اتوار، 9 اکتوبر، 2016
عصبیتوں میں گندھا’’یوم آزادی‘‘
علی
خان لغاری
لاٹھی
کی ضرب سے کعبے میں بت ایک ایک کر کے منہ
کے بل گر رہے تھے۔ صدیوں سے چھایاابلیسی
طلسم ٹوٹ رہا تھا۔ لات، منات، عزّیٰ فہرست
چلتی چلی جاتی ہے۔ پتھروں اور لکڑیوں سے
تراشیدہ معبود ،ایک کے بعد ایک ،صفحہ ہستی
سے مٹ رہے تھے۔ دِلوں میں چھپے عصبیتوں
کے اصنام پاش پاش ہو رہے تھے۔ حق کی روشنی
سے نفرتوں کی دیواریں، نسلیت کی باڑیں
اور قومیتوں کی سرحدیں مٹتی چلی جا رہی
تھیں۔ ایک نئے عالم کی پیدائش ہو رہی تھی۔
کون ہو؟…کہاں سے ہو؟…کس خاندان سے ہو؟کی
بنیاد پر محبتوں کے لائق اور نفرتوں کے
مستحق گرداننے کا دور جا چکا تھا۔
اولادِ
آدم کے لیے اپنے ربّ کے حضور سجدہ شکر بجا
لانا ہی وجہ عزّو شرف ٹھہرایا جا رہا
تھا۔اس منظر سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ
آخراللہ نے اپنے نبی کے لیے یہ کیوں لازم
کر دیا کہ وہ قوم اور وطن پرستی کی جڑ کاٹنے
پر اپنی قوتیں صرف کرے!
اس
کے معمولی سے بھی اظہار کو ’’جاہلیت کے
بدبودار جملے‘‘کہے!اس
بنیاد پر عزّو شرف کے بیان کو ’’اپنے
پیروں کے نیچے‘‘بتا کر ذلیل کرے!
اس
کی سیدھی سادی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ
وطن اور قوم پرستی امّت میں تفرقہ ڈالتی
ہے۔ اس تفرقے کے نتیجے میں نیکی اور بدی
کا تصور یکسر بدل جاتا ہے۔ برے اور بھلے
کی جو تمیز ہر بشر میں رکھ دی گئی ہے اورجس
کی وجہ سے سب انسان بھلائیوں کو جانتے ہیں
اور غلط کاری کے وقت انھیں اندرونی طور
پر اس کا خوب احساس ہوتا ہے کہ وہ غلط کام
کر رہے ہیں؛ یہ نیکی اور بدی کا فہم قومیت
کے فلسفے کو مانتے ساتھ ہی بدل جاتا ہے۔
یہ ایسے ہوتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جو خلقِ
خدا کی بھلائی سے متعلق تھیں وہ ایکا ایکی
قومی بھلائی National
Interestمیں
محددو کردی جاتی ہیں۔ یعنی اس فلسفے کو
درست ماننے اور اپنانے سے قبل جسے نیکی
اور بھلائی کہا کرتے تھے، وہ یک دم غداری
کہلائی جانے لگتی ہے اور جو شے بے حمیّتی
گردانی جاتی تھی، وہ اچانک عین دانش مندی
تصور کی جانے لگتی ہے!اسے
یوں سمجھیں کہ کسی کمزور قوم کو، بِلا
اشتعال، لوٹ مار کا نشانہ بنانا سبھی
انسانوں کے نزدیک ناجائز اور ناروا جانا
جاتا ہے لیکن اگر یہ عمل ایک طاقت ور قوم
کے حق میں(In
National Interest)جاتا
ہو تو قومیت کا یہ فلسفہ اسے جائز ہونے
(Legitimate)کی
سند اس طاقت ور قوم کے جمہور کی مرضی سے
(Democratically)فراہم
کر دیتا ہے۔ اسی طرح کسی کمزور قوم پر ہونے
والے ظلم و ستم اور دست درازی پر دم سادھے
بیٹھے رہنا اور ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ
کشیدم‘‘کی تصویر ہو جانا فقط اس لیے جائز
اور درست مانا جاتا ہے، کیونکہ مظلوم کی
حمایت کے نتیجے میں ظالم کے ظلم و جور کا
نشانہ خود کو بھی بننا پڑ جاتا ہے اوریہ
قومی مفاد(National
Interest) کے
عین خلاف ہے۔سپر پاور سے محض اس بنیاد پر
لڑائی چھیڑ لینا کہ وہ ان معدنی وسائل پر
اپنا حق جتلاتی ہے جو اس کی ملکی حدود سے
بہت دور کسی کمزور قوم کے پاس ہیں کہاں کی
ہوش مندی کہلائے گی۔ محض سچ، صداقت، حق
اور دیانت دنیا چلانے کے لیے کافی نہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ یہ سچ، صداقت، حق اور
دیانت اگر قومی مفاد(National
Interest)میں
ہے تو اس کے راگ ٹی وی چینلوں پر بھی الاپے
جائیں گے لیکن اگر اس سچ کی قیمت پتھر کے
دور میں دھکیلے جانے کی دھمکیوں کی شکل
میں ادا کرنی پڑے تو پھر ایسی باتیں بچوں
کی کہانیوں میں بیان کی جاتی ہیں قوموں
کی زندگیوں میں البتہ منافقت، خود غرضی،
بوالہوسی،طوطا چشمی، جھوٹ اور ابن الوقتی
سے بڑھ کر کارآمد اور فائدہ بخش شے کوئی
اور نہیں ہے۔لہٰذا کسی جابر کے جبر اور
کسی قاہر کے قہر کا نشانہ بننے والوں کی
مدد اور نصرت سے دست کش ہونا اس فلسفہ
قومیت کی روشنی میں عین دانش مندی اور
کمالِ ذہانت کہلائے گی۔ہاں!اس
پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑا بیٹھنا نری سفاہت
اور حماقت ہوگی۔
یہ
ہے وہ فساد جو ابلیسِ لعین زمین میں برپا
کرنا چاہتا ہے۔ وطن پرستی کے خوش نما
نعروں، جیوے جیوے کی صداؤں اور قومی ترانوں
کی بجتی دُھنوں کے شور میں بلکتی، سسکتی
انسانیت کی آہیں دب جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ اس مکروہ ذہنیت
اور اس کے مظاہر کوکبھی تو ’’جاہلیت کے
بدبودار جملے‘‘کہے اور کبھی اسے اپنے
’’پیروں تلے‘‘ہونے کو بتا کر ذلیل
کرے!اس
فلسفے کے مقابلے میں ایک اور قوم اور ایک
اور برادری تشکیل دے۔نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس برادری کو خدا کے حقِ خدائی
تسلیم کرنے کی بنیاد پر اٹھایا، پھر اسے
خدا کے اس حق ِ خدائی سے انکار پر کھڑی ایک
دوسری برادری سے بِھڑوا دیا۔ اس امّت کو
یہ خوب خوب باور کرایا گیا کہ دیکھو!جھنڈوں
کی کثرت اور نسلوں کا تفاوت تمہیں یہ دھوکا
نہ دے کہ اس امّت کے مقابلے میں کئی ساری
اُمم ہیں!کبھی
اس فریب میں مت آجانا کہ تیکھی ناک والے
تو دشمن ہوئے ، البتہ پھینی ناک والوں سے
خدا کی اجازت سے تم خوب خوب یارانہ رکھ
سکتے ہو اور ان کی محبتوں اور الفتوں کے
گیت صبح و شام گا سکتے ہو!جس
طرح تم خدا کے بھیجے ہوئے اس رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرنے کی وجہ
سے ایک امت ہو اور جغرافیائی سرحدیں تمہارے
لیے کچھ معنی نہیں رکھتیں اسی طرح اس رسول
کی رسالت پر ایمان نہ لانے والے بھی ایک
اُمت ہیں!چاہے
ان کے رنگ مختلف ہوں۔ چاہے ان کی زبانیں
مختلف ہوں۔
ھُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَمِنْکُم مُّؤْمِنٌ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ (التغابن:٢)
’’وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا،پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن،اور اللہ وہ سب دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو‘‘۔
اس امت کو اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ:
یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء َ لِلّہِ وَلَوْ عَلَی أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالأَقْرَبِینَ (النساء:۱۳۵)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو‘‘۔
اس
امت کی شان اور اس کا مقام تو یہ ہے کہ جب
خدا اسے حق کے ساتھ کھڑے ہونے کا حکم دیتا
ہے تو پھر وہ حق اور سچ کے سامنے اپنے نفس
کو پست کرلیتی ہے، اپنا آپ مار لیتی ہے،
اپنے نفس کو اپنی خواہشات کو اور اپنی
محبتوں ، چاہتوں اور الفتوں کو حق اور سچ
کے سامنے کھڑا ہونے نہیں دیتی ہے۔پھر ایسی
ہی قوم کی تعریف و توصیف میں وحی نازل ہوتی
ہے کہ:
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء َہُمْ أَوْ أَبْنَاء َہُمْ أَوْ إِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیرَتَہُمْ أُوْلَئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الْإِیمَانَ وَأَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ أُوْلَئِکَ حِزْبُ اللَّہِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّہِ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (المجادلہ:٢٢)
’’تم کبھی یہ نہ پاؤگے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے،یا ان کے بھائی یا ان کے اہلِ خاندان۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کرکے ان کو قوت بخشی ہے۔ وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبردار رہو، اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء َہُمْ أَوْ أَبْنَاء َہُمْ أَوْ إِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیرَتَہُمْ أُوْلَئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الْإِیمَانَ وَأَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ أُوْلَئِکَ حِزْبُ اللَّہِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّہِ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (المجادلہ:٢٢)
’’تم کبھی یہ نہ پاؤگے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے،یا ان کے بھائی یا ان کے اہلِ خاندان۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کرکے ان کو قوت بخشی ہے۔ وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبردار رہو، اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
دیکھنا!…برطانوی،
فرانسیسی، پرتگالی اور ولندیزی سامراج
کی کھینچی گئی لکیروں اور ان لکیروں کی
بنیاد پر گھڑے ہوئے امتیازات(distinctions)کی
محبت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کی محبت پر حاوی نہ ہوجائے۔
دیکھنا
!…
کہیں
جھنڈوں کی لہلہاہٹیں، قومی ترانوں کی
بجتی دھنیں اور جیوے جیوے کی صدائیں کٹی
پھٹی، تیشہ چلی، درماندہ و مظلوم امت کی
آہوں سے تمہیں بے بہرہ نہ کردیں۔ دیکھنا!!…
دیکھنا!!
------------------------------------
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “عصبیتوں میں گندھا’’یوم آزادی‘‘”
ایک تبصرہ شائع کریں