پیر، 16 نومبر، 2015

ساری دنیا پوچھ رہی تھی، بولو اب تم ساتھ ہو کس کے؟

تحریر:سعد خالد
(یہ تحریرملحمہ بلاگ کی انتظامیہ کوای میل پر موصول  ہوئی۔)

ذہن میں ابھرنے والے چند بے ترتیب خیالات نذرِ قارئین ہیں :
1.      سنہ ۲۰۰۳ء میں عراق کے ہنستے بستے شہر فلوجہ  میں فرعونِ وقت امریکہ نے وحشیانہ بمباری کی اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ وہ کیمیائی ہتھیار جو ان کے قانون میں بھی استعمال کرنا جرم ہے ۔ لاکھوں معصوم اس بمباری کے نتیجے میں لقمۂ اجل بنے اور کروڑوں اس کے اثراتآج تک جھیل رہے ہیں۔ 


اس وحشت ناک کارروائی بلکہ درندگی پر ردعمل آیا تو منہاجِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے برخلاف یونان میں تخلیق کیے گئے نظامِ جمہوریت کے عین مطابق۔فلوجہ جل رہا تھا، جل چکا تھا، ہم سورہے تھے اور تا حال سو رہے ہیں۔
2.      چھ تا گیارہ اکتوبر 2015ء،قندھار کے علاقے شراوک میں امریکی فوج، پاکستانی فوج اور افغان مِلّی فوج کا مشترکہ آپریشن۔ فضائی آپریشنوں کی تاریخ میں ان چھ روز میں بد ترین کارروائیاں کی گئیں۔ چھ دن میں تریسٹھ (63) ڈرون حملے۔ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال۔ امریکی فوجیوں نے فضائی بمباری کے بعد زمین پر اتر کر شہداء کی لاشوں پر تیزاب اور دیگر کیمیائی مواد پھینکا اور زخمیوں کو زہر بھرے ٹیکے لگائے جس سے ان کے جسم گل سڑ گئے۔سرلٹ کے علاقے میں کیمیائی گیس استعمال کی۔سو سے زائدشہید اور درجنوں اس درندگی کے باعث زخمی ہوئے۔یہ ۲۰۰۱ء میں امریکی حملے کے بعد سے افغانستان کی جنگی تاریخ کا سب سے بڑاآپریشن تھا۔ نجانے ان کیمیائی ہتھیاروں کے اثرات کتنے لوگ، کتنی نسلوں تک جھیلیں گے؟
قندھار میں کی گئی اس درندگی پریونان کے ایتھنز، امریکہ کے واشنگٹن اور فرانس کے پیرسوالے طریقے پر بھی رد عمل نہیں آیا۔ خاموشی ہی خاموشی چھائی رہی! قندھار جل رہا تھا، جل چکا ہے، جل رہا ہے، ہم سو رہے تھے، سو رہے ہیں اور کیا سوتے ہی رہیں گے؟
3.      11 ستمبر2001ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں امتِ مسلمہ کے کچھ جواں مرد بیٹوں نے چار جہاز مارے۔ چار ہزار امریکی واصلِ جہنم ہوئے۔ پندرہ سال ہونے کو آئے آج تک شور نہیں تھما۔
4.      12 نومبر 2015ء کو امت کے کچھ بیٹوں نےایک ہزار سالہ صلیبی جنگوں کی تاریخ رکھنے والےفرانس کے دِل پیرس پر چھ حملے کیے۔ نتیجتاً کوئی ڈیڑھ سو کے قریب عیسائی مارے گئے۔ شور ہے کہ تھمنے کا نامہی نہیں لے رہا۔
5.      نیویارک اور پیرس کے واقعات کی مذمت سب کر رہے ہیں حتیٰ کے ہمارے مسلمان بھائی بھی #WeAreWithParis اور #PrayForParisکے ہیش ٹیگ لگا رہے ہیں مگر کہیں کوئی ایک دعا، ایک سسکی ، ایک آہ، ایک مذمتی بیان کیا اسٹیٹس اپڈیٹ بھی قندھار میں استعمال کیے گئے کیمیائی ہتھیاروں کےاستعمال کے خلاف حرفِ احتجاج نہیں بن سکا، آخر کیوں؟
6.      آپ کو یاد ہو گا ۲۰۰۱ء میں امریکی صدر بُش نے کہا تھا:معنا أو مع الارھابیون، Either you are with us or with the terrorists، یا تو تمہارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے ساتھ۔
7.      آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیےکہ آپ نے لکیر کےکس طرف کھڑا ہونا ہے، کیونکہ Grey Areas ختم ہوتے جارہے ہیں۔ یاد رکھیے گا آپ نے حزب الرحمان کا ساتھ دینا ہے، حزب الشیطان کا نہیں۔
8.      وضاحت کرتا چلوں کہ قندھار اور فلوجہ والے حزب الرحمان  میں تھے اور نیو یارک اور پیرس والے حزب الرحمان میں نہیں تھے۔ میں عرض کر چکا کہ Grey Areas ختم ہوتے جا رہے ہیں، اگر نیو یارک اور پیرس والے حزب الرحمان میں نہیں تھے تو یقیناًوہ حزب الشیطان میں ہی ہوں گے۔
9.      جو اس دنیا میں حزب الرحمان کے ساتھ کھڑے ہوں گے وہی روزِ محشر بھی حزب الرحمان کے ساتھ ہوں گے اور جو اس دنیا میں حزب الشیطان کے ساتھ کھڑے ہوں گے وہ روزِ محشر بھی حزب الشیطان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
بکھرے خیالات ختم ہوئے، شاید آپ کے ذہن کے  بکھرے خیالات کو یہ  بکھرے خیالات ایک جگہ مجتمع کر دیں۔

اے اللہ ہمیں حق کو حق ہی دکھلائیے اور حق کی اتباع کرنے والا بنائیے اور اے ہمارے اللہ ہمیں باطل کو باطل ہی دکھلائیےاور باطل کی اتباع سے اجتناب کرنے والا بنائیے، آمین یا ربَّ العالمین۔
وضاحت:           اوپر مذکور خیالات  کا مصدر ، راقم السطور کے زمینی ذرائع، امارتِ اسلامیہ افغانستان کی رسمی ویب سائٹ ، بی بی سی اور امریکی ویب سائٹ لانگ وار جرنل ہیں۔

و صلی اللہ تعالیٰ علی النبیّ و آخر دعوانا ان الحمدللہ ربّ العالمین۔
----------

0 Responses to “ساری دنیا پوچھ رہی تھی، بولو اب تم ساتھ ہو کس کے؟”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ