اتوار، 26 نومبر، 2017
اپنے امراء کی گستاخی سے بچیے!
ایک
عرصے سے خواہش تھی کہ مجاہدینِ عالی قدر
کی خدمت میں ، امرائے جہاد کی عزت و منزلت
کے حوالے سے دِل کی چند باتیں پیش کروں۔
اللہ پاک مجھے اور سب مجاہدین کو عمل کی
توفیق عطا فرمائیں، آمین۔ اللہ تعالیٰ
ہمیں، ہمارے نفس کے حوالے نہ فرمائیں،
آمین یا ربّ العالمین۔ اللہ پاک ہمیں
ہمارے اقوال و اعمال میں اخلاص عطا فرمائیں،
آمین۔
مجاہدین
فی سبیل اللہ ، اللہ کے اولیاء ہیں۔ اسی
طرح کی بات شہید مولانا قاری عمران (مولانا
عبیداللہ منصور)
رحمہ
اللہ، رکنِ شوریٰ القاعدہ برِّ صغیر بھی
فرمایا کرتے تھے۔ قاری عمران صاحب کہا
کرتے تھے کہ اصل اولیاء اللہ تو یہ مجاہدین
ہیں جو بے سرو سامانی کے عالم میں، ان
مشکلات اور تنگیوں میں جہاد فی سبیل اللہ
جیسی عبادت پر قائم رہتے ہیں۔
یہ
مجاہدین فی سبیل اللہ، اللہ کے اولیاء
ہیں اور امرائے جہاد فی سبیل اللہ اسی طرح
درجے کے اعتبار سے بڑے ولی ہیں۔
سنہ
۲۰۱۴ء کے اختتام کی بات ہے۔ بندۂ فقیر ان
دنوں جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقے انگور
اڈہ میں تھا۔ ایسے میں بعض بھائیوں کا
معلوم ہوا جو امرائے کرام کو بہت تنگ کرتے
تھے۔ خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی مبارک حدیث ہے کہ ’’إنّ
اللہ تعالیٰ قال:
من
عادی لي
ولیا فقد آذنتہ بالحرب‘‘۔
یعنی ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو
شخص میرے ولی کو ایذاء پہنچاتا ہے تو میں
اس کے ساتھ اپنی لڑائی کا اعلان کرتا
ہوں‘‘۔1
خیال
آیا کہ امرائے کرام جو بالیقین ان شاء
اللہ، اللہ کے اولیاء ہیں کو ایذاء پہنچانے
سے اللہ پاک ناراض نہ ہوتے ہوں۔ بعد ازاں
اپنے استاذ اور ایک ہی وقت میں دوست مولوی
عبد الحق صاحب سے اس حدیث کے بارے میں
دریافت کیا۔ وہ کہنے لگے کہ ہم لڑائی کا
اکثر معنیٰ لیتے ہیں مار دینا۔ جبکہ لڑائی
کی صورت میں، لڑائی کرنے والا آپ کو مارتا
نہیں ہے بلکہ آپ کی قیمتی ترین چیز چھین
لیتا ہے۔ اگر کسی کو کسی سے دشمنی ہو جائے
تو وہ اس کا مال چھینتا ہے ، اگر اس کو اس
کی اولاد محبوب ہو تو اس کی اولاد چھین
لیتا ہے۔ اللہ کے یہاں قیمتی چیز ’ایمان‘
ہے۔ اللہ پاک جب کسی سے دشمنی کرتے ہیں تو
اس سے اس کا مال یا جان نہیں بلکہ ایمان
لے لیتے ہیں۔ اللہ ہمیں اپنی پناہ میں
رکھیں، آمین۔
اللہ
پاک ہمیں معاف فرمائیں، بعد ازاں ایسا ہی
دیکھا گیا۔ جو لوگ ، جہاد کی صفوں میں ہوتے
ہوئے امرائے کرام کی گستاخیاں کیا کرتے
تھے، ان کی چغلیوں، ان کی غیبتوں سے اپنی
محفلوں میں ’رونق‘ بڑھاتے تھے، جہاد کی
عبادت چھوڑ گئے جو کہ ذکر اللہ کی چوٹی
ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایمان کے بعد
افضل ترین عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ نجانے
یہ لوگ جہاد چھوڑ گئے یا اللہ پاک نے انہیں
ایسی عبادت سے محروم کر دیا جس میں سونا،
کھانا، پینا، روز مرہ کے کام تک اجر کا
باعث ہیں، بلکہ قیامت کے روز مجاہد فی
سبیل اللہ کے اعمال کے ساتھ اس کے گھوڑے
کی لید بھی تولی جائے گی2۔
اللہ پاک ہمیں کسی بھی کارِ خیر سے محروم
نہ فرمائے، آمین۔
راقم
السطور خود بہت کمزور آدمی ہے، بے پناہ
خطا کار۔ عبدِ فقیر خود جہاد کے راستے میں
اس مرض کا شکار ہونے کو تھا کہ شہید عالمِ
ربّانی حضرتِ استاذ احمد فاروق رحمہ اللہ
اور مرشد قاری اسامہ ابراہیم غوری رحمہ
اللہ کی ڈانٹ اور محبت نے بندے کو باذن
اللہ سیدھی راہ پر لگا دیا، اللہ پاک
استدراج سے محفوظ فرمائیں، آمین۔ اللہ
پاک سے دعا ہے کہ وہ بندے کے ساتھ ایسا
معاملہ فرمائیں جیسا وہ توبہ کرنے والے
گنہگاروں کے ساتھ معاملہ فرماتے ہیں۔ بلا
شبہ حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق کہ گناہوں
سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ
کیا ہی نہیں۔ اپنے عیوب کو بیان کرنا ایک
غلط عمل ہے، یہاں یہ عیب بیان کرنے سے
مطلوب یہ ہے کہ کوئی اور بھائی اس دلدل
میں نہ پھنسے جس میں بندہ پھنسنے کو تھا۔
وزیرستان
میں قیام کے دوران بندۂ فقیر کو بھی امرائے
کرام کے بارے میں باتیں کرنے کی ہوا لگی۔
یہ وہ ایام تھے جب داعشی فتنہ اپنے عروج
پر تھا۔ ایسے میں شہید بھائی، عبد الودود
زاہد رحمہ اللہ نے مجھے اپنے پاس بلایا۔
یہ میران شاہ بازار میں مجاہدین کے ایک
مرکز کا کمرہ تھا۔ کہنے لگے کہ
’’پیارے
بھائی!
آپ
کو جہاد میں آئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟‘‘
جتنا
عرصہ ہوا تھا، میں نے بتایا کہ اتنا ہوا
ہے۔
کہنے
لگے ’’ٹھیک اتنے ہی عرصے بعد میں بھی اس
مرض کا شکار ہو گیا تھا‘‘۔
پھر
عبدالودود بھائی رحمہ اللہ نے اپنا ایک
خواب مجھے سنایا۔ عبدالودود بھائی نے مجھ
سے وعدہ لیا کہ میں یہ خواب کسی کو نہیں
سناؤں گا۔ مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی
کہ انہوں نے یہ خواب میرے علاوہ کسی کو
نہیں سنایا۔ اب ان کی قندھار کے علاقے
شراوک میں شہادت کے بعد، اسی موضوع سے
مناسبت کے باعث یہ خواب نذرِ مجاہدینِ
عالی قدر ہے۔
مفہومِ
خواب ہے کہ:
’’عبدالودود
بھائی کہتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک
گاڑی ہے۔ وہ اس میں پچھلی سیٹ پر بیٹھتے
ہیں تو خلیفۂ ثالث حضرت عثمانِ غنی رضی
اللہ عنہ کو پچھلی سیٹ پر بیٹھا پاتے ہیں۔
اب وہ اسی گاڑی میں آگے سفر کرتے ہیں یا
منظر بدل جاتا ہے مجھے صحیح سے یاد نہیں۔
بہر کیف وہ ایک عمارت میں پہنچ جاتے ہیں۔
اس
عمارت میں ایک گلی سی ہے جسے انگریزی میں
corridor
اور
اردو میں غالباً رہ گزر کہتے ہیں۔
اس
گلی میں بہت سے کمروں کے دروازے ہیں یا
داخل ہونے کی جگہ ہے، چوکھٹ نما۔ ایک کمرے
کے آگے پردہ لٹک رہا ہوتا ہے۔ اس کمرے میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما
ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک
باندی بیٹھی ہے۔ یہ باندی رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرتی ہے کہ عبد
الودود مجھے تنگ کر رہا ہے۔ یہ سن کر رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ
اگر اب عبد الودود تمہاری طرف آیا تو میں
اس کو روکوں گا یا کہا کہ اگر اب عبد الودود
تمہاری طرف آیا تو میں اس کو روک لوں گا۔
‘‘
خواب
ختم ہوا۔ عارف باللہ شہید مجاہد فی سبیل
اللہ عبد الودود بھائی رحمہ اللہ نے فرمایا
کہ میں نے اس خواب کی تعبیر یہ کی ہے کہ
باندی سے مراد ہیں امرائے جہاد فی سبیل
اللہ۔ اور ان کو تنگ کرنے سے مراد ہے ان
پر بے جا اور بے ادبی کے انداز سے تنقید
کرنا، ان کی غیبتیں کرنا، ان کو مطعون
کرنا۔ فالعیاذ باللہ۔
یہ
خواب سننا اور بعد میں حضرتِ استاذ فاروق
رحمہ اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنی خطاؤں
کا اعتراف کرنا، ان سے ڈانٹ کھانا، جس کے
بارے میں بندہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ حضرت
نے کبھی کسی کو اتنا شدید نہ ڈانٹا ہو گا،
پھر ان کا پیار کرنا، مجھے معاف کر دینا
اور پھر مجھے اپنی ٹانگوں سے لپٹنے دینا۔
اس کے بعد مرشد قاری اسامہ ابراہیم غوری
رحمہ اللہ کے زیرِ سایہ رہنے نے یہ امراض
دور کر دیے، فلِلّٰہ الحمد۔
پس
اپنے قلیل تجربے اورمشاہدے کی بنیاد پر
بندہ، مجاہدینِ عالی قدر سے دست بستہ
گزارش کرتا ہے کہ وہ اس مرض سے دور رہیں۔
اس محاذ پر کڑا پہرہ دیں۔ کہیں شیطان دل
میں اس سرحد سے داخل ہو کر ایسے گناہوں
میں مبتلا نہ کر دے کہ جہاد فی سبیل اللہ
کی عبادت سی سعادت سے ہم محروم ہو جائیں۔
احقر
نے کئی لوگ ایسے دیکھے جو امرائے کرام کی
غیبتیں، ان پر بے جا تنقید، ان پر تبرا
اور سب و شتم کیا کرتے تھے۔ طعنہ زنی ان
کا معمول تھا۔ ایک امیر کے مقابل دوسرے
امیر کی تعریفیں کرنا۔ ان کو بد عقیدہ
ہونے کے طعنے دینا وغیرہ جیسے قبیح اعمال
کا شکار تھے۔ محفلوں میں بزرگ و عالی قدر
امرائے کرام پر زنا تک کی تہمتیں لگاتے
تھے، فالعیاذ باللہ۔ آج وہ سب لوگ کہاں
ہیں؟ کوئی کاروبار کر رہا ہے اور جہاد فی
سبیل اللہ کو ترک کر بیٹھا ہے اور لوگوں
کو جہاد سے روکتا ہے، تو کوئی داعش سے
خارجی ٹولے کا حصہ ہے3۔
آج بھی داعشی ٹولے کی سب سے بڑی خصلتوں
میں سے ایک امرائے جہاد فی سبیل اللہ کی
تکفیر و تفسیق ہے۔ عام طور پر داعشیوں کے
ٹھکانوں میں امرائے کرام کی غیبتیں عین
عبادت سمجھ کر کی جانا معمول ہے۔ عالی قدر
امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کی شان
میں گستاخیوں سے لے کر امیر المؤمنین ملا
اختر محمد منصور کو طاغوت کہنے تک اور
عالی قدر امیر المؤمنین شیخ ہبۃ اللہ اخند
زادہ اور امیر الجہاد حکیم الامۃ شیخ ایمن
الظواہوی کی تکفیر اور ان کو مطعون کرنا
ان کا شعار ہے۔ اس بد عقیدہ خارجی فکر کا
امتِ مسلمہ اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے
عقائد کو باطل قرار دینا ان کی صبح و شام
کی تسبیح ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ داعشیوں
کے عام ٹھکانوں سے داعشی ٹولے کے سرغنوں
اور ترجمانوں تک کا یہی وطیرہ رہا ہے جس
نے ان سے جہاد فی سبیل اللہ کی دولت لٹوا
کر انہیں مسلمانوں اور مجاہدین کا قاتل
ہونے کی ضلالت پر لا کھڑا کیا ہے۔
جماعت
قاعدۃ الجہاد برِّ صغیر کے قیام کے موقعہ
پر ، مرکزی جماعت قاعدۃ الجہاد سے وابستہ
برِّ صغیر کے مجاہدین کے مجموعات کے امراء
نے اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں شیخ ایمن
الظواہری حفظہ اللہ کی ہدایت پر مولانا
عاصم عمر صاحب حفظہ اللہ کے حوالے کر دیں۔
جماعت کے قیام کے دنوں میں حضرتِ استاذ
احمد فاروق رحمہ اللہ مجاہدین کے ایک مرکز
میں تشریف لائے جہاں احقر بھی موجود تھا۔
حضرتِ استاذ نے زار و قطار روتے ہوئے نصیحت
کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں
اپنے مجموعے کی مسئولیت کی ذمہ داری سے
سبکدوش ہوتا ہوں۔ اپنے آپ کو اور اپنے
تمام مامورین کو مولانا عاصم عمر صاحب
حفظہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ جیسا کہ شیخ
ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے فرمایا کہ
میں اپنے اعمال میں سب سے بڑا عمل ’جماعت
الجہاد‘ کی امارت کو ترک کر کے شیخ اسامہ
بن لادن رحمہ اللہ کی جماعت ’قاعدۃ الجہاد‘
میں ، اپنے ساتھیوں سمیت ضم ہو جانے کو
سمجھتا ہوں۔ میں بھی (یعنی
استاذ احمد فاروق)
اپنے
اعمال میں اپنے مجموعے کی امارت ترک کر
کے اپنے آپ اور اپنے مامور ساتھیوں کو
مولانا عاصم عمر صاحب حفظہ اللہ کی سپردگی
میں دینا سب سے بڑا عمل سمجھتا ہوں۔
میں
آپ سب ساتھیوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ
مولانا عاصم عمر صاحب حفظہ اللہ کی اطاعت
کریں۔ مولانا عاصم عمر صاحب کی حفاظت
کریں۔ ان کی ظاہری حفاظت بھی اور اپنے
دلوں میں ان کی باطنی حفاظت بھی۔ اپنے
دلوں میں حفاظت اس طرح کہ ان کے بارے میں
بد گمانی نہ کریں، ان کی غیبت نہ کریں اور
ان کے بارے میں دل میں برا خیال نہ آنے
دیں۔‘‘
بلا
شبہ استاذ المجاہدین اور میرے مرشد کے
مطابق پاکستانی عبد اللہ عزّام یعنی استاذ
احمد فاروق رحمہ اللہ کی نصیحت میں ہم سب
مجاہدین کے لیے بڑا سبق ہے۔ احمد فاروق
کو استاذ احمد فاروق اللہ کے فضل سے امراء
کی اطاعت نے بنایا۔اسی طرح قاری عمران
صاحب رحمہ اللہ ایک عالمِ دین ہونے کے
ساتھ ساتھ ایک ماہر عسکری قائد اور عسکری
استاد تھے، انہوں نے بھی اپنے مجموعے کی
امارت چھوڑ کر خود کو اور اپنے مامورین
کو مولانا عاصم عمر صاحب کے حوالے کیا۔
شیخ حاجی ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ مجاہدین
کے دردِ دل رکھنے والے مربی تھے،
اداریات/management
بالخصوص
ادارتِ افراد/human
resource management کے
ماہر تھے، حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ خود
ایک معروف عالم اور صوفی بزرگ کے خلیفۂ
مجاز تھے لیکن انہوں نے بھی یہی عظیم عمل
کیا۔ شہید مدیرِ مجلہ ’نوائے افغان جہاد‘
قاری حافظ طیب نواز رحمہ اللہ کو بھی اللہ
پاک نے بے شمار صلاحیتوں اور فکری جہتوں
کا فہم عطا فرمایا تھا، لیکن ان کی صلاحیتوں
اور علوم و فنون کی مہارت نے انہیں امرائے
کرام کی اطاعت سے آگے پیچھے نہ ہونے دیا۔
استاذ احمد فاروق، قاری عمران، شیخ حاجی
ولی اللہ، قاری حافظ طیب نواز رحمہم اللہ
کی اصل خوبی سمع و طاعت تھی۔
امید
ہے کہ اپنی ٹوٹی پھوٹی باتوں اور بے ربط
یادوں کے ساتھ، احقر اپنا مدعا مجاہدینِ
عالی قدر کی خدمت میں پیش کرنے میں کامیاب
رہا ہے کہ ’اپنے امراء کی گستاخی سے بچیے‘،
کہیں یہ عمل جہاد فی سبیل میں پیچھے رہ
جانے اور معاذ اللہ جہاد اور پھر منہجِ
اہل السنۃ و الجماعۃ ہی سے منحرف ہو جانے
کا سبب نہ بن جائے۔
اللہ
پاک ہمیں امرائے کرام کی گستاخیوں سے
بچائے اور ہمیں ان امراء کا اپنی رضا کی
خاطر سامع و مطیع بنا لے، آمین یا ربّ
العالمین۔
و
آخر دعوانا أن الحمدللہ ربّ العالمین و
صلی اللہ علی النبی۔
___________________
1 صحیح
بخاری
2
دیکھیے
جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت میں علامہ
ابنِ نحاس شہید رحمہ اللہ کی کتاب:
مشاری
الاشواق
3
ہم
داعشیوں ہی کی طرز پر، ان کو مطعون نہیں
کرتے نہ ہی اپنے خود ساختہ ’’اصولوں‘‘
کی بنیاد پر ان کو خوارج کہتے ہیں۔ نہ ہی
ان کو خارجی کہنے کا طریقہ ہم نے پاکستان
و سعودی عرب کی دین دشمن ، فرنٹ لائن
امریکی اتحادی افواج اور ان کے علمائے سو
سے حاصل کیا ہے۔ اگر ہماری زبانوں سے اس
گروہ کو خارجی کہا گیا ہے تو اہل السنۃ و
الجماعۃ کے ٹھوس دلائل کی بنیاد پر۔ ملاحظہ
ہو شیخ عبداللہ المحیسنی حفظہ اللہ کا
خطبۂ جمعہ بعنوان:
’ہم
نے انہیں خوارج کیوں کہا؟‘۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “اپنے امراء کی گستاخی سے بچیے!”
ایک تبصرہ شائع کریں