ہفتہ، 27 فروری، 2016

فکر ِداعش اور فکر ِاہل سنت

تعصب کبھی بھی کسی واقعہ، سوچ اورفکر کے پیش نظر پیدا ہو سکتا ہے، کوئی صورتِ حال آپ کو ایسی رائے قائم کرنے پر لے جا سکتی ہے جو کہ حقیقت کے قریب بھی نہ ہو۔ اس کی وجوہات تو بہت سی ہو سکتی ہیں‘جن میں لاعلمی، کم عقلی یا دیگر کئی عوامل یکجا ہو سکتے ہیں۔ کچھ عامی بھی علم نہ ہونے کے سبب اس تعصب کا شکار ہو سکتے ہیں اور کچھ علم والے بھی ہوائے نفس سے متاثر ہوتے ہوئے اِس طرف جا سکتے ہیں کیونکہ علم کی پختگی بہرحال اس طرح نہیں ہوتی جو کہ مطلوب ومقصود ہے اور تعصب کے سبب حقیقت پر نظر رکھنے کی بجائے، بندہ اپنی فکریاجماعت کو ہی فقط برحق جاننے لگتا ہے اور عدل وانصاف اور اعتدال پر مبنی حق بات کو نظرانداز کرتا جاتا ہے۔
تعصب کی سب سے ایک بڑی وجہ اُس وقت پیدا ہوتی ہے، جب آپ فقط اپنی جماعت، نظریہ، رائے یا فقہی مسائل میں ہی کسی ایک رائے کو ہی حرفِ آخر سمجھتے ہوئے دوسری رائے رکھنے کی آزادی کو سلب کر لیں، اوراِس کے ساتھ ساتھ دوسروں کی رائے، بے شک وہ اجتہادی دائرہ میں قابلِ قبول ہی کیوں نہ ہو‘بلکہ فروعی مسائل تک محدود ہی کیوں نہ ہو‘آپ اس کو یکسر رد کر دینے کی عادی طبیعت پاتے ہوں، تو پھر اس حقیقت کا ادراک ایک مشکل فعل بنتا ہے اور بندہ دانستہ یا غیردانستہ طور پر تعصب کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس بڑے سبب کے ہمراہ دیگرمختلف ذیلی عوامل شامل ہوتے ہیں،اور بندہ اہل سنت مکاتبِ فکر کے درمیان ہی ’’محاذ‘‘کھول لیتا ہے، اور اس کو اپنے تئیں ’’دینی تقاضہ‘‘اور ’’حق‘‘سمجھنے لگتا ہے، کیونکہ فکر ایک خاص شخص، رائے،نظریہ، جماعت میں مقید ہو چکی ہوتی ہے اور تمام امت کو اس سے ’’منوانا‘‘ہی ’’اصولِ دین‘‘قرار پا جاتا ہے‘جو بہت ہی نادان سوچ ہے، لیکن متعصب شخص اس کا شعور نہیں رکھتا۔


داعش کے ظہور کے بعد ایک متعصب ذہنیت یہ سامنے آئی کہ جس نے ’’سلفیت‘‘یا ’’سلفی‘‘(منہج سلف کی اتباع میں اہل سنت طبقہ)ہونے کو ہی معتوب گرداننا شروع کیا، اور انہیں ہی تمام ’’فساد‘‘اور ’’داعشیت‘‘کی بنیاد قرار دے کر ’’گمراہ‘‘قرار دینا شروع کر دیا، کیونکہ وہ خود ایک محدود زاویہ سے اس مسئلہ کو دیکھ رہے تھے۔ الغرض داعشیت کی ساری ذمہ داری سلفی کاندھوں پر ڈال دی گئی اور اگر وہ حقیقت کا مطالعہ کرتے اور اعتدال اپناتے، تو جان لیتے کہ داعشی فکر کا اہل سنت کے کسی بھی طبقہ سے تعلق نہیں ہوتا، نہ وہ حنفی ہوتی ہے، نہ سلفی اور نہ ہی دیگر مذاہبِ اربعہ اور ائمہ سنت کے منہج اور سلف صالحین کے طریقہ کار سے اُن کا دور کا بھی کوئی واسطہ ہوتا ہے۔
بہت آسانی سے داعش کے ظہور کے بعد اسی متعصب طبقہ نے داعش کو ’’سلفیت‘‘کا ’’نمونہ‘‘بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا، تاکہ وہ اپنے ’’حنفی‘‘یا دیگر ائمہ اربعہ کے پیروکار ہونے کو ہی فقط ’’حق‘‘ثابت کر سکیں حالانکہ ’’سلفی‘‘ہوں یا ’’حنفی‘‘یا آپ کا تعلق مذاہبِ اربعہ اور دیگرائمہ سنت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، یہ سبھی تو اہل سنت کا ہی اثاثہ ہیں۔اس میں اس تعصب اور غلو کی جانب جانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے بلکہ مذاہبِ اربعہ اور دیگر اہل سنت طبقات کو تعصب کی بنیاد پر لڑوانے کی سازش تو استعمار کی کاوشوں میں سے ایک ہے، ہمیں تو ہرگز ہرگز اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ آپس میں متحد ہو کر کسی بھی بدعت کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
جو احباب یہ سمجھتے ہیں کہ داعش سراسر ’’سلفی‘‘فکر کا شاہکار ہے، وہ سرے سے ہی اس مسئلہ کی حقیقت کو نہیں سمجھیں۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے امارتِ اسلامیہ کی ویب سائٹ پر نشر ازبک داعشیوں کے خلاف جنگ کی بابت رپورٹ سے ہم اس بات کو ان شاء اللہ مثال کے ذریعے سمجھنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کر لیتے ہیں۔ آپ غور کیجیے گا اور توجہ سے پڑھیے گا کہ امارتِ اسلامیہ کے ساتھ تعامل میں ازبک داعشی کس ذہنیت کو اپنا رہے تھے، اورکیوں تمام قسم کی صلح کی کاوشیں ناکام ہوئیں۔ امارتِ اسلامیہ کی ویب سائٹ پر اس جنگ کے احوال میں لکھا گیا:
’’ازبک داعشوں سے پوچھاگیا کہ تم تقلید کو مانتے ہو اور کس مذہب کے پیروکار ہوں؟ انہوں نے کہا کہ ہم امام ابوحنیفہؒ کے پیروکار ہیں۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ اس مذہب میں کون سی کتاب پر فیصلہ کروگے؟ کہا گیا کہ ردالمختار پر۔جب ردالمختار کو لایا گیاتو داعشیوں کی جانب سے رونما ہونے والے تمام اعمال غلط ثابت ہوئے، جس سے منصورداداللہ اور ازبک داعشی لاجواب ہوگئے تھے، لیکن اس کے باوجود علمائے کرام کو کسی قسم کا مثبت جواب نہیں دیا ‘‘۔
آپ خود ہی دیکھ لیجیے!یہ ازبک داعشی خود کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا پیروکار بتاتے ہیں، اور فیصلہ بھی فقہ حنفی کی ایک مستند کتاب رد المختار پرکرنے کا کہتے ہیں۔ دیکھئے ! فقہ کا تعین بھی انہی کا ، کتاب بھی ان کی مرضی کی لیکن لاجواب ہونے کے باجود بھی وہ اپنی کم علمی اور کم عقلی کو تسلیم نہ کرسکے۔ کسی مذہب کے پیروکار ہونے کا دعوی کرنا آسان امر ہے، لیکن اس کو واقعی ثابت کرنے کے لیے آپ کو حقیقی معنی میں علم میں غوطہ زن ہونا پڑتا ہے۔

اب اس مثال کو لے کر اگر کوئی سلفی فقط اپنے مکتبہ فکر کو ہی حق ثابت کرنے کے لیے کہہ دے کہ ’’حنفی‘‘فقہ ہی ’’داعشیت‘‘کو ’’پروان‘‘چڑھاتی ہے اوریہ ’’گمراہ‘‘ہے، اور یہ مکتبہ فکر ہی اس داعشی فکر کا ’’ذمہ دار‘‘ہے، اور مثال کے لیے اِنہی ’’مہاجرداعشی ازبک‘‘گروہ کو پیش کرے جو مقلدِ امام ابو حنیفہؒ ہونے کا دعوی کر رہا ہے، تو کیا آپ اس کو بغیر تحقیق میں جائے قبول کر لیں گے؟ یا اس شخص کی عقل کو ہی قابل رحم سمجھیں گے جو اس طرح کے استنباط کر رہا ہے؟ تو پھر کسی طرح آج ایک دوسرا متعصبانہ طرزِ عمل یہ بات بآور کروانے کی لاحاصل کوشش کر رہا ہے کہ داعشی فکر کی ذمہ دار اصل میں ’’سلفی‘‘ہونا ہے یا ’’سلفیت‘‘ہے،اور یہ کہ ’’داعشیت‘‘ہی ’’سلفیت‘‘ہے؟ مزید متعصابہ ذہنیت تو اس سے آگے بڑھتے ہوئے ائمہ اہل سنت اور دیگرعلمی شخصیات کی توحید پر مبنی علمی کاوشوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرارہی ہے۔
پھر اس سے بھی مضحکہ خیز بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ متعصبانہ ذہن دیگر بہت سے منہج سلف سے وابستہ سلفی طبقہ اور اہل علم کے اقوال کو ’’نظرانداز‘‘کرتے ہوئے یہ ’’ذمہ داری‘‘نبھا رہا ہے اور اسے ’’دینی فریضہ‘‘بھی جان رہا ہے۔کیونکہ مقصد‘ اہل سنت کے اندر موجود طبقات کو ہی آپس میں لڑوانا ہے اور فساد برپا کرنا ہے، جس سے فقط دین دشمن عناصر کے اہداف ہی پورے ہو سکتے ہیں ۔ یہ کسی طور پر نہ عقلی، نہ شرعی نہ اخلاقی طور پر ایک قابلِ قبول فکروفعل ہے، اور جو اس فکر پر عمل کر رہا ہے، اسے اپنی رائے پر نظر ثانی ضرور کرنی چاہیے۔
داعشی فکر کا اہل سنت کے کسی بھی طبقہ سے دور کا بھی لینا دینا نہیں ہے!بالکل اسی طرح جس طرح اولین خوارج کا منہج حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابر صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے منہجِ سلیم سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ جس طرح آپ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے برآمد ہونے والے خوارج کو بنیاد بناتے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو’’موردِ الزام‘‘نہیں ٹھہرا سکتے، اور نہ ہی منہج صحابہ رضوان اللہ علیھمم اجمعین پر ’’جرح‘‘ کر سکتے، بالکل ویسے ہی آپ اس ’’داعشی فکر‘‘کو اہل سنت کے کسی بھی طبقہ کے ساتھ نہیں جوڑ سکتے۔ نہ صرف یہ بہت بڑی خطا ہو گی، بلکہ یہ آپس میں فتنہ ڈالنے کی ایک بھیانک کوشش بھی قرار پائے گی۔
اس لیے کہ یہ بات ثابت شدہ امرپہلے بھی تھا اور آج بھی ہے کہ داعشی حروری خارجی ذہنیت کا کوئی بھی تعلق کبھی بھی اہل سنت کے کسی بھی طبقہ سے نہیں رہا ہے، چاہے وہ متقدمین خوارج ہوں یا متاخرین خوارج، یہ تاویلات پر مبنی آزاد خارجی حروری ذہنیت ہے، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھی خروج ’’توحید‘‘سمجھتی ہے، اس سے بڑھ کر ضلالت بھلا کیا ہو سکتی ہے؟ اور پھر اس سے بھی بڑھ کر گمراہی کیا ہو گی کہ اگر آپ اس خارجی ’’توحید‘‘کا ذمہ دار اہل سنت کے طبقات کو ہی قرار دینے لگ جائیں؟
مزید اس نکتہ کو سمجھنے کے لیے اس پہلو کو اس طرح سے دیکھتے ہیں کہ آپ خود دیکھ لیجیے کہ یہ حنفی ازبکی جو امارتِ اسلامیہ افغانستان کے دور سے ہی وہاں بطور مہاجر موجود رہے اور ان کو امارتِ اسلامیہ نے ہی پناہ دی، اس وقت داعش کا دور دور تک کوئی نام و نشاں نہیں تھا، البتہ یہ ’’داعشی ذہنیت‘‘جو اصل میں تکفیری اور خارجی ذہنیت ہے، وہ مجاہدین کے درمیان کسی نہ کسی صورت ’’پھلتی پھولتی‘‘رہی،یہاں تک کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں لوگوں کے ساتھ اسی بنیاد پربرے سلوک کیے گئے۔ چونکہ اس وقت جب داعش کا کوئی وجود بھی نہ تھا،لہٰذا اہل علم یقیناًاس ’’گمراہ کن‘‘تکفیری فکر پر انہیں نصیحت کرتے ہوں گے، لیکن یہ نصیحت تو پھر وہی قبول کرتے ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ حق کے لیے کھول دیں۔ وگرنہ یہ ’’ذہنیت‘‘تو اصل میں شریعتِ مطہرہ کے خلاف خروج پر ہی کھڑی ہوتی ہے، اس لیے کسی نصیحت کا اثر‘
الا ما رحم ربی‘اِن پر نہیں ہوتا، نہ ہی یہ اپنی اصلاح کرتے ہیں، کیونکہ اہل سنت طبقہ کی طرف سے دی گئی نصیحت کو یہ اپنی خود ساختہ ’’توحید‘‘کے منافی جانتے ہیں اور اسے ’’مداہنت‘‘قرار دیتے ہیں، والعیاذ باللہ۔
بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہی حنفی ازبکی جو اب داعش کے روپ میں مزید واضح ہو گئے ہیں، اس سے قبل بھی قبائلیوں میں یہ فتنۂ تکفیر کو پھیلا رہے تھے، اب آپ غور کیجیے کہ یہ ازبکی گروہ مہاجر بھی ہے، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا خود کو پیروکار بھی بتلاتا ہے، تقلید کا قائل بھی ہے، لیکن پھر بھی مجاہدین اور مسلمانوں کی تفسیق اور تکفیر کو اپنا رکھا ہے۔ اب اگر کوئی ان ازبکی مہاجر ’’مقلد مجاہد‘‘کو بنیاد بناتے ہوئے ’’حنفی‘‘ہونا باطل ثابت کرنے کی ’’تگ و دو‘‘کرے یا مجاہدین کو ہی اس ‘‘مجاہد مہاجر‘‘کی مثال کی بنیاد پر ’’تکفیری‘‘قرار دے، تو کیا آپ اس کو متعصب نہیں کہیں گے اور اس کے استنباط کو باطل قرار نہ دیں گے؟ اس پر غوروخوض کرنے کو ہم آپ پرچھوڑ دیتے ہیں۔

اگر مفروضے کے طور پرہم داعشیت کی ذمہ داری سلفی ہونے پر ڈال دیں، تودرجہ بالا مثال کے تحت، بھذا القیاس، داعشیت کی ذمہ داری حنفی ہونے پربھی ڈالی جا سکتی ہے کیونکہ وہ ازبک داعشی تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پیروکار ہونے کا ’’دعویٰ‘‘ کررہے تھے۔ اگرفرض کیجیے کہ داعش نے اپنی گمراہی، ’’سلفی‘‘ہونے سے مستعار لی، تو پھراسی بنیاد پر ان حنفی ازبک داعشیوں سے متعلق بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بھی اپنی گمراہی ’’حنفی‘‘ہونے سے مستعار لی۔ والعیاذ باللہ، کتنا ہی غلط اطلاق ہو گا، جس اس طرح کیا جائے گا!

پس یہ حروری داعشیت، اہل سنت میں سے کسی بھی طبقہ کا اثاثہ نہیں، نہ یہ سلفی ہوتی، نہ حنفی، نہ شافعی، نہ حنبلی، نہ مالکی اور نہ دیگر ائمہ اہل سنت کے منہجِ سلف سے اس کا کوئی تعلق ہوتا ہے۔ آئیے مل کر اس تعصب کو ختم کریں، اور اپنے طبقات کے درمیان بھی پائے جانے والے کسی بھی تعصب کو دل سے باہر نکال پھینکیں اور تعصب کی جڑ کو کاٹ دیں اور مل کر تمام باطل کا اسی طرح رد کریں، جس طرح کہ حقیقت میں عدل وانصاف کے ساتھ اس کا حق بنتا ہے تاکہ ہر قسم کے تعصب کی سخت انداز سے بیخ کنی کی جا سکے، اور ہم ہر معاملہ میں افراط وتفریط سے بچ سکیں۔
حقیقتِ امر اس داعشی حروری فکر کا یہ ہے کہ یہ فکر اہل سنت کے منہج اور شریعتِ اسلامیہ سے ہی خروج کیے ہوئے ہے، اسی نکتہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس فکر کا رد کریں اور اس گمراہ کن فکر کو اہل سنت کے کسی بھی طبقہ کے ساتھ نہ جوڑیں، عصبیت اور تعصب کی دعوت دینے سے گریز کریں اور اعتدال اور انصاف کی راہ کو اپنائیں، فلاح پائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کوہم سب مل کر اپنی صفوں پا لیں گے، ان شاء اللہ، جیسے جیسے ہم غلو کو اپنی ذات اور صفوں سے دور کرتے جائیں گے، ویسے ویسے امت کے لیے ہم زحمت کی بجائے رحمت بنتے جائیں گے اور اللہ کی نصرت ہمارے قریب تر ہوتی جائے گی، اور تبھی ہمارے درمیان وہ اخوت اور صف بندی ہو گی، جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے اس ایتِ کریمہ میں پیش کی:
إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُم بُنْیَانٌ مَّرْصُوصٌ (الصف:۴)
’’بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں‘‘۔
تو کون ہے جو یہ نہیں چاہے گا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے محبت کرے؟ پس اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تمام قسم کے تعصب، غلو اور دیگر غیرشرعی افعال کو اپنی ذات اور جماعت سے باہر کریں اور ظلم کو ہرگز ساتھ نہ دیں تاکہ ہم اس آیتِ کریمہ کی روشنی میں سیسہ پلائی ہوئی عمارت کی مانند صف بستہ جہاد یکجا ہو کر ایک سلیم فطرت اور عقیدہ پر کر سکیں۔
ایک مضبوط عمارت کی بنیاد مضبوط اشیا پر ہوتی ہے، ناقص اشیااس عمارت کی مضبوطی کو کم کرتی ہیں۔آئیے! ہم اس تعصب، غلو، خونِ مسلم میں تساہل، ناحق تکفیر جیسی قبیح ناقص اشیاکو جو جہادی صف بندی کی عمارت کو کمزور کرنے کا کام کرتی ہیں، ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مددونصرت سے جلد از جلد ختم کریں، تاکہ اللہ تعالی کی نصرت ہماری جہادی صف بندی میں شاملِ حال ہو جائے، اور ہم شریعت یا شہادت کے سفر پر چلتے ہوئے صحیح معانی میں کامیاب و کامران ہو سکیں، آمین۔

*****

0 Responses to “فکر ِداعش اور فکر ِاہل سنت”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ