منگل، 11 اکتوبر، 2016
حضرت اقبال” بچ”گئے!
مصعب ابراہیم
بھلے
وقت تھے کہ حضرت اقبال نے دوٹوک اورواضح
انداز میں عصبیت وطنی کے فتنے اور قومی
تعصب کے زہر کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی فرما
دی ،ساتھ ہی امت کے لیے اس کی تباہ کاریوں
سے بھی متبہ کردیا…اچھے زمانے تھے کہ
علامہ اقبال ‘شدت پسندی اور ’’دہشت
گردی‘‘کوپروان چڑھانے والے نظریات
پھیلاتے رہےاورطبعی طورپرداعیٔ اجل کو
لبیک کہہ گئے…آج اس سب کے عشر عشیر بھی
ارشاد فرمادیتے تو ’’نیشنل ایکشن
پلان‘‘کی زد میں آتے،پہلے گھرسے اٹھاکر
غائب کردیے جاتے ،تاریک کوٹھریوں میں ڈال
دیے جاتے اوروحشی درندے مہینوں تک اُن کے
جسم وجان کو بھنبھوڑتے رہتے…آخر کارگھٹاٹوپ
اندھیروں میں کسی ویرانے میں لے جا کر
’’پولیس مقابلے‘‘کی نذرکردیے جاتے اور
اگلے دن ہتھ کڑیوں میں جکڑی ،خاک وخون میں
غلطاں‘علامہ اقبال کی لاش کی تصویر کے
ساتھ خبر آتی کہ
’’ سی
ٹی ڈی اورخفیہ اداروں کی مشترکہ کارروائی
…اقبال نامی شدت پسند‘ دہشت گردی کی
منصوبہ بندی میں مصروف تھا کہ قانون
نافذکرنے والے اداروں نے اُنہیں جالیا
،اقبال کے ساتھیوں نے ہمارے جوانوں پر
فائرنگ کی اور جوابی فائرنگ پرفرار ہونے
میں کامیاب ہوگئے جب کہ اقبال اپنے ہی
ساتھیوں کی فائرنگ کی زد میں آکرماراگیا !‘‘…
ذراشاعری
پڑھیے اور پھرسوچئے کہ آج کے دور میں ایسے
خالص توحیدی اوروطنیت کی جڑ کاٹنےوالے
نظریات کی ترویج واشاعت کرنے والوں کا
انجام اس کے علاوہ بھی کچھ ہورہا ہے؟!
؎اگر
ملک ہاتھوں سے جاتا ہے‘جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
…………………
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
…………………
تا
خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استور
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
…………………
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
…………………
بتان
رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی نہ افغانی
…………………
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی نہ افغانی
…………………
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انساں کو
اخوت کابیاں ہوجا ، محبت کی زباں ہوجا
یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی ، وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل ، اچھل کر بیکراں ہوجا
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہيں پيمانے سے
ہے عياں يورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
…………………
عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری!
…………………
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر ِکاشانۂ دین نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے !
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد ِوطن صورت ماہی
ہے ترک ِوطن سنت ِمحبوب ِالہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
گفتار ِسیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
……………………………………………………
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “حضرت اقبال” بچ”گئے!”
ایک تبصرہ شائع کریں