اتوار، 9 اکتوبر، 2016

اصلی ہیروز بھی غلطیاں کرتے ہیں




ابوعمار المہاجر
 
زیرِ نظر تحریرسرزمینِ شام میں برسرپیکارڈنمارک سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کے مجموعہ سے منسلک ایک مجاہدبھائی نے لکھی ہے۔برادربازیدمحمد خان نے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی کی کاوش کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے،آمین۔
 
اسلام ہمیں اصلی رول ماڈلز کا تصور دیتا ہے۔ہمارے ہیروز مغربی ہالی ووڈ کے ہیروز جیسے افسانوی نہیں ہیں۔ ہمارے پاس ہیروز کی مثالیں افسانوی نہیں بلکہ انسانی ہیں اور اس مثال کو میدان جنگ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا کی نظریں ہر وقت مجاہدین پر لگی ہوتی ہیں… اور اگر چھوٹی سی غلطی ان سے ہو جائے تو بہت بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ ہم اسے حقیقت میں غلطی کہہ بھی نہیں سکتے، وہ یقیناً ایک بھول ہوتی ہے جو بے دھیانی میں ہو جائے… ایک بہت بڑا غلط تصور جو جہاد اور مجاہدین کے بارے میں قائم کرلیا گیا ہے ‘وہ یہ ہے کہ ایک مجاہد خامیوں سے پاک ہوتا ہے، یا پھر کم ازکم اسے غلطیوں سے پاک ہونا ہی چاہیے…یہ تصور عام ہے کہ ایک مجاہد تمام غلطیوں اور خامیوں سے پاک ایک روحانی شخصیت ہے۔ بہت سے مسلمان ایسا سوچتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک مجاہد بھی ویسا ہی انسان ہے جیسے دوسرے ہوتے ہیں۔ اپنی تمام بشری کمزوریوں اور خامیوں کے ساتھ وہ بھی گناہ اور غلطیاں کر سکتا ہے۔ 
 
صرف اس حقیقت کے بارے میں سوچ لیں کہ شام میں برسرپیکار بہت سے مجاہدین ایسے ہیں جو چند سال پہلے تک غفلت میں جی رہے تھے،بالکل اُسی طرح جیسے دیگر ممالک میں آج مسلمانوں کی کثیر تعداد کا حال ہے… اللہ نے شامیوں کے حالات تبدیل کیے اور جہاد کے دروازے ان پر وا کیے…بالکل ایسا ہی عراق، لیبیا اور دوسرے اسلامی ممالک کے اہل ایمان کے ساتھ ہوا جو غفلت بھری زندگی سے اس وقت نکلے جب جنگ اور قتل و غارت کے خوف ناک اور تلخ حقائق سے ان کا سابقہ پیش آیا…تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ ایک مجاہد کی تمام بری عادات ختم ہو گئیں اور ایک ہی رات میں گناہوں سے اس کی جان چھوٹ گئی… اگر ہم جہاد کرنے کے لیے اپنے سہارے گناہوں کے ختم یااُن کے چھوٹنے کا انتظار کرنے لگیں تو کبھی بھی جہاد نہ کر پائیں… 


مثال کے طور پر شام میں اب بھی بہت سے مجاہدین ہیں جو سگریٹ کے عادی ہیں۔ کچھ مجاہدین ہیں جن سے گناہ بھی سرزد ہو جاتے ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک گناہ گارمجاہد کے پاس ’’مجاہد ‘‘ہونے کا رتبہ ہی نہیں رہا… کیا ہمیں ایک مجاہد کو حقیر جاننا چاہیے اور اس کا شمار اس بنا پر مجاہدین میں نہیں کرنا چاہیےکہ وہ گناہ گارہے؟ حالانکہ کہ زیادہ تر ایسے نہیں ہوتے… ایک بار شیخ عبداللہ عزام رحمہ اللہ سے افغانستان میں پوچھا گیاکہ کیا ان مجاہدین کا جہاد جو کہ روسی کیمونسٹوں کے خلاف لڑے، قبول ہو جائے گا جو افیون کے عادی تھے اور دورانِ جہاد بھی اپنی اس عادت سے جان نہ چھڑا پائے تھے؟ تو شیخ رحمہ اللہ نے بہت خوب صورت جواب دیا، فرمایا: 
 
’’یہاں تک کہ وہ مجاہد جو افیون کا عادی ہے، رتبے میں اس حاجی سے بلند ہے جو کعبہ کے آگے گھٹنے ٹیکے بیٹھا ہے …کیونکہ جہاد سے بڑھ کر کوئی بھی عبادت قابل قبول اور گناہوں سے پاک کرنے والی نہیں۔یہ عبادات کی چوٹی ہے!وہ حاجی جو کعبہ کے سامنے عبادت کرتا ہے اپنے لیے نیکیاں کما کرصرف خود کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں ایک مجاہد میدان جنگ میں مسلمانوں کے دفاع کے لیے اپنی جان قربان کرتا ہے۔ عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جب کسی کے اچھے اعمال اس کے برے اعمال پہ حاوی ہو جاتے ہیں تو اس کے برے اعمال کا تذکرہ نہیں ہوتا اور جب کسی کے برے اعمال، اچھے اعمال سے زیادہ ہوں تو اس کے اچھے اعمال کے تذکرے نہیں ہوتے‘‘۔
اگر یہ اس شیخ رحمہ اللہ کے اس جامع قول کے بعد بھی کچھ تشکیک باری ہے تو آئیے! امت کے بہترین لوگوں کی جانب نظر ڈالتے ہیں۔ 
 
ایک صحابی ابی محجن الثقفی رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے شراب کے عادی تھے۔ زمانہ جاہلیت میں وہ اپنے بیٹے سے یہاں تک کہا کرتے تھے:’’ اگر میں مر جاؤں تو مجھے انگوروں کے باغ کے سامنے دفن کرنا تا کہ انگور میری پیاس بجھا سکیں، اور مجھے صحرا میں دفن نہ کرنا، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں مرنے کے بعد بھی شراب کے ذائقے کو محسوس نہ کر سکوں‘‘… جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اپنی اس عادت پر وہ مکمل قابو نہ پا سکے تھے۔ بعض اوقات انہوں نے شراب پی لی جس کا بعد میں انہیں پچھتاوا ہوا اور ان پر حدبھی نافذ کی گئی ، یہاں تک کہ یہ عادت پھر ان پر غالب آ گئی جس پر بعد اُن پر دوبارہ حد نافذ کی گئی… یہ معاملہ سالوں تک چلتا رہا یہاں تک کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے۔ 
 
ہو سکتا ہے کسی کو یہ عجیب لگے لیکن یہ واقعہ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی انسانیت دکھلاتا ہے۔وہ بھی انسان تھے ،اسی لیے ہمارے لیے بہترین مثال ہیں کیونکہ اگر اللہ ہمیں گناہوں سے پاک فرشتے بطور نمونہ دے دیتا تو ہم کبھی بھی ان کے نقش قدم پر چل نہ پاتے…جنگ قادسیہ برپا ہوتی ہے اورسیدناعمربن الخطاب رضی اللہ عنہ فارسیوں کے خلاف مسلمان فوج کو روانہ کرتے ہیں… 
 
اس وقت فوج کے سپہ سالار سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ صحابی ابی محجن الثقفی ؓبھی جنگ میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اُنہیں منع کر دیا کیونکہ وہ شراب پینے کی عادت کی وجہ سے مشہور تھے۔ اس لیے یہ مناسب نہ سمجھا گیاکہ وہ میدانِ کارزار میں اتریں۔ ابی محجن ؓنے اصرار کیا اوراپنا عذر پیش کیا کہ ’’ہو سکتا ہے اللہ مجھے شہادت دے کر معاف کر دے اور مجھے گناہوں سے پاک کر دے‘‘…بہت اصرار کے بعد آخرکار وہ لشکر میں شامل ہو گئے۔
 
فوجیں آمنے سامنے خیمہ زن ہوئیں۔اسی دوران میں سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور مجوس کے مابین مذاکرات ہوتے رہے۔ جن میں توقع سے زیادہ وقت لگ گیا تو کچھ دن لڑائی کے بغیر ہی گزر گئے۔ اسی دوران ابی محجنؓ کو شراب کی طلب نے بے چین کر دیا۔ وہ اپنا وعدہ توڑ بیٹھے اور شراب پی لی۔ یہ خبر سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو وہ بہت رنجیدہ بھی ہوئے اور خفا بھی ۔انہوں نے ابی محجنؓ کو سزا سنائی اور انہیں ایک خیمے کے اندر باندھ دیا گیا۔ساتھ میں مجوسیوں کے خلاف جنگ میں شمولیت سے بھی روک دیا… سبحان اللہ !یہ تھی وہ سزا جو دی گئی۔ نہ تو ان کی رقم ضبط کی گئی اور نہ ہی انہیں جسمانی زدوکوب کیا گیا… بلکہ سزا یہ دی گئی کہ انہیں میدان جنگ میں اپنی جان قربان کرنے سے روک دیا گیا…انہیں شہادت کی تلاش سے روکا گیا… یہ تھی وہ سزا!… 
 
اسی وجہ سے ابی محجن ؓاداس ہوگئے…وہ گڑگڑائے اور کہا کہ وہ توبہ کرنا چاہتے ہیں ،ساتھ میں جنگ میں شمولیت کی بھی فریاد کرتے رہے لیکن سیدناسعد رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا اور اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا۔یہ فرق ہے آج کی موجودہ اور پہلی نسلوں میں! ہم میدان جنگ اور شہادت سے بھاگتے ہیں اور اس سے بچ کر خوش بھی ہیں۔جب کہ وہ اسی طرف بھاگا کرتے تھے اور اس سے محرومی کا احساس ہی اُنہیں اداسیوں کی دنیا میں لے جاتا تھا۔ہم جدوجہد اور شہادت کو بطور سزا سمجھتے ہیں جب کہ وہ اسے سزا کے تقابل میں لیا کرتے تھے۔
 
آخر کار جنگ قدسیہ شروع ہوئی اور ابی محجن ؓاس میں شامل نہیں تھے۔ دونوں طرف لاشیں گر رہی تھیں اور ابی محجن ؓخیمے کی تنابوں کے ساتھ بندھے بیٹھے تھے۔ وہ بہت ذہنی اذیت میں تھےاور اسی کیفیت میں انہوں نے باہر جانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ کافی دیر تک کوشش کرنے کے بعد جب تھک ہار گئے توچِلاّنے لگے۔ حضرت سیدناسعد کی زوجہ محترمہ نے ان کی آواز سنی تو خیمے کے قریب آئیں اور پوچھا کہ انہیں کیا چاہیے۔ سوچا شاید کھانے پینے کی طلب ہو۔ لیکن ابی محجنؓ نے سلمی رضی اللہ عنہا کی منتیں شروع کر دیں اور کہا:’’خدا کے لیے مجھے آزاد کر دو اور سعد کا گھوڑا دے دو تا کہ میں بھی لڑ سکوں۔ اگر میں مر جاؤں تو میرے بوجھ سے خلاصی مل جائے گی اور اگر بچ گیا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ واپس آ کر اپنے آپ کو دوبارہ ان رسیوں سے باندھ لوں گا‘‘…سیدناسعد رضی اللہ عنہ ٹانگ پر زخم کی وجہ سے اس جنگ میں خود شریک نہ ہو پائے تھے۔ وہ لشکر کی کمان کو نزدیکی پہاڑی کی چوٹی سے سنبھالے ہوئے تھےاور ابی محجنؓ جانتے تھے کہ ان کا گھوڑا جنگ میں شامل نہیں۔ 
 
حضرت سلمی رضی اللہ عنہارحم دل تھیں اس لیے ابی محجنؓ کی مدد کو قائل ہو گئیں لیکن انہوں نے زندہ بچ جانے کے صورت میں وعدہ پورا کرنے کی یاد دہانی کروائی…ابو محجنؓ نے وعدہ پورا کرنے کی دوبارہ یقین دہانی کرائی تو حضرت سلمی رضی اللہ عنہانے ابی محجن ؓکو رہا کر دیا، ساتھ میں گھوڑا بھی دیا۔ ابی محجنؓ نے گھوڑے پر چھلانگ لگائی اور نقاب سے چہرے کو اس طرح ڈھانپ لیا کہ کوئی انہیں پہچان نہ سکتا تھا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ پہچاننے کی صورت میں واپس بھیج دیا جائے گا… 
 
جب مسلمانوں نے انہیں دیکھا تو وہ میدان جنگ میں اس نقاب ہوش سپاہی کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے، سب پریشان تھے کہ یہ کون ہیں؟ چونکہ ابی محجنؓ کو پہلے میدان جنگ میں دیکھا نہیں گیا تھا اس لیے مسلمانوں کی جانب سے ان کی اس طرح سے نگرانی شروع کی گئی کہ ابی محجنؓ کو محسوس نہ ہو….تب سب نے دیکھا کہ وہ انسان میدان جہاد میں انتہائی دلیری اور شجاعت سے لڑرہا ہے ،اس کے حملوں سے دشمن کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہےاور اُس کی تلوار کی زد میں آکرمجوسیوں کی لاشیں دائیں بائیں گر رہی ہیں…
 
مسلمان سمجھ رہے تھے کہ شاید امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کوئی تازہ دم فوج کا دستہ بھیج دیا ہے… کچھ نے سوچا شاید اللہ نے مدد کے لیے فرشتے بھیج دیے ہیں… اور ان سب میں سب سے زیادہ حیران خود سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ وہ میدان جنگ کایہ سارا منظرکچھ فاصلے سے دیکھ رہے تھے اور اس دلیر مجاہد سے کافی متاثر ہو رہے تھے… وہ خود کلامی کررہے تھے کہ ’’یہ لڑنے کا انداز تو ابی محجن جیسا ہے اور گھوڑا بھی بلقا لگ رہا ہے‘‘( بلقا:سیدناسعد رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کا نام تھا)…مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے،انہوں نے خود سے سوچا کہ ابی محجن تو قید میں ہیں۔ سیدناسعد رضی اللہ عنہ بہت حیرانی کے عالم میں تھے اور کچھ سمجھ نہ پا رہے تھے… 
 
آخر کار جنگ ختم ہوئی اور دونوں اطراف کی افواج اپنے اپنے کیمپوں کی طرف واپس لوٹیں….ابی محجن ؓجو کہ زندہ بچ گئے تھے،واپس گئے اور اپنے آپ کو وعدے کے مطابق بیڑیوں سے باندھ لیا… جب سیدناسعدرضی اللہ عنہ واپس لوٹے تو انہوں نے دیکھا اُن کا گھوڑا اپنی جگہ پر کھڑا ہے لیکن پسینے سے شرابور اور ہانپا ہوا ہے…اسی طرح وہ ابو محجن ؓکے خیمے کی طرف گئے تو دیکھا ان کا خون بہہ رہا ہے اور وہ بری طرح سے زخمی ہیں…سیدناسعد رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:’’کیا آپ نے لڑائی کی؟‘‘…ابو محجن ؓنے کہا، ہاں میں نے لڑائی میں حصہ لیا اور وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی شراب نہیں پیوں گا۔ وہ کوڑوں کی مار تو برداشت کر گئے مگر جہاد سے دوری برداشت نہیں کر پائے تھے۔ان کی لیے یہ ایک بہت بڑی سزا تھی… سیدناسعدرضی اللہ عنہ نے تب فرمایا:’’اور میں بھی وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی آپ کو اس طرح کی سزا نہیں دوں گا‘‘۔
 
ہمیں اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک گناہ گارمسلمان، باوجود اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کہ بلندمقصد سے ہم آہنگ ہوسکتا ہے!اے گنہگار بھائی!...تم بھی پہاڑوں کی چوٹیوں جتنے بڑے مقاصد رکھ سکتے ہو… تم گناہوں کے باوجود بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ہو سکتے ہو۔ تم بھی اس امت اور اس دین کے لیے ایک بہترین سرمایہ بن سکتے ہو۔ اللہ نے ابی محجن ؓکے گناہوں اور کوتاہیوں کے باوجود بھی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی چنا، وہ ہدایت یافتہ خلفاکی نگرانی میں لڑے، وہ متقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شانہ بشانہ لڑے… تو تم بھی اپنی خامیوں کے باوجود اس امت میں ایک خاص مقام اور اور اللہ کی طرف سے عزت و اکرام کے قابل ٹھہرائے جا سکتے ہو… تم اونچا اُڑ سکتے ہو…اس امت کے لیے اس دین اسلام کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہو ان شاء اللہ…اپنے گناہوں کو راہ کی رکاوٹ نہ بننے دو… کہ میں گناہ گار ہوں تو قبولیت کی امید نہیں… ایسا کچھ نہیں ہے!بس توبۃ النصوح اوراس توبہ پر مداومت ضروری ہے! 
ہم اکثر کسی انسان کے برے اعمال کی طرف ہی توجہ دیتے ہیں اور اس کے اچھے اعمال پراس برے عمل کو حاوی کر دیتے ہیں… مگر یہاں ہمیں ابی محجن ؓکے حالات زندگی سے سبق ملتا ہے کہ ہم ایک انسان کے گناہوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں جب وہ اچھے طریقے سے اپنی غلطیوں کو نیک اعمال سے سدھارنے کی کوشش کرتا ہے… جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 
’’جس حالت میں بھی رہواللہ سے ڈرتے رہو،اوربرائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرو کیونکہ بھلائیاں‘برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اورلوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ‘‘۔(ترمذی)

---------------------------------

0 Responses to “اصلی ہیروز بھی غلطیاں کرتے ہیں”

ایک تبصرہ شائع کریں

All Rights Reserved ملحمہ بلاگ | Blogger Template by Bloggermint
Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ