اتوار، 26 نومبر، 2017
مجاہدِ عزیم
انسان
نہایت ضعیف ہے، نہایت ہی کمزور۔ اللہ نے
انسان کو ضعیف ہی پیدا فرمایا ہے اور پھر
اس کے ضعف کو تقویت بخشنے کا بہت سا سامان
بھی فراہم کیا ہے۔ انسان کی انہی کمزوریوں
میں سے ایک محبوب لوگوں کی جدائی بھی ہے۔
میں اسی ضعف کے باعث دِلِ مضمحل کو
سنبھالنےکی کوشش میں مگن تھا، مگر کوئی
فائدہ نہ ہو رہا تھا۔ ایسے میں ربِّ کریم
نے ایک جانب توجہ کروائی۔ ذہن میں یہ آیتِ
قرآنی گونجنے لگی:
انّا
للہ و انّا الیہ راجعون۔یہ آیت مقوی ہے ،
انسانی ضعف کو اس سے بہت تقویت ملتی ہے۔
ذرا غور تو کیجیے، اپنائیت محسوس کیجیے،
دل میں اس آیت کا معنیٰ و مفہوم آخری تہہ
تک اتارنے کی کوشش کیجیے۔ یہ انداز دیکھیے:
انّا
للہ۔۔۔ بلا شبہ ہم اللہ ہی کے ہیں۔ سبحان
اللہ۔۔۔ جب ’’ہم اللہ ہی کے ہیں ‘‘ کا
احساس جا گزیں ہو گیا تو اب اگلا ٹکڑا
دیکھیے۔ و انّا الیہ راجعون:
اور
بلاشبہ ہم نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا
ہے۔
ہم
جیسے اجنبیوں کی زندگی میں اکثر ہی ایسے
موڑ آتے رہتے ہیں، جہاں قرآنِ مجید کی
آیات یوں محسوس ہوتی ہیں گویا ابھی ابھی
سنی ہوں، پہلی بار کانوں سے ٹکرائی ہوں،
پہلی بار پڑھی ہوں۔ اس بات کا احساس ہوتا
ہے کہ یہ آیات خاص اسی موقع کے لیے ربِّ
کریم نے میرے ہی لیے نازل فرمائی ہیں۔ اور
یہ احساس کیوں نہ ہوں جب وہ ربِ وَدُود
خود فرماتا ہے کہ فیہ ذکرکم، اس کتاب میں
تمہارا ذکر ہے، اے میرے بندے تیرا ذکر!
یعنی
میرا ذکر اور آپ کا ذکر۔
آج
چھ دسمبر ۲۰۱۵ء ہے۔ کل خبر ملی کہ آج ہمارے
ڈاکٹر صاحب کا صبح نو بجے جنازہ تھا۔ کئی
خیالات ذہن میں ابھرے اور محو ہو گئے۔ہمارے
ڈاکٹر صاحب کو کچھ دہشت گردوں نے آج سے
تقریباً سوا دو سال قبل اغوا کر لیا تھا۔
عرفِ عام میں ان اغوا شدگان کو لا پتہ
افراد کہتے ہیں۔ اغوا کرنے والے دہشت گرد
ہمارے ڈاکٹر صاحب سے تاوان کا مطالبہ کر
رہے تھے اور یہ تاوان مال کی صورت نہ
تھا۔اغوا کاروں کا مطالبہ تھا کہ ڈاکٹر
صاحب انہیں تاوان میں اپنا ایمان دے دیں
اور پھر زندگی کی تصویر میں دوبارہ رنگ
بھر لیں۔ لیکن اغوا کار کہاں جانتے تھے
کہ زندگی کا اصل رنگ تو صبغۃ اللہ ہے اور
ڈاکٹر صاحب نے اپنی اور اپنے متعلقین کی
زندگی کو اسی رنگ سے رنگ رکھا ہے۔ وہ اتنے
برس لگاتار یہی مطالبہ کرتے رہے مگر وہاں
جواب بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ کی مانند
نعرۂ اَحد اَحد ہی تھا۔
ڈاکٹر
صاحب کا نام مجاہد عظیم طارق تھا۔ عمر
ٹھیک پچاس سال۔ قد درمیانہ۔ چہرہ داڑھیٔ
مسنونہ سے مزین۔ قدم جما کر چلنے والی
شخصیت۔ آپ کا تعلق جٹ برادری کی گوندل
قوم سے تھا۔ جوانی میں آرمی میڈیکل کالج
سے ڈاکٹر ہوئے اور بعد ازاں پاکستانی فو
ج میں بطورِ کمیشن یافتہ افسر شامل ہوئے۔
وہ اپنے نام کی مانند مجاہد تھے اور فوج
میں بھی مجاہد بننے کے واسطے ہی گئے تھے۔
اپنی فوج کے اپنے ہی لوگوں کے خلاف اقدامات
آپ سے برداشت نہ ہوئے۔آپ ایسی فوج کا حصہ
نہیں رہ سکتے تھے جس کے ہاتھ مجاہدین و
مؤمنین کے خون سے رنگے ہوں۔ آپ تو خود
مجاہد تھے کیسے اس مجاہدین کے قاتل لشکر
میں شامل رہتے؟ بالآخر آپ نے فوج چھوڑ
دی۔ راہ ڈھونڈی اور راہ مل گئی۔ وہ قافلۂ
راہِ وفا کا حصہ بن گئے۔ مجاہد تھے مجاہدین
سے جا ملے۔
راقم
السطور کا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کافی عرصہ
گزرا۔ اس صاحبِ دل کی کئی محفلوں میں شریک
رہا۔ کئی نمازیں ان کے پیچھے پڑھیں۔ کئی
محاذوں پر ملاقاتیں رہیں۔ کئی سفروں میں
شریکِ سفر رہا۔ کئی کھانوں میں شریکِ طعام
رہا اور کئی باتوں میں شریکِ کلام۔ڈاکٹر
صاحب کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلا اور ان سے
محبت بھری ڈانٹ بھی کھائی۔
جب
میں ان سے پہلی بار ملا تو وہ سر پر پکول1پہنے
ہوئے تھے، چہرے پر مسکراہٹ تھی اور کاندھے
پر کلاشن کوف لٹکائے ہوئے تھے۔ بعد از
علیک سلیک سلسلۂ کلام جب شروع ہوا تو
حضرتِ ڈاکٹر صاحب نہایت محبت سے مخاطب
بھی رہے اور میری باتیں سن سن کر مسکراتے
بھی۔ اس کے بعد کئی ملاقاتیں ہوئیں مگر
کہیں بھی ایک آدھ دن یا ایک رات گزارنے سے
زیادہ کا موقعہ نہیں ملا۔ پھرتقریباً تین
ماہ بعد احقر کو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مجاہدین
کے ایک مرکز میں چند دن گزارنے کی سعادت
حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کی پدرانہ شفقت
ابل ابل کر ان کےانداز و اخلاق سے ظاہر
ہوتی۔
ایک
روز ڈاکٹر صاحب مرکز میں موجود ساتھیوں
سے ایک بات پر ناراض ہو گئے۔ میں تو اس
مجلسِ ناراضگی میں موجود نہ تھا اس لیے
ماجرے سے آگاہ بھی نہیں تھا۔ اس روز میرے
علاوہ سب ساتھی روزے سے تھے ۔ سب نے شام
کو روزہ افطار کیا اور کھانے میں مصروف
ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے پانی سے روزہ کھولا
اور اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ ساتھ
ہی ڈاکٹر صاحب کی ساتھیوں سے ناراضگی کا
پتہ چلا جس کے موجب دیگر ساتھی ہی تھے۔
میں سب سے چھوٹا بھی تھا اور اس معاملے
میں شرکت بھی نہ کی تھی، اس لیے اٹھا اور
ایک اور بھائی عمّار کے ہمراہ ساتھ والے
کمرے میں گیا۔ ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہوئے
تھے۔میں جا کر بولا حضرت آپ نے کھانا ہی
نہیں کھایا۔ وہ مسکرا دیے۔ عمّار بھائی
نے بھی کہا کہ حضرت آ جائیے، کیسی ناراضگی،
ہوتا رہتا ہے، جانے دیجیے، ساتھیوں کو
معاف کردیں۔ میں بولا، حضرت کھانا تو کھا
لیں کم از کم۔۔۔ ہم نے کچھ اور بھی منت
سماجت کی اور صاف دل کے مالک، ڈاکٹر صاحب
راضی ہو گئے۔
ایک
آدھ دن کے بعد مرکز سے باقی ساتھی چلے گئے
اور ڈاکٹر صاحب، عمار بھائی اور میں وہاں
رہ گئے۔ ڈاکٹر صاحب چاول بہت شوق سے نہ
کھاتے تھے۔ ہم نئے نئے تھے، ہمیں چاول
پکانا آسان لگتا تھا اور روٹی پکانا نہایت
دشوار۔ اب ہم چاول پکائے ڈاکٹر صاحب کے
پاس آ گئے۔ کھانا شروع ہوا تو محسوس کیا
کہ ڈاکٹر صاحب کو کھاتے ہوئے مشکل ہو رہی
ہے، ظاہر ہے چاول بھی ہم نئے کھلاڑیوں نے
بد مزہ ہی پکائے ہوں گے۔ میں اور عمار
بھائی اٹھے اور جاکر روٹی پکانے کی تیاری
کرنے لگے۔ اب ہم تو صحیح سے آٹا گوندھنے
سے بھی واقف نہ تھے۔ پہلے وہ لئی بن گئی۔
پھر مزید خشک آٹا شامل کیا ، کرتے گئے
گوندھتے گئے تو ذرا گوندھا ہوا آٹا معلوم
ہوا۔ اب دیکھیے مرکز میں بیلن ہی نہ تھا۔
اب پیڑے تو بنا لیے مگر بیلیں کس طرح۔ پہلے
ہاتھ سے ہی بڑھانے کی کوشش کی مگر ناکام
رہے۔ آس پاس دیکھا توراکٹ لانچر کے گولے
آر پی جی (RPG-7)
کی
پروازی پڑی تھی جو لمبی اور گول ہوتی ہے
گویا پائپ ہو۔ اس کو دھو بھی نہ سکتے تھے
اس میں بارود تھا۔ اوپر سے صاف کیا اور
اسی سے روٹیاں بیلیں۔ اب ہر توے پر ڈالنے
والی اور توے سے اترنے والی روٹی ایک شہکار
فن پارہ ہوتی۔ نجانے کن کن نئے ممالک کے
نقشے ، آدھے کچے اور آدھے پکے تخلیق کر کے
ہم ڈاکٹر صاحب کے پاس لوٹے۔ ڈاکٹر صاحب
یہ روٹیاں دیکھ کر ہنسنے لگے۔ کوئی بھی
تبصرہ کیے بغیر حضرت نے خاموشی سے ہمارا
یہ کمال برداشت کیا اور پھر تقریباً ایک
ہفتے تک یہی نقشے کھاتے رہے، اللہ انہیں
صبر اور ہم پر شفقت کرنے پر بہترین جزا سے
نوازے، آمین۔
پھر
ڈاکٹر صاحب بھی چلے گئے اور عمار بھائی
بھی۔ میں ایک اور جانب چلا گیا۔ ایک روز
کئی دن کے بعد ہم ڈاکٹر صاحب والے مرکز
میں گئے، رات گئے۔ وہاں پہنچے تو وائٹ
بورڈ (white
board) پر
رات کو پہرہ دینے والوں کے نام درج تھے۔
انہی ناموں میں ایک نام ڈاکٹر صاحب کا بھی
تھا۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جس کی آنکھیں
اللہ کی راہ میں پہرہ دیتے ہوئے تھکیں گی
ان کو جہنم کی آگ نہ چھوئے گی۔
تیرے
دیدار کی آس دِل میں لیے
اپنی
آنکھوں کو پہروں تھکاتے رہے
یہ
ملاقاتیں تو بس ڈاکٹر صاحب سے معرفت کا
آغاز تھیں۔ پھر ہم ان کے ساتھ ایک لمبا
عرصہ رہے۔ اتنا لمبا عرصہ خونی رشتے داروں
کے ساتھ بھی جب بیتایا جاتا ہے تو یہ تعلق
کئی نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔ ہمارا معاملہ
بھی ایسا ہی تھا۔ جب کبھی ذاتی رنجش ہوئی
بھی تو ذات کے حصار میں قید نہ ہوئے، بلکہ
اس گھیرے کو توڑا اور سینوں سے سینوں جڑ
گئے۔
ڈاکٹر
صاحب رحمہ اللہ کی صفت ان کی حق گوئی تھی۔
خواہ سامنے کوئی بھی ہو، ان کی زبان پر حق
ہی جاری رہتا۔ مگر جب جب ان کو پتا چلتا
کہ میرا فلاں مؤقف، میری فلاں بات، فلاں
رویہ، فلاں ادا، مبنی بر حق نہ تھی تو اپنے
بچوں کی عمر کے لوگوں سے معافی مانگ لیتے۔
اور معافی کبھی گھٹنے پکڑ کر اور کبھی
اشکبار ہو کر۔ حق گوئی و بے باکی تو وصف
ہیں ہی، لیکن یہ تواضع ان اوصاف کو واقعی
حمیدہ بناتی ہے۔
حضرت
ڈاکٹر صاحب نہایت بہادر تھے۔ اپنے قلیل
جہادی سفر میں، مَیں نے اس نوعیت کا بہادر
شخص کوئی نہ دیکھا۔ بہادری کے قصے تو کئی
ہیں، لیکن سنائے نہیں جا سکتے۔ یہ قصے بھی
جنت کی کسی شام میں سنے سنائے جائیں گے۔
ہمارے
شہید طبیب، ڈاکٹر سر بلند زبیر خان (ابو
خالد)
رحمہ
اللہ فرماتے تھے کہ تاریخ میں مشہور اور
بڑے لوگوں میں دو صفات ہمیشہ رہی ہیں۔ ایک
بہادری اور دوسری سخاوت۔
اگر
ڈاکٹر صاحب کی سخاوت کا ذکر نہ کیا جائے
تو ہر گز بھی انصاف نہ ہو گا۔ سخاوت کا محل
بھی اگر اللہ کے دین کی نصرت، انفاق فی
سبیل الجہاد، ضعیف مجاہدین اور مہاجرین
کی مدد و اعانت ہو تو نور علی نور۔ اللہ
تبارک و تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے:
﴿وَتُجَاهِدُونَ
فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ
وَأَنفُسِكُمْ﴾
’’اور
اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں سے اللہ
کے راستے میں جہاد کرو۔ ‘‘ (سورۃ
الصّف:۱۱)
ڈاکٹر
صاحب، ہمارے گمان کے مطابق ایسے ہی تھے۔
انہوں نے اپنا گھر بار، اسی راہ میں لٹایا۔
اپنی جان اس راہِ محبت میں گنوائی کہ محبوب
کے لیے جان کی بازی لگانا ہی سب سے بڑی
سعادت سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنا خاندان
لٹایا۔ سب کچھ دے دیا اور جب مالک نے کہا
کہ میرے محبوب!
مال
و دولت بھی لٹا دے تو عاشق یہاں بھی نہ
رکا۔ ایسے ہی عشاق کے بارے میں، ایسے ہی
اپنے سے محبت کرنے والوں کا معاملہ اللہ
تبارک و تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا:
﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO﴾
’’جو
لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے
ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات
بالیں اُگائے (اور)
ہر
بال میں سو دانے ہوں۔ اور اللہ جس کے لیے
چاہتا ہے (ثواب
میں)
کئی
گنا اضافہ کر دیتا ہے۔ اللہ بہت وسعت والا
(اور)
بڑا
علم والا ہے۔‘‘ (سورۃ
البقرہ:
۲۶۱)
حتمی
طور پر تو ہم نہیں جانتے، اور شاید ہمارے
ڈاکٹر صاحب کے اقرب ترین بھی نہیں جانتے
کہ وہ کتنا انفاق کرتے تھے، راہِ وفا میں
کتنی سخاوت کرتے تھے مگرخام اندازہ بھی
یہ بتاتا ہے کہ ماہانہ لاکھوں روپے اللہ
کی راہ میں دیتے تھے۔ بلاشبہ اللہ ہی ہیں
جو اپنے بندوں کو عطا کرتے ہیں اور پھر ان
بندوں کو توفیق دیتے ہیں کہ وہ اس کی راہ
میں خرچ کریں۔
فرعون
صفت دشمن بہت کچھ برداشت کر لیتا ہے، لیکن
یہ برداشت نہیں کرتا کہ اس کو اس کے سامنے،
اس کے منہ پر فرعون اور جابر کہا جائے۔
جب ڈاکٹر صاحب کو نقاب پوش دہشت گرد اغوا
کر کے لے گئے تو میں ایک بزرگ نما بھائی
سے انہی کے متعلق بات کر رہا تھا۔ وہ کہنے
لگے کہ ڈاکٹر صاحب اتنے جی دار اور اتنے
نڈر ہیں کہ قید کے اندر بھی دشمن کو اس
کی اصل شکل دکھاتے ہوں گے، اس کی خصلتوں
اور اس کے ایمان کو لگی کفر و ارتداد کی
بیماری کا بتاتے ہوں گے۔
حدیث
شریف میں وارد ہے:
اِنّ
من اَعظم او افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان
الجائر
’’بلا
شبہ سلطانِ جابر کے سامنے کلمۂ حق بلند
کرنا جہاد کی عظیم ترین اور افضل ترین قسم
ہے۔‘‘ (سنن
ترمذی)
یہ
اعظم کیوں ہے؟ شہید امام شیخ عبداللہ عزام
رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی ذیل میں فرماتے
ہیں:
’’وہ
مجاہد جو میدانِ جنگ میں لڑتا ہے، اس کے
دل میں خوف اور امید دونوں موجود ہوتی
ہیں، لیکن سلطانِ جابر کے سامنے کلمۂ حق
کو بلند کرنے والے کے دل میں بچنے کی امید
نہ ہونے کے برابر اور مارے جانے کا خوف
زیادہ ہوتا ہے، اسی طرح اس کلمۂ حق کا
فائدہ ساری امت کو براہِ راست پہنچتا ہے،
جبکہ مجاہدِ میدانی کا فائدہ اس کی نسبت
کم ہے کیوں کہ یا تو وہ خود شہید ہو گا یا
ایک کافر کو قتل کرے گا، سو اس کا فائدہ
کم ہو گا۔‘‘
ہم
اپنے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بھی ایسا ہی
گمان کرتے ہیں۔ کہ آپ سلطانِ جابر کے سامنے
صرف کلمۂ حق بلند نہ کر رہے تھے بلکہ اسی
سلطان کی قید میں تھے جہاں بچنے کی امید
نہ تھی اور بالآخر آپ کو اسی زنداں سے نکال
کر شہید کر دیا گیا۔
نومبر
۲۰۱۵ء کے آخر میں، خفیہ اذیت خانے سے نکال
کر ڈاکٹر صاحب کو چند دیگر مجاہدین کے
ہمراہ ڈیرہ غازی خان لے جایا گیا۔ وہاں
ایک جعلی پولیس مقابلے میں آپ پر لا الٰہ
الا اللہ کا اقرار کرنے کے جرم میں شریعت
کی دشمن پولیس نے گولی چلائی۔ گولی جسم
کے ایسے حصے پر ماری گئی کہ جان فوراً نہ
نکلے، بلکہ اذیت سے، خون بہنے کے سبب روح
و بدن کا تعلق منقطع ہو۔ ڈاکٹر صاحب کے
ورثاء کے سپرد ان کی نعش تقریباً دس دن کے
بعد کی گئی۔ مگر دس دن بیت جانے کے باوجود
ڈاکٹر صاحب کے جسم سے خون جاری تھا۔ چہرے
پر کوئی ایسا اثر نہ تھا کہ اس شخص کی روح
اذیت و تکلیف سے بدن کو چھوڑ کر گئی ہے۔
دس روز بعد بھی آنکھوں میں چمک تھی۔۔۔ جو
آنکھ اللہ کی راہ میں، رات کو پہرہ دیتے
ہوئی تھکی تھی اس کا نور کون چھین سکتا
تھا؟
مارنے
والے کہاں جانتے ہیں کہ مرنے والے کی اپنی
بھی یہی خواہش تھی۔ مرنے والے ہی کی خواہش
کی تکمیل ہوئی تھی، جس خواہش کی خاطر مرنے
والا نجانے کتنی بار مچلا ہو گا۔ مارنے
والے یہ بھی نہیں جانتے کہ مرنے والا، ان
کے لیے جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھے کا
سامان کر گیا ہے۔ اور کوئی بھی نہیں جانتا
تھا کہ یہ شخص مردہ نہیں ہے۔ سب ہی کی زبان
و عقل یہ کہہ رہی تھی کہ یہ مر گیا ہے۔۔۔
لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو سچ ہے، حق
ہے، نے فرمایا:
﴿وَلاَ
تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي
سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاء
عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَO
فَرِحِينَ
بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ
وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ
يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ
أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ
يَحْزَنُونَO
يَسْتَبْشِرُونَ
بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ
اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَO﴾
’’ جو
لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ہیں، انہیں
ہر گز مردہ نہ سمجھنا، بلکہ وہ زندہ ہیں،
انہیں ربّ کے پاس رزق ملتا ہے۔اللہ نےان
کو اپنے فضل سے جو کچھ دیا ہے، وہ اس پر
مگن ہیں، اور ان کے پیچھے جو لوگ ابھی ان
کے ساتھ (شہادت
میں)
شامل
نہیں ہوئے، اُن کے بارے میں اِس بات پر
بھی خوشی مناتے ہیں کہ (جب
وہ ان سے آکر ملیں گےتو)
اُن
پر کوئی خوف ہو گا، اور نہ وہ غمگین ہوں
گے۔وہ اللہ کی نعمت اور فضل پر بھی خوشی
مناتے ہیں اور اس بات پر بھی کہ اللہ
مؤمنوں کا اَجر ضائع نہیں کرتا۔ ‘‘
(سورۃ
آلِ عمران:
۱۶۹-۱۷۱)
یرزقون۔۔۔
وہ رزق پارہے ہیں۔ فرحین۔۔۔ خوشیاں منا
رہے ہیں۔
لکھنے
کو اور بھی ہے، مگر شاید ابھی موقع نہیں۔
اگر یہاں موقع نہ ملا تو عرش تلے قندیلوں
میں باتیں کرنے کا اور پھر فردوس میں کسی
تخت پر بیٹھ کر، حریر و دیبا میں لپٹ کر،
سونے کے کاسوں کے سامنے، کسی شام میں بات
کرنے کا موقع ضرور ملے گا، ان شاء اللہ۔
و
آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ایک
قسم کی ٹوپی جو پشتون قوم پہنتی ہے۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “مجاہدِ عزیم”
ایک تبصرہ شائع کریں