جمعرات، 3 دسمبر، 2015

مجھے رشتہ مِل گیا ہے۔۔۔!




تحریر:سعد خالد
(یہ تحریرملحمہ بلاگ کی انتظامیہ کوای میل پر موصول  ہوئی۔)

شمشیر داوڑ  میرے بہت اچھے انصاری بھائی تھے۔ میرا ان سے رشتہ ویسا ہی تھا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کر کے آنے والے صحابہؓ اور مدینہ کہ رہائشی صحابہؓ کے درمیان قائم فرمایا تھا۔ ہجرت کر کے آنے والے مہاجر کہلائے اور مدینے کے رہائشی صحابہؓ انصار کے لقب سے جانے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے مہاجر و انصار کا رشتہ عجیب  محبت والا بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَـئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ

’’جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور انہوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے، وہ اور جنہوں نے ان کو (مدینہ میں) آباد کیا، اور ان کی مدد کی، یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں۔ ‘‘(سورۃ الانفال: ۷۲)
مہاجرین اور ان کی مدد کرنے والوں یعنی انصار کے مقام و مرتبے کو ظاہر کرتا اللہ تعالیٰ کا ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَئِكَ هُمُالْمُؤْمِنُونَ حَقّ اًلَّهُم مَّغْفِرَةٌوَرِزْقٌ كَرِيمٌ◌

’’اور جو لوگ ایمان لے آئے، اور انہوں نے ہجرت کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، وہ اور جنہوں نے انہیں آباد کیا، اور ان کی مدد کی، وہ سب صحیح معنیٰ میں مؤمن ہیں۔ ایسے لوگ مغفرت اور با عزت رزق کے مستحق ہیں۔‘‘ (سورۃ الانفال: ۷۴)


وسیم داوڑ  جن کا جہادی نام ’’شمشیر ‘‘تھا، شمالی وزیرستان کے شہر میر علی کے باسی تھے۔ آپ ایک امیر گھرانےسے تعلق رکھتے تھے، گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی سوائے اس چیز کے جو شمشیر بھائی نے محسوس کی۔۔۔ وہ چیز تعلق مع اللہ کی سب سے اونچی قسم اور ذکر اللہ کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ تھی۔ اسی چیز کو پانے کے لیے شمشیر داوڑ بھائی نے ایک طویل عرصے سے اپنے آپ کو  راہِ جہاد کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ خصوصاً مہاجر مجاہدین کی مدد کے لیے آپ ہر دم پیش پیش تھے۔ آپ کو اس خدمت کے لیے نہ دِن کی پروا  ہوتی نہ رات کی۔ نہ کبھی گرمی آڑے آئی  نہ جاڑا نے جذبات کو سرد کیا۔نہ راستے کی طوالت نے آپ کو سفر مختصر کرنے پر آمادہ کیانہ مختصر زندگی کا دھوکہ آپ کو ہمیشہ کی زندگی سے بہکا سکا۔ میں نے آپ کو بیماری میں بھی ویسے ہی اپنے فرائض کی انجام دہی کرتے پایا جیسے آپ حالتِ تندرستی میں کرتے ، سوائے یہ کہ بیماری آپ کو بستر سے اٹھنے کے قابل نہ رہنے دیتی۔ آپ نے اہلِ خاندان کی باتیں بھی سنیں، قوم کے طعنے بھی سہے، پاکستانی فوج سے لے کر امریکہ سی ’سپر‘ پاور سے بھی  دشمنی مول لی مگر اپنے مہاجر بھائیوں سے رشتہ منقطع نہ ہونے دیا ۔ دین کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ نصرتِ جہاد و مجاہدین میں اسلاف کی مثال کو تازہ کرنے میں ہمہ تن مصروف رہےیہاں تک  کہ لیلائے شہادت سے ہمکنار ہو گئے۔ پاکستانی حکومت  و فوج، اور ان کا آقا امریکا ، قبائل کے ایسے پاکباز مجاہدین کو خاص طور پر چن چن کر نشانہ بناتے ہیں جو مہاجر مجاہدین کی بھرپور مدد و نصرت میں مصروف رہتے ہیں۔ پاکستانی خفیہ اداروں کی جاسوسی پر ۱۰ ستمبر ۲۰۱۴ء کو افغانستان کے علاقے گیان سے آتے ہوئے آپ پر امریکی جیٹ اور ڈرون طیاروں نے بمباری کی جو آپ کی شہادت کا سبب بنی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنتوں میں صحابۂ انصار رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہمسایہ بنائے اور مجھے ان کے ساتھ جمع فرمائے۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ آپ  کو اِس تعلقِ جہاد و مجاہدین کے باعث خاندان میں مخالفت کا سامنا رہا اور اسی وجہ سے آپ کو خاندان کوئی میں رشتہ دینے پر آمادہ نہ تھا۔ سب یہ شرط رکھتے تھے کہ  کوئی نوکری کرو، کوئی کاروبار کرو، کوئی کھیتی اگاؤ، مجاہدین کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور ان کی نصرت کرنا بند کرو پھر بیٹی دیں گے۔ آپ نکاح کے بہت زیادہ خواہش مند بھی تھے،  عمر تیس سال کے قریب پہنچ رہی تھی اور  قبائل میں عموماً جوان ہوتے ہی شادی ہوجایا کرتی ہے، اس لیے کبھی کبھی پریشان بھی ہوجاتے تھے۔ دیگر ساتھی آپ کو مذاق میں چھیڑا بھی کرتے کہ جاؤ یار !تمہیں تو کوئی رشتہ بھی نہیں دیتا۔ لیکن وہ آشنائے لذتِ دیدارِ ربّ  کہاں کسی کی بیٹی کی خاطر راہِ جنت کو ترک کر سکتا تھا۔ اسی طرح زندگی کا پہیہ گھومتا رہا، وہ راہِ جہاد سے چمٹے رہے، یہاں تک کہ شمشیر بھائی وہ زندگی پا گئے جو ظاہراً موت ہے مگر حقیقتاً حیات ہے۔ ایسی حیات جس کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ◌

‘‘اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو۔ دراصل وہ زندہ ہیں، مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا۔’’ (سورۃ البقرۃ: ۱۵۴)
----------------------------
سیرت کی کتابوں میں ایک عجیب واقعہ ملتا ہے۔ ایک صحابی جن کا نام سعد الاسود رضی اللہ عنہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔ آپ کا نام تو سعدؓ ہے مگر اسود آپ کو گہری رنگت کے باعث کہا جاتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی غربت و مفلسی کا تذکرہ کرتے ہیں، نہ آپ کے پاس مال ہے، نہ گھر بار ہے،  نہ حسب و نسب ایسا کہ کوئی رشتہ آسانی سے دے دے اور اس پر مستزاد کہ دنیاوی لحاظ سے آپ خوبصورت بھی نہیں ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے ہیں کہ ’’فلاں قبیلے کے سردار کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح تم سے کردے۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ جاتے ہیں اور اُن سردار سے رشتہ مانگتے ہیں۔ ان قبیلے کے سردارؓ کو آپؓ کی ظاہری حالت دیکھ کر غصہ میں آپؓ کو سخت سست کہتے ہیں اور چلے جانے کو کہتے ہیں۔ ویسے تو وہ سردار خود بھی صحابیؓ ہیں، بس رشتے میں ظاہری برابری نہ دیکھ کر بوجہ غصہ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں ۔
حضرت سعد الاسود ؓ واپس لوٹنے کو مڑتے ہیں، چند قدم چلتے ہیں کہ ایک نسوانی آواز آپؓ کے کانوں سے ٹکراتی ہے۔ ’’اے واپس جانے والے! اگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تو مجھے منظور ہے۔ ‘‘یہ آواز ان سردار کی بیٹی کی ہوتی ہے ۔ بیٹی کی بات سنتے ہی اور یہ سمجھتے ہی کہ یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے والدؓ کا غصہ جاتا رہتا ہے۔ یہ سردارؓ، سعد الاسودؓ سے مخاطب ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ مجھے یہ رشتہ منظور ہے۔ یہ کہہ کر حضرت سعد الاسود رضی اللہ عنہ کو پیسے دیتے ہیں کہ یہ  لیجیے اور بازار سے شادی کا سامان خرید کر واپس آئیے تاکہ آپ کا نکاح کر دیا جائے۔
سعد الاسودؓ بازار پہنچتے ہیں۔ اتنے میں سماعت سے منادی کرنے والے کی آواز ٹکراتی ہے کہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان جنگ ہونے والی ہے، تمام لوگ میدانِ جہاد کی جانب لپکیں۔ سعد الاسودؓ سامانِ عروسی اور شبِ زفاف کا خیال چھوڑتے ہیں، سامانِ جنگ خریدتے ہیں اور لپک کر میدانِ جہاد کا رخ کرتے ہیں۔
جنگ کے اختتام پر شہداء کی نعشوں کو جمع کیا جا رہا ہے۔ انہی نعشوں میں سے ایک نعش کسی گہرے رنگ والے شخص کی بھی ہے۔ لوگ اسے  پہچاننے سے قاصر ہیں۔ لیکن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہچان جاتے ہیں کہ یہ تو وہی سعد الاسودؓ ہیں۔ ایسے حال  میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے فلاں سردار! اللہ تعالیٰ نے سعد کو تمہاری بیٹی سے زیادہ خوبصورت ، موٹی موٹی آنکھوں والی حور سے بیاہ دیاہے۔
سبحان اللہ کیا ہی اچھا رشتہ ہے یہ!
----------------------------
ہمارے ایک بھائی نصر الدین  نے شمشیر بھائی کو شہادت کے بعد خواب میں دیکھا۔ نصرالدین کو ابھی خبر نہ تھی کہ شمشیر بھائی شہید ہو چکے ہیں۔  نصرالدین نے خواب میں دیکھاکہ:
‘‘کچھ ساتھی بیٹھے ہوئے ہیں اور ان ساتھیوں میں شمشیر بھائی بھی ہیں۔ ساتھی حسبِ عادت شمشیر بھائی کو چھیڑتے ہیں کہ تمہیں تو کوئی رشتہ ہی نہیں دیتا۔۔۔ یہ بات سن کر شمشیر بھائی جواب دیتے ہیں: نہیں بھیا!۔۔۔ مجھے رشتہ مِل گیا ہے!’’
نصر الدین بھائی کہتے ہیں کہ صبح اٹھ کر انہیں خبر ملی کہ شمشیر بھائی شہید ہو چکے ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’(میرے بعد) نبوت میں سے بجز مبشرات کے کچھ باقی نہیں رہے گا۔‘‘صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ‘‘ (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!) مبشرات سے آپ کی کیا مراد ہے؟’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘صالح خواب’’(صحیح بخاری)۔ نصر الدین کا خواب ہمارے گمان کے مطابق ایک صالح خواب تھا۔ یہ رشتہ یقیناً ان انعامات میں سے ایک تھا جو ربّ تعالیٰ شہید کو عطا فرماتے ہیں، یعنی بہتّر (۷۲)موٹی موٹی آنکھوں والی حوروں سے نکاح۔ ہمارا آپ کے بارے میں یہی گمان ہے اور اصل واقفِ حال تو اللہ کی ذات ہے۔اہلِ دنیا نے تو ہمارے شمشیر بھائی کو اپنی بیٹی نہ دی مگر ان کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی جنتوں میں نکاح کا انتظام کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ◌فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ◌حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ◌فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ◌لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ◌فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ◌

‘‘اُنہی میں خوب سیرت خوبصورت عورتیں ہوں گی، اب بتاؤ کہ تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ وہ حوریں جنہیں خیموں میں حفاظت سے رکھا گیا ہو گا! اب بتاؤ کہ تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟  اُنہیں (یعنی حوروں کو) ان جنتیوں سے پہلے نہ کسی انسان نے کبھی چھوا ہو گا، اور نہ کسی جن نے۔ اب بتاؤ کہ تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ ’’(سورۃ الرحمٰن:۷۰ تا ۷۵)
اور دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَحُورٌ عِينٌ◌كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ◌جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ◌

‘‘اور وہ بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں! ایسی جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی! یہ سب بدلہ ہو گا اُن کاموں کا جو وہ کیا کرتے تھے۔’’(سورۃ الواقعہ: ۲۲ تا ۲۴)
اللہ تعالیٰ ہمارے شمشیر بھائی پر ڈھیروں رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے ساتھ ہمارے گمان سے بھی بہتر معاملہ فرمائے، آمین یا ربّ العالمین۔ ساتھ ہی ہم دین کے لیے ہجرت کرنے والوں کے مددگار انصار کے لیے وہ  دعا بھی مانگتے ہیں  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے لیے مانگی:

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَلِأَبْنَائِ الْأَنْصَارِ وَأَبْنَائِ أَبْنَائِ الْأَنْصَارِ

اے اللہ انصار کی اور انصار کے بیٹوں کی اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کی مغفرت فرما، آمین۔
و آخر دعوانا ان الحمدللہ ربّ العالمین

----------------------------

0 Responses to “مجھے رشتہ مِل گیا ہے۔۔۔!”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ