ہفتہ، 21 نومبر، 2015

مالِک کا انتخاب



جب کبھی کسی قریبی کی شہادت کی خبر، دل کو غم ناک کرتی ہے، تو  شہید شیخ انور العولقی رحمۃ اللہ علیہ کے یہ کلمات دِل کو اطمینان بخشتے، یہ روح پرور الفاظ ذہن میں گونجنے لگتے ہیں:
‘‘اللہ کی راہ میں شہادت، درخت کی مانند ہے۔ اس درخت  پر پھل لگتے ہیں۔ یہ پھل  پک کر تیار ہو جاتے ہیں اور پھر ان پکے ہوئے پھلوں کو  اتارنے کا وقت آ جاتا ہے۔ یہ عمل خاص موسموں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے غلام بندے بھی مختلف مراحل سے گزرتے ہیں،  یہاں تک  کہ وہ مرحلہ آن پہنچتا ہے کہ جب ان بندوں میں سے شہداء کا انتخاب کر لیا جائے۔ اللہ عزّوجلّ فرماتے ہیں:ویتخذ منکم شھداء۔۔۔‘‘اور وہ تم میں سے شہداء کا انتخاب کرتا ہے’’۔جب اللہ عزّ و جلّ  کسی کو بطورِ شہید منتخب فرماتے ہیں، تو یہ بات اس شخص کے لیے باعثِ کرامت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اس پر فضل ہے اور نقصان کی بات نہیں۔ہر گز، ہر گز بھی نقصان کی بات نہیں!اس لیے لوگوں  کو چاہیے کہ وہ ثقافتِ  اِستشہاد (شہادت کی ثقافت) کو جانیں اور سمجھیں کہ شہادت ربّ العالمین  کی جانب سے فضل و کرم ہے، مہربانی ہے،خسارہ نہیں ہے، ہرگز ہرگز بھی خسارہ نہیں ہے!’’


دِل جب بھی غمِ شہداء  میں ڈُوبتا ہے تو دِماغ سوچنے لگتا ہے کہ  ہمارے مالک کا انتخاب کیا چیز ہے۔۔۔؟ شیخ عبد اللہ عزّام ؒ  فرماتے ہیں کہ جن شہداء کے ساتھ ان کا وقت گزرا، بعض صفات ان میں مشترک دیکھیں:
1.      مسلمانوں کی غیبت اور بُرے تذکرے سے پرہیز اور زبان کی حفاظت
2.      مسلمان بھائیوں کے لیے کینہ اور نفرت سے پاک دِل
3.      خاموش محنت کی عادت اور شہرت سے پرہیز
4.      اطاعتِ امیر۔۔۔ اگر پیچھے چھوڑ دیے جائیں تو وہیں اپنا فرض نبھائیں
5.      دوسروں سے بحث و تمحیص سے اجتناب
6.      بھرپور حیاء، کمال درجے کا ادب، علمائے کرام، بزرگوں اور ذمہ داروں کا شدید احترام
7.      محاذوں سے چمٹے رہنے کی شدید حرص۔۔۔ عیش و آرام اور راحت بھری فضاؤں سے نفرت
8.   ان کی زبانیں مسلمانوں کی خوبیوں کے گن گانے میں مصروف رہتیں، دیگر جہادی مجموعوں اور اور مجاہدین کو اپنے سے بہتر سمجھتے، کسی پر اپنی بڑائی نہ جتاتے اور اپنے آپ کو ہمیشہ چھوٹا جانتے۔
ہم ربّ کی جنّتوں کے مزے کیا جانیں، جن میں یہ شہداء مزے سے جی رہے ہیں اور اپنا رزق پا رہے ہیں؟  ہم تو وہ ہیں کہ جو کیلے کا ذائقہ  پوچھنے پر بھی میٹھا بتاتے ہیں اور آم  و سیب کا پوچھیں تب بھی جواب  ’میٹھا‘ ہی دے سکتے ہیں۔  مگر سچے  رسول کی زبانی سچی خبر ہے کہ فِيهَا مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَی قَلْبِ بَشَرٍ۔۔۔ ‘‘جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں کہ جن کو نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل پر ان کا خیال گزرا’’۔۔۔اور  اللہ پاک فرماتے ہیں کہ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْمِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ‘‘کوئی نہیں جانتا کہ ان کے عمل کے بدلہ میں ان کی آنکھوں کی کیسی ٹھنڈک چھپا رکھی ہے’’۔   بس یہ  احساس پاتے ہی مغموم دِل ، مسرور ہونے لگتا ہے۔ اسی سُرور کو  دیگر لوگوں کے قلب و روح پر آشکارا کرنے کے لیے میں نے سوچا کہ جن شہیدوں سے میں واقف ہوں انہیں باقی بھی جان لیں۔ جان لیں کہ آخر کیسا ایمان تھا، جس نے ان کو اپنے گھروں میں، صوفوں اور قالینوں پر بھی بے چین کر دیا۔۔۔ اور انہوں نے ایسے جنگلوں اور پہاڑوں کا رُخ کر لیا  جہاں کی پتھریلی زمین ان کے لیے بچھونا اور آسماناوڑھنا بن گیا؟  انہی جذبات  و افعال کو منتقل کرنے کا احساس  آج بھی قلم تھامنے کا باعث بن گیا۔ یہ مضمون تمہید ہےآئندہ آنے والے تذکرۂ شہداء کی۔

اے پیارے مالک۔۔۔ ہم تجھی کو پکارتے ہیں کہ تو اپنی خاص عنایت سے ہمیں بھی صفاتِ شہداء  سے مزیّن کر دے، ہمارے کوائف اس درجے کو پہنچا دے کہ ہم بھی تیرا انتخاب قرار پائیں، ہمیں شہادت سے محروم نہ کرنا،  یا رباہ ۔۔۔!!!

ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم و تب علینا انک انت التواب الرحیم۔ و صلی اللہ علی النبی و آلہ و صحبہ اجمعین، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

0 Responses to “مالِک کا انتخاب”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ