نہ وہ تھکتا ہے اور نہ ہی وہ رکتا ہے۔"
یہ قافلہ نہیں رکے گا جب تک کہ اللہ  کے اذن سے مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوجائیں اور امت کی امیدیں بر نہ آئیں۔ یہ تبدیلی سنگِ میل کی حیثیت کی حامل ہے، مجروحوں اور زخمیوں کی امیدوں کا مرکز ہے، آپ نے امت سے ایک بڑی مصیبت دور کی ہے، اللہ تمہارے مصائب دور کرے، آپ امیدوں کا محور ہیں، اللہ آپ کی امیدیں بر لائے۔
وقف السبیل بکم کوقفۃ طارق۔۔۔ الیاس خلف والرجزء امام
وترد بائدم اخذت بہ۔۔۔ ویموت دون عرینہ الضر غام
من یبذل الروح الکریم لربہ۔۔۔ دفعا لباطلھم فکیف یلام
تم رات کے مسافر کی مانند ہو، جومایوسی پیچھے چھوڑ آیا ہے اور جسے صبح  کی امید ہے۔ خون بہے گا تبھی کھوئی ہوئی عزت واپس ملے گی۔ شیر اپنی کچھار کے بچاؤ میں جان دے دیتا ہے تو جو اپنی پاکیزہ جان اپنے رب کی رضا کے حصول میں باطل کو پیچھے دھکیلنے میں کھپا دے، اسے کیوں کر ملامت کی جاسکتی ہے؟’’
اے فرزندانِ امت:
تمہارے سامنے پر خطر راستوں کا چوراہا ہے اور امت کی یہ بیداری، اسے اللہ سے باغی حکمرانوں کی خواہشات، ان کے وضع کردہ قوانین اور صلیبی تسلط کی غلامی سے آزادی دلانے کا تاریخی  اور نادر موقع ہے۔  اس موقع کو ضائع کردینا بڑا گناہ اور بہت بڑی نادانی ہوگی کیونکہ امت اس موقع کی کئی دہائیوں سے منتظر تھی لہذا اس موقع کو غنیمت جانو ، سارے بت توڑ ڈالو اور عدل و ایمان کو قائم کر دو۔
میں مخلص ساتھیوں کو یاددہانی کراتا ہوں کہ  ایسی مجلس کا قیام جو
عا مۃ المسلمینکو تمام اہم امور پر رائے اور مشورہ فراہم کرے، شرعی طور پر واجب ہے۔ یہ مجلس ان باغیرت افراد کے لیے  اور بھی ضروری ہےجنہوں نے بہت پہلے ان ظالم حکومتوں کا جڑ سے خاتمہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا، ایسے افراد جنہیں عا مۃ المسلمین کا وسیع تر اعتماد حاصل ہے۔اب انہیں چاہیے کہ ظالم حکام کے تسلط سے بچتے ہوئے اس منصوبے کو شروع کریں، اس پر فوری عمل درآمد کی سبیل نکالیں اور ایسے گروہ ہمہ وقت موجود رہیں جو موجودہ واقعات کے تسلسل کو برقرار رکھیں۔ اس کا مقصد یہ ہو کہ ایسی ہمہ جہت کارروائی کی جا سکے جس کے ذریعے امت کے تمام مسائل حل ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ امت کے عالی دماغوں کی تجاویز سے  استفادہ کیا جائے، اہلیت کے حامل تحقیقی مراکز اور اہلِ معرفت میں سے فکر و فہم رکھنے والوں کی مدد حاصل کی جائے۔  اسی طرح ان لوگوں کی نصرت کی جا سکتی ہے جو امت پر مسلط طواغیت  کو زوال سے دوچات کرنے کی جدوجہد میں شریک ہیں، جن کے جگر گوشے قتل و غارت گری کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسی نہج پر کئی عشروں سے مسلط حکمرانوں اور ان کے قریبی افراد سے گلو خلاصی حاصل کرنے والی اقوام اس تبدیلی کے ثمرات کو سمیٹ سکتی ہیں اور انہیں اس کے اہداف حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ اقدامات کی راہ نمائی  فراہم کی جا سکتی ہے۔
ایسے ہی جن خطوں میں
عامۃ المسلمین ابھی تک بیدار نہیں ہوئے انہیں بیداری کے لیے تیار کرنے، وہاں تبدیلی کے عمل کی ابتدا کرنے اور اس سے پہلے ضروری تیاریوں کے سلسلے میں ان کے ساتھ تعاون کرین کیونکہ تاخیر سے موقع کھو دینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جب کہ درست اور مناسب وقت سے پہلے پیش قدمی کی صورت میں زیادہ قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں  کہ تبدیلی کی یہ ہوائیں باذن اللہ  سارے ہی عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔  چنانچہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر پیش آمدہ حالات میں پیدا ہونے والی صورت حال کے مطابق حکمتِ عملی وضع کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ کسی بھی حتمی اقدام سے قبل ایسے مخلص ماہرین سے ضرور مشورہ کرلیں جو نہ بیچ کی راہیں تلاش کرنے کے متمنی ہوں اور نہ ہی ظالم  حکمرانوں کی چاپلوسی کرتے رہیں۔
الرائ قبل الشجعان۔۔۔ ھو اول وھی المحل الثانی
‘‘بہادروں کی بہادری سے پہلے مشورہ اہم ہے، کہ پہلے رائے اور پھر بہادری کا کام ہے۔’’
اے میری محبوب امتِ مسلمہ:
یقیناََ آپ  نہیں بھولے ہوں گے کہ چند دہائیوں قبل بھی کئی انقلابی مظاہرے ہوئے تھے، لوگ ان سے بہت مسرور ہوئے مگر پھر کچھ عرصے بعد انہیں ان کے ہول ناک نتائج بھگتنے پڑے، چنانچہ آج امت کے اندر آنے والی تبدیلیوں کو بہکنے، زائل ہونے اور ظلم سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ بنیادی حیثیت کے حامل تمام میدانوں  میں شعوری کوشش کر کے طاغوت سے آزادی  اور نظام کی تبدیلی کے   درست مفاہیم زیادہ سے زیادہ اجاگر کیے جائیں۔ ان میں سب سے اہم اسلام کا پہلا رکن توحید ہے، اور اس موضوع پر لکھی جانے والی اچھی کتابوں میں سے یہ کتاب، جو استاذمحمد
قطب  کی تصنیف ہے "مفاہیم ینبغی ان تصحح" (وہ مفاہیم جن کی تصحیح ہونی چاہیے)کا مطالعہ ازحدضروری ہے۔  
ماضی میں فرزندان امت کی اکثریت کی طرف  سے ہی وہ شعوری کوتاہی برتی گئی جس کے نتیجے مین یہ فساد زدّہ تہذیب ہم پر مسلط ہو گئی اور اس تہذیب کی اقدار کو کئی دہائیوں سے ہمارے اوپر مسلط حکمران مستحکم کر رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اور امت کے دیگر مصائب محض اس المیے کے کڑوے پھل ہیں۔ مغرب کی طرف سے مسلط کردہ اس تہذیب کے نتائج ہمارے حق میں بہت ہی بھیانک نکلے ہیں، ان نتائج میں ذلت و رسوائی ، عاجزی و بے بسی، اپنے اوپر مسلط حکمرانوں کی مکمل غلامی، جو در حقیقت اللہ کے بجائے ان کی عبادت کے مترادف ہے، ان کے حق میں اہم دینی و دنیاوی حقوق سے دستبرداری ، تمام اعلیٰ اقدار، اصول و ضوابط اور شخصیات کو انہی حکمرانوں کے ذاتی محور کے گرد گھمانا شامل ہیں۔  چنانچہ یہ سب باتیں تو انسان سے اس کی انسانیت تک چھین لیتی ہیں اور اسے حکمران اور اس کی خواہش کے پیچھےبلا ادراک و بصیرت بھاگنے داڑنے والا بنا دیتی ہے۔ نتیجتاََ ہر فرد ایسا چاپلوس بن جاتا ہے، 'اگر لوگ اچھا کریں گے تو وہ بھی اچھا کرے گا اور اگر لوگ برا کریں گے تو وہ بھی برا کرے گا' یہ فلسفہ اس کی فطرتِ ثانیہ بن جاتا ہے۔ یہی چیز اسے اس پتھر جیسا بنا دیتی ہے جو ٹھوکروں کی زد میں ہو کہ جس کے ساتھ حکمران جیسا چاہیں سلوک کرے۔ ہمارے ملکوں میں اسی قسم کے لوگ ظلم و استبداد کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں ، جنہیں حکمران اس لیے سڑکوں پر نکال لاتے ہیں کہ وہ ان کے ناموں کے نعرے بلند کریں ، ان کی حفاظت کے لیے مورچے مضبوط کریں۔ ان حکمرانوں کی اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ لوگ اپنے ان اساسی حقوق سے بھی دستبردار ہو جائیں جو انہیں  اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے لوگوں کی  سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کر لیں اور اہم امور عامہ میں ان کے کردار کو محدود کرنے کے لیے سرکاری دینی اداروں اور ذرائع ابلاغ کی باہم کوششوں کے ذریعے ایسانظام وضع کیا جو اُن (حکمرانوں کے افعال)کوقانونی رنگ دے۔ ان کی چالوں نے لوگوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں، ان کی عقلوں کو ماؤف کردیا،‘بلند عزائم’ جیسے الفاظ کو اُن کےلیے اجنبی بنا دیا ، ان کی حکمرانی کے بت کی عبادات کو رائج کیا۔ پھر جھوٹ اوربہتان سے کام لیتے ہوئے  اپنے ان کریہہ افعال  کو دین کا لبادہ بھی اوڑھا دیا اور وطن کے نام  کی بنیاد بھی فراہم کی،تاکہ لوگ ان کو احترام کریں، انہیں اپنے دلوں کی گہرائیوں میں بٹھالیں ، قوم کے اکابر انہیں مقدس قرار دیں ، حتیٰ کہ وہ اطفالِ عمر بھی اس فتنہ سے محفوظ نہیں جو ہمارے ذمے امانت ہیں اور جو فطرت پر پیدا ہوئے ، اُنہوں نے شقاوتِ قلبی اور بے رحمی کے ساتھ اُن کی فطرت کو بھی چھین لیا۔  انہیں حالات کی ستم ظریفیوں میں جو ان بوڑھا ہوگیا اور بچہ جوان ہوگیا  جبکہ  سرکش اپنی سرکشی میں اور بڑھ گیا، اور کمزور اپنی کمزوری میں اور بڑھ گئے۔
اب تم کس بات کا انتظار کررہے ہو؟ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بچا لو کہ اب موقع میسر ہے، خصوصاً اس لیے بھی کہ جوانان اُمت انقلابات کی تکالیف و مشکلات اور طاغوتوں کی گولیوں اور تشدد کو برداشت کررہے ہیں ، پس انہوں نے قربانیاں دے کر راہ ہموار کردی ہے  اور اپنے لہو کے ذریعے طاغوت سے آزادی کا پُل قائم کردیا ہے۔ عمر کے بہترین حصّے میں ان جوانوں نے ذلت اور مغلوبیت  کی دنیا کو طلاق دے دی، عزت یا قبر سے رشتہ جوڑ لیا۔ کیا جابر حکمران اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ اب عوام نکل کھڑی ہوئی ہے اور اب اس وقت تک نہیں لوٹے گی جب تک سارے وعدے پورے نہ ہوجائیں ، باذن اللہ تعالیٰ۔
آخر میں ، میں کہوں گا کہ ہمارے ممالک میں ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا اور ہم نے اس کا انکار اور مقابلہ کرنے میں بہت تاخیر کردی ہے ، لہذا اب جو شروع کرے تو اسے پورا کرے۔ اللہ تعالیٰ اُس کی مدد کرے گا اور جس نے اب تک شروع نہیں کیا تو وہ حالات کے مطابق تیاری کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صحیح حدیث پر غور کرے، جس میں انہوں (ﷺ) نے فرمایا:
ما من نبی بعثہ اللہ فی امتہقبلی الا کان لہ من امتہ حواریون و اصحاب یا خذون بسنتہ و یتقیدون بامرہ ، تم انھا تخلف من بعدھم خلوف یقولون مالایفعلون، و یفعلون مالا یومرون، فمن جا ھدھم بیدہ فھو ومومن، ومن جاھدھم بلسانہ فھو مومن، ومن جاھدھم بلقلبہ و ھو مومن، ولیس وراء ذلک من الایمان حبہ خردل
‘‘ مجھ سے پہلے جس اُمت میں بھی اللہ نے کوئی نبی بھیجا تو اس کی امت میں اس کے کچھ حواری اور ساتھی ضرور ہوتے  جو اس کی سنت پر چلتے اور اس کے حکم کی پابندی کرتے، پھر ان کے بعد کچھ نا خلف آئے(جن کا طرز عمل یہ تھا کہ ) جو کہتے وہ کرتے نہیں ، اور کرتے وہ جس انہیں حکم نہیں دیا جاتا۔ تو جس نے ان سے اپنے ہاتھ کے ذریعے جہاد کیا، وہ مومن ہے اور جس نے ان سے اپنی زبان کے ذریعے جہاد کیا، وہ مومن ہے اور جس نے ان سے اپنے دل کے ذریعے جہاد کیا وہ مومن ہے اور اس کے رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ۔ ’’
آپ ﷺ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
سید الشھداء حمزہ بن عبدالمطلب ، ورجل قام الی امام جائز فامرہ ونھاہ فقتلہ
‘‘شہداء کے سردار حمزہ بن عبدالمطلب ہیں اور وہ شخص بھی جو جابر حکمران ان کے سامنے کھڑا ہوا اور اسے (نیکی کا) حکم دی اور (برائی سے) منع کیا اور اس (حکمران)نے اُسے قتل کردیا۔’’
جو اس عظیم ارادے سے نکلا ، اسےمبارک باد، کہ اگر وہ قتل کیا گیا تو سید الشھداء ہے اور اگر وہ زندہ رہا تو عزت و آبرو اور غیرت و حمیت  کے ساتھ رہا، لہذا حق کی مدد کریں اور ذرا بھی پریشان نہ ہوں۔
فقول الحق للطاغی۔۔۔۔ ھو العز ھوالبشری
ھو الدرب الی الدنیا۔۔۔ ھو الدرب الی الأخری
فان شئت فمت عبدا۔۔۔ وان شئت فمت حرا
(طاغوت کے سامنے کلمۂ حق کہنا ، یہی عزت ہے یہی بشارت ہے ، یہی دنیا میں (عزت سے)جینے کا راستہ ہے۔۔۔ یہی آخرت کی کامیابیوں کی طرف جانے کا راستہ ہے۔ سواب چاہو تو غلامی میں مرجاؤ ۔۔۔ اور چاہو تو حریت اور آزادی کی موت پالو۔)
یا اللہ!اپنے دین کی مدد کرنے والوں کو فتح مبین عطا فرما اور انہیں صبر ، سیدھی راہ اور یقین عطا فرما۔
یا اللہ! اس امت کو ہدایت کا ایسا معاملہ عطا فرما جس میں تیری فرماں بردار معزز اور نافرمان  رسوا ہوجائیں  ، جس میں نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے منع کیا جائے۔
اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیا میں حسنات دے اور آخرت میں بھی حسنات دے اور ہمیں آگ کے عذب سے بچا لے۔
اے اللہ! ہماری کمزوری کو قوت سے بدل دے اور ہماری کوتاہی دور فرما اور ہمارے قدم جمادے۔
اے اللہ! مقامی اور عالمی ظالم حکمرانوں کو پکڑ اور کافر و مشرک اقوام کے خلاف ہماری مدد فرما۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
--------
شیخ اسامہ شہید ؒ  کا یہ آڈیو بیان سننے کےلیے اس ربط پر جائیں
http://archive.org/details/islamic928/

0 Responses to “اسامہ بن لادن شہید ؒ کا آخری بیان ”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ