منگل، 11 اکتوبر، 2016
جو جنوں کے ہمرکاب ہوئے ترے نقشِ پا کو وہ پا گئے!
دکھ
درد،کرب وآزار،تکلیف ورنج اوراذیت والم
میں ڈوبی ہوئی،ہرروزاہل کفروارتداد
کےزہریلے چرکے سہتی ‘امت محمدیہ علی
صاحبھاالسلام کے حالت پر غورکریں تو چار
طرح کے طبقات اس صلیبی جنگ میں اپنے اپنے
کردار اورعمل کے ساتھ سرگرم دکھائی دیتے
ہیں…ایک تو ایلان کردی اور عمران دقنیش
جیسے بچے ہیں جو کہیں سمندروں کی لہروں
کی نذرہورہے ہیں او رکہیں لعین کفار کی بم
باریوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں،اوریہ معاملہ
بچوں تک محدود ہے نا ہی سرزمین شام تک!امت
مسلمہ سے وابستہ مظلومین ‘دنیا بھر میں
گھیرے جارہے ہیں،ستائے جارہے ہیں،رُلائے
جارہے ہیں، تابکاریوں اوربم باریوں کاشکار
بنا کر مٹی اورغبار کی ماننداُڑائے جارہے
ہیں!جن
ممالک میں بظاہر ’’امن وامان‘‘میسر ہے
وہاں نظامِ شریعت سے محرومی، معاش کے
تنگنائیوں میں گھٹے روزوشب ،کفری قوانین
میں جکڑی زندگیاں گزارنے پر مجبورہیں
اوراللہ کے دین کے باغیوں کے نرغے میں آکر
اوراُن کے جبرِ وتعدی کے نتیجے میں پِس
کررہ گئے ہیں!
ان
تمام مظلومین کی آہ وبکااورپکار کوسننے
اوراُنہیں کفار کے جوروستم سے نجات دلانے
کے لیے نکلنے والے مجاہدین ‘دوسراطبقے
اورگروہ میں شمار کیے جاسکتے ہیں!یہ
مجاہدین بلاشبہ اس امت کو قہرِ وذلت
اورتحقیر وپستی کی گہرائیوں سے نکال کر
عروج وکمال کے دور میں لوٹانے اورعزت
وسرفرازی کی منزلوں سے روشناس کروانے کے
لیے اپنی جانیں گھُلا اورکھپا ہی نہیں
رہے بلکہ لٹا اورفدا بھی کررہے ہیں…آج
کے دورمیں اگربے بسی اوربے کسی میں سسکتی
‘امت کی مائیں اوربیٹیاں ہرسرزمین پر
نظر آتی ہیں تو ان کی بے کسی وبے بسی کے
ازالے کے لیے ان کے بھائی بیٹے بھی سربکف
وشمشیرزن ہر خطے میں دکھائی دے رہے
ہیں…توحید کے یہی فرزند ہیں جن کے ساتھ
اُن کے رب کی معیت ہے،اور رب کریم کی
مددونصرت کویہ میادینِ جہاد میں بسرِ چشم
ملاحظہ کررہے ہیں!عالمی
تحریکِ جہاد کے یہ سرفروش ’’اپنوں‘‘کی
خیانتوں اورغیروں کی عداوتوں کا بیک وقت
نشانہ بن رہے ہیں!کھرب
ہا کھرب ڈالروں کے بارودکی بارشوں سے ان
کے گھروں ،آنگنوں اورزمینوں کو’’سیراب‘‘کیا
گیا…لیکن اللہ کے دین پراپنا سب کچھ
نچھاور کرنے کا عہد نبھانے والوں کا یہ
قافلہ پندرہ سالوں میں کہاں سے کہاں
جاپہنچا!کیسے
کیسے سنگ ہائے میل اس سخت جان کارروان نے
طے کیے اور کیسے کیسے محاذوں کو ان مجاہدین
نے برپا اورآباد کیا… چند سال قبل تک جن
خطوں میں جہاد کا نام لینے والا ڈھونڈنے
سے نہیں ملتا تھا ،آج وہاں کے بچے بچے کی
زبان پر جہاد کے ترانے اورنعرے ہیں اورجن
ملکوں میں اللہ کے دین کے نفاذ کی کوششیں
کئی دہائیوں تک ’’آئینی،قانونی، جمہوری
اور دستوری‘‘ڈھکوسلوں میں مقید کردی
گئیں تھیں وہاں بھی نفاذِ شریعت کے لیے
جہادوقتال کے میدان سجانے کا غلغلہ
ہے!ہلمند
سے لے کرحلب تک یہ مبارک فتوحات ’صبح نو‘
کی نویدہی تو سنا رہی ہیں!
تیسرا
طبقہ امت کی گردنوں پر مسلط خائن حکمرانوں
اورطواغیتِ کفارکے دریوزہ گروں کا
ہے!(1)…سقوطِ
خلافت عثمانیہ کے بعدائمۃ الکفر نے خلافت
ِاسلامیہ کے مقبوضات اورمسلم سرزمینوں
کے نا صرف حصے بخرے کیے بلکہ اپنے وفاداروں
اورخائنین ِ امت کوفوج درفوج تیار کیا کہ
وہ ہر ایک خطے میں پوری’’دیانت‘‘سے
اپنے کافرآقاؤں کی نیابت کریں… یہ حکمران
کہیں فوجی وردیوں میں امت کے سرپرسوار
ہوئے،کہیں جمہوری لبادے میں انہیں
اقتدارواختیارسونپا گیااورکہیں ’شاہوں
کی شاہی ‘کی صورت میں مسلمانوں کو ان کا
زیرِ نگیں بنایا گیا …ان سب کے نام
اور’’عہدے‘‘مختلف سہی لیکن ’’فرائض
منصبی‘‘یکساں اورمساوی ہیں!اہل
ایمان کو دین کی تعلیمات سے (جہاں
ممکن ہو علمی طور پر بھی وگرنہ)
عملی
طورپر بہرصورت بے گانہ رکھنا،شریعت کی
برکات سے محروم کرکے کفریہ (غیرالٰہی)
دساتیر
وقوانین کواُن پرمسلط کرنا،معاش واقتصاد
کو اُن کے لیے تنگ کر کے ہمہ وقت روزگار
اورکفاف کے بکھیڑوں میں الجھا کراُن سے
دینی تعلیمات وہدایات پر عمل پیراہونے
اوردنیاوی واخروی فلاح کا ہرہرموقع سلب
کرنا،مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے کفار کے
دست نگربنائے رکھنا،اُن سے ایمان وایقان
کی دولت چھین کرکفرکی ہیبت،رعب ،
حشمت،ٹیکنالوجی ،تہذیب اور دھاک سے بٹھائے
رکھنا،اُن کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر
آقاؤں کی خدمت میں پیش کرنا اوراُن کی
دنیا وآخرت کو برباد کرنے کے لیے اُن کی
زندگیوں میں شیاطینِ عالم کے ایک ایک حکم
کی بزور تنفیذ کرناہی ان کامقصدہوتا
اوراسی سب کو ’’سرکاری رِٹ‘‘کے نام سے
موسوم کیا جاتاہے !
چوتھا
طبقہ علمائے کرام کا ہے…یہ علمائے حق
‘وراثت نبوت کے منصب ِ عالیہ پرفائز ہیں
،اسی بنا پراس امت مرحومہ کی اصلی قیادت
ہیں…بلاشک وریب ‘صالحین اورصادقین کایہی
گروہ ہے کہ جس کی رہ نمائی اور امامت کی
امت اس وقت متلاشی اورطلب گار ہے!یہ
امت مسلمہ کے زریں ماضی کی تاب ناک روایتوں
کے امین بھی ہیں اورصبحِ روشن کی مانندچمکتے
مستقبل کی ضمانت اورنوید بھی ہیں…ان کے
سینوں میں موجود علومِ نبوت اوردلوں میں
پائی جانے والے فراست ایمانی کی بدولت
‘امت مسلمہ کے ہرفرد کے لیے ان کی
اقتدااورمتابعت ہی شریعت کی نظر میں ضروری
ٹھہری ہے…اسی لیے اے علمائے اسلام!اے
حق کے پاسبان علمائے کرام!اس
پُرفتن دوراوردل شکن حالات میں یہ مجاہدین
آپ کی جانب دیکھ رہے ہیں!کٹھن
اورنامساعد حالات کی وجہ سے آپ کی علمی
مجالس کی برکتوں سے محرومی پر یہ مجاہدین
دل گرفتگی کا شکار رہتے ہیں…آپ کے عظمتِ
کردار اور علمی فضائل سے بلاشبہ ہمارے دل
مسخر ہیں …آپ کی جوتیاں سیدھاکرنا ہمارے
لیے سعادت اورآپ کے قدموں میں بیٹھنا
ہمارے لیے خیروبرکت کا ذریعہ ہے…
اے
معززعلمائے دینِ متین!
آپ
کا یہی مقام اور رتبہ ہے جس بنا پر مجاہدین
آپ کو اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں اورآپ
کی عظمتیں ہمارے دلوں میں گھر کیے ہوئے
ہیں…اسی لیے ہمیں سب سے زیادہ امید اور
توقع آپ سے ہے کہ آپ اپنے سینوں میں شریعت
مطہرہ کی تعلیمات کا جو خزانہ رکھتے ہیں
اُس بنا پر یہ آپ ہی کا حق اور منصب ہے کہ
احکامات ِدین کے اجرااور تنفیذ کے لیے
بھی آپ کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہو…آپ
کی فقاہت وثقاہت اورذہانت ومتانت کی امت
کو جس طرح علمی طورپرضرورت ہے اسی طرح آپ
کی دانائی و ذکاوت ،علمی وجاہت وجلالت
اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ مبارک
علم نبوت ‘اپنی ضوفشانیوں اورتابناکیوں
کے ساتھ‘امت کو عملی میدانوں میں بھی
درکار ہے …امت کے حالات کو گہرائی سے
دیکھنا، ہر طرح کے خوف مکمل آزاد ہوکر ان
حالات کے ذمہ داران اورامت کی زبوں حالی
اورسسکتے بلکتے اہل ایمان کے مجرموں
کوپہچان کر اِن سے برأت ،بے زاری اورنجات
کی عوامی تحریک کو اٹھانا آپ ہی کے شایانِ
شان بھی ہے اور آپ کی اولین ذمہ داری
بھی!شریعت
کے دشمنوں اور شیاطین کے دوستوں نے امت
محمدیہ علی صاحبھاالسلام کو چاروں طرف
سے گھیر رکھا ہے!ان
کے طرزِ معاشرت کو باطل نظریات وافکار نے
پراگندہ اوردین بے زارکردیا ہے!ان
کے قلوب واذہان کو الحادوبے دینی کے زہریلی
تحریکوں نے مسموم کرڈالا ہے!ان
کی زندگیوں کوشریعت سے محروم کرکے مستقل
روگ اورکرب وآزارسے بھردیا ہے…اس کرب
ناک صورت حال میں ‘نظریں آپ کی طرف اٹھتی
ہیں!آپ
کے مجاہد بیٹوں نے تمام تر مشکلات ،بے
پناہ آزمائشوں اور کٹھن ترین حالات میں
بھی میادینِ معرکہ کو سجایا ،خوب سجایا
اوراللہ کی نصرت کے سہارے کفاراوراُن کے
چیلوں کی ہر سازش اورمکر کے سامنے ڈٹ
کرآہنی چٹان کی مانند کھڑے ہوگئے!
اپنے
ان مجاہد بیٹوں کی رہ نمائی کیجیے کہ یہ
اپنے رب کی مدد سے امت کے لیے فتح کے دروازے
کھول رہے ہیں اور ان دروازوں سے گزر کر
امت کی قیادت وسیادت پر آپ ہی کو متمکن
ہونا ہے!ذرا
دیکھئے کہ دنیا بھرمیں کیسی ’الٰہی
ترتیب‘چل رہی ہے!کہ
جہاں لفظ ’جہاد ‘بالکل ہی اجنبی تھا وہاں
پوری کی پوری نسلیں شریعت و جہاد کے متوالوں
میں شامل ہوچکی ہے،یہ سب مجاہدین کے بس
میں تو نہیں تھا…مجاہدین کے پاس اول تو
وسائل ہی کتنے ہیں،اورجتنے بھی وسائل
موجود ہیں ،اللہ کے یہ بندے اُن تمام کے
تمام وسائل کو لگا دینے کے بعدبھی دنیا
بھر میں پھیلے جہادی منظرنامے میں چندایک
رنگ بھی نہیں بھرسکتے تھے کجا کہ یہ
پورامنظرنامہ ہی تخلیق کرپاتے…یہ تو ربِ
کریم کا خالص کرم او رفضل ہے،یہ اُس کا
نظام ہے جو حرکت میں آچکا ہے،یہ اُس کا
احسان ہے جو وہ اپنے عاجز بندوں پر انڈیل
رہاہے،یہ مالک کی عطا ہے جس سے وہ اِن خاک
نشینوں کو نواز رہا ہے اورمسلسل نواز رہا
ہے…آپ سے التماس ہے،گزارش ہے اور آپ کی
تمام تر قدرومنزلت کو پیش نظر رکھتے ہوئے
انتہائی درمندانہ اپیل ہے کہ اللہ کے باغی
‘اس گرتے اورزوال پذیر باطل وشیطانی نظام
کو ایک لمحے کے لیے بھی سہارادینے کا موجب
نہ بنئے!اپنے
مجاہد بیٹوں کی حوصلہ افزائی کیجیے!ان
کی قیادت کو آگے بڑھیے !اللہ
تعالیٰ نے فتح اِس امت کے مقدر میں لکھ دی
ہے!پس
مجاہدین ِاسلام کی صفوں کی امامت کرتے
ہوئے فتح ِ مبین کی منزل تک اِس امت کو لے
چلئے!آخر
میں مجاہدین برصغیر کے فکری اور عسکری رہ
نما اورقائد استاد احمد فاروق شہید رحمہ
اللہ کے حضرات علمائے کرام کی عظمت کوبیان
کرتے دردِ دل میں ڈوبے الفاظ پیش خدمت
ہیں:
’’قسم
رب ذوالجلال کی کہ ہم آپ سے اللہ کی خاطر
محبت کرتے ہیں۔اگر فرضِ عین جہاد کی
مصروفیت نہ ہوتی تو آپ کے سامنے زانوئے
تلمذتہہ کرنے اور آپ کی مجالس سے علم کے
موتی سمیٹنے سے بڑھ کر ہمیں کوئی شے عزیز
نہ ہوتی۔آ پ ہمارے دلوں کا قرار ہیں،ہمارے
سروں کا تاج ہیں،ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک
ہیں۔آپ کی کسی ایک شب کی دعالینا ہمارے
نزدیک دنیاومافیہا سے بہتر ہے،آپ کا ایک
تائیدی قول،ایک حوصلہ افزائی کا جملہ
ہمارے سینوں کو ثبات و سکینت سے بھردیتا
ہے۔ان شاءاللہ آپ ہم سے بڑھ کر کسی کو اپنا
محب ووفادار نہیں پائیں گے…ہمارے سروں
پر اپنا دستِ شفقت رکھیے!ہماری
غلطیوں کی اصلاح فرمائیے!ہم
کمزورپڑیں تو حوصلہ دیجیے!اللہ
جل جلالہ کی تائید کے بعد ہمیں سب سے بڑھ
کر آپ ہی کا سہارا ہے!رب
آپ سے راضی ہوجائے،ہر شریر ومفسد کی چالوں
سے آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کا سایہ
ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے،آمین‘‘۔
اداریہ،
ماہنامہ نوائے افغان جہاد۔ اگست ، ستمبر
۲۰۱۶ء
---------------------------------------------------
(1)ویسے تو یہ کسی بھی طورامت میں شمار نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے ایمان واسلام کا قلادہ مرضی و منشا اورخوشی سے اپنی گردنوں سے اتار پھینکا ہے اوربرضاورغبت کفرکے ’’صف اول کے اتحادی‘‘ہونے کے تمغے سینوں پر سجائے ہوئے ہیں…لیکن چونکہ امت کی زبوں حالی کے یہ اول وآخر ذمہ دار ہیں اس لیے ان کے کرتوت ذکرکرنے اوران کی اصلیت سے پردہ اٹھانے کے لیے انہیں ’’طبقہ‘‘میں شمار کیا گیا ہے!
(1)ویسے تو یہ کسی بھی طورامت میں شمار نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے ایمان واسلام کا قلادہ مرضی و منشا اورخوشی سے اپنی گردنوں سے اتار پھینکا ہے اوربرضاورغبت کفرکے ’’صف اول کے اتحادی‘‘ہونے کے تمغے سینوں پر سجائے ہوئے ہیں…لیکن چونکہ امت کی زبوں حالی کے یہ اول وآخر ذمہ دار ہیں اس لیے ان کے کرتوت ذکرکرنے اوران کی اصلیت سے پردہ اٹھانے کے لیے انہیں ’’طبقہ‘‘میں شمار کیا گیا ہے!
………………………………
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “جو جنوں کے ہمرکاب ہوئے ترے نقشِ پا کو وہ پا گئے!”
ایک تبصرہ شائع کریں