بدھ، 9 مارچ، 2016

شبِ شہادت کاچاند




آج شیخ انور العولقی رحمۃ اللہ علیہ کے ان الفاظمیں کچھ اور ہی تاثیر تھی۔ دِل بھی تو ہمیشہ سے زیادہ غم میں ڈُوباہوا تھا۔ شہادت ہی ایسے کی تھی۔۔۔ ایک ایسا جس کے ساتھ تعلق کی نوعیت کو محسوسات اور مادّے کی دنیا میں نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ ایک للہ فی اللہ محبت کا تعلق ہے۔اس تعلقِ محبت کو بھی للہ فی اللہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ وہ تعلق جوخون کے رشتوں سے بڑھ کر ہے۔وہ محبت کہ جو سیّدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ان صحابی سے ہےجو آپ رضی اللہ عنہ کے سگے بھائی کو رسیوں سے جکڑ رہا ہے۔
وقائع نگار بیان کرتے ہیں کہ بدر کا دِن ہے۔ کفار کا لشکر شکست کھا کر بھاگ چکاہے۔ مؤمنینِ کاملین اللہ کی نصرت سےفتح یاب ٹھہرے ہیں اور چودہ صحابۂ کرام بطور شہید چنے گئے ہیں۔ستّر سے زیادہ کافر مارے گئے ہیں اور گرفتار ہونے والوں کی تعداد بھی لگ بھگ اتنی ہی ہے۔ انہی گرفتار شُدگان میں ایک، حضرتِ مصعب ابنِ عمیر رضی اللہ عنہ کا سگا بھائی بھی ہے۔ایک صحابیٔ رسولصلی اللہ علیہ وسلم ، حضرتِ مصعبؓ کے بھائی کو رسیوں سے باندھ رہے ہیں۔ حضرتِ مصعبؓ ان صحابی کی جانب متوجہ ہوتےہیں اور اپنے بھائی کی جانب اِشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اِسے ذرا مضبوطی سے باندھنا، اِس کی ماں بڑی مال دار عورت ہے۔
حضرتِ مصعبؓ کا سگا بھائی، سراپا حیرت سے حضرتِ مصعبؓ کو کہتا ہے کہ تم تو میرے بھائی ہو(اور غیروں سی بات کر رہے ہو)!
اب وہ رشتۂ ایمانی سمجھنے کا وقت آتا ہے۔ للہ فی اللہ تعلق سمجھ میں آتا ہے۔ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ کے لیے بے گانوں کو اپنانے کا کیا مطلب ہے اور اپنوں کو بے گانہ بنانے کا مطلب کیا ہے؟
سیّدنا مصعب ابنِ عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تُو میرا بھائی نہیں ہے، میرا بھائی تو وہ ہے جو تجھے رسیوں سے جکڑرہا ہے(کہ تُو تو کافر ہےاور جکڑنے والا مسلمان ہے، کافر تو دشمن ہے اور جکڑنے والامسلمان ہونے کی وجہ سے میرا بھائی ہے )۔ 



یہ ہے وہ للہ فی اللہ جڑنے اور کٹنے کا مطلب جو اللہ کا دِین سکھلاتا ہے۔
بس ایسی ہی للہیت پر مبنی محبت مجھے اس چاند سے بھائی سےبھی تھی اور اب اس کے جانے کے بعد اور بڑھ گئی ہے۔
میں جب اس چاند سے بھائی سےملا تو وہ نیا نیا طلوع ہوا تھا۔ابھی زیادہ عرصہ اسے عالمِ جہاد میں نہیں گزرا تھا، لیکن اس کی دینِ الٰہی کی خاطر تڑپ اور اخلاص اسے بہت جلد مقامِ انتخاب تک لے گیا۔ وہ مختصر سے عرصے میں چودھویں کا چاند بن گیا ۔ اور چودھویں کاچاند کسے نہیں بھاتا ۔۔۔پھر اس کو کیوں نہ پسند آئے، جو اس کا خالق ہے اور اس سے ستّر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرتا ہے۔
۲۳ اور ۲۴ ستمبر ۲۰۱۴ءکی درمیانی شب، دو بج کر پچاس منٹ پرشمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے مقام لواڑہ منڈی کے قریب ایک امریکی ڈرون حملہ ہوا، جس کی جاسوسی ’’ہماری‘‘پاکستانی فوج نے فراہم کی۔ اس ڈرون حملے میں چھے مجاہدین شہید ہوئے۔ ان شہید ہونے والوں میں دو مجاہدین میڈیا سے وابستہ تھے۔ انہی دو میں سے ایک ہمارے بھائی محمد اُسامہ تھے۔اللہ تعالیٰ آپ سمیت تمام شہداء کی شہادت قبول فرمائیں اور ہمیں جنتوں میں ان کے ساتھ جمع فرمائیں، آمین۔
اُسامہ بھائی کا تعلق، شیخ اُسامہ بن لادن ؒ کے مشہد ایبٹ آباد سے تھا۔ آپ نے انیس سال کی عمر میں غاصب امریکی صلیبی اتحاد کے خلاف اپنی امت کا دفاع کرنے کے لیےافغانستان کا رخ کیا اور قافلۂ جہاد میں شامل ہوئے ۔ کچھ عرصہ سرزمینِ جہاد پر گزارنے کے بعد آپ پاکستان واپس چلے گئے اور وہاں نصرتِ جہاد کیسرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔آپ داعی شیخ، انور العولقی رحمہ اللہ کے لاکھوں روحانی شاگردوں میں سے ایک تھے۔ شیخ انور رحمہ اللہ ہی کے دروس و خطبات نے آپ کو دین سے جوڑے رکھا اور یہی خطبات آپ کے میدانِ جہاد میں دوبارہ باقاعدہ طور پرشامل ہونے کا باعث بنے۔
آپ کو عسکری جہادی کارروائیوں میں شرکت کا نہایت اشتیاق رہتا۔ شاید یہی جذبہ عنداللہ مقبول ہوا اور آپ اعلام سے وابستہ ہونے کے بعد بھی مستقل عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے۔
اُسامہ بھائی اورمیں ایک ہی مرکز میں کافی عرصہ اکٹھے رہے۔الحمدللہ مجھے آپ کے ساتھ رمضان المبارک کے بھی کئی ایام گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ نمازیں بہت خشوع سے ادا کرنے والے تھے۔ میں نے آپ کو کئی مرتبہ نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھتے ہوئےروتا اور اپنے ربّ سے گڑگڑاتا ہوا پایا۔ اجتماعی دعا کے وقت، ہر دعا کے اختتام پر آپ کی زبان سے ادا ہونے والی آمین میرے رونگٹے کھڑے کر دیتی۔ نجانے دعا مانگتے ہوئے آپ کا اپنا کیا حال ہوتا ہو گا کہ جس کی حدّت مجھے ہلا رہی ہوتی تھی۔
آپ کے ساتھ گزرے ایّام میں نے کافی بیماری کی حالت میں گزارے۔سال ۱۴۳۵ھ کی عید الفطر سے لے کر شوّال المکرم کے اختتام تک میں بہت شدید بیمار رہا۔ اس بیماری کے دوران شہید اُسامہ بھائی نے میری اتنی خدمت کی جس کی نظیر پیش کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ شاید اگر میرا سگا بھائی بھی اتنا بیمار ہوتا تو میں اس کی ، اس سے اپنی بے پناہ محبت کے باوجود بھی اتنی خدمت نہ کر سکتا، جتنی اسامہ بھائی نے میری کی۔میدانِ جنگ میں کہ جب پاکستانی فوج نے امریکہ کے تعاون سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز کر رکھا تھا اور کھانے پینے کی اشیاء تک کی قلت ہوتی جارہی تھی، اُسامہ بھائی کئی مرتبہ دُور دراز علاقوں میں جا کر میرے لیے دوا لاتے رہے۔ دسیوں بار آپ مجھے ہسپتال میں ڈاکٹر کو دِکھانے کے لیے لے جاتے رہے۔ میں کھانے پینے سے تقریباً معذور تھا کہ جب آپ مجھے بلا ناغہ دن میں دو سے تین بار خوراک کی متبادل ڈِرپ لگاتے تھے۔ بیماری کی وجہ سے میرا چِڑ چِڑا پن نہایت  خندہ پیشانی اور محبت سے برداشت کرتے رہے۔اپنی زندگی کے اس موقع پر میں اسامہ بھائی کا جتنا شکر گزارتھا، اب ہوں اور ہمیشہ رہوں گا اس کے لیے الفاظ میسر نہیں۔یہ سب خیال؛  آپ ایک بہت عالی صفت، للہ فی اللہ محبت ہی کے باعث رکھتے رہے۔ اسی خدمت کے سبب،آپ کی شہادت سے قبل مجھے کئی بار یہ خیال ہوا کہ کہیں آپ جلد شہید نہ ہو جائیں اور اس خیال کے آتے ہی میں آپ کی لمبی عمر کے لیے دعا گو ہو تا۔ لیکن وہ مجاہدین کے ہاں ضرب المثل ہے کہ ’’خدمت سے خدا ملتا ہے‘‘، تو یہ ضرب المثل آپ پر پوری ہو گئی۔ میں آپ کے مشہد سے کافی دُور تھا۔ جب ڈرون حملے کی اطلاع ملی تو میرے ذہن میں آنے والے خیالات میں سے پہلا خیال یہ تھا کہ ’’اُسامہ بھائی گئے۔۔۔ ربّ کی جنتوں کی طرف گئے۔۔۔‘‘ آپ کی شہادت کی اطلاع تو تقریباً ایک ہفتہ بعد موصول ہوئی۔ میں بھی دِل تھامے منتظر تھا کہ آپ کا نام آئے گا۔۔۔ اور قرعہ نکل آنے کی خبر ملی۔۔۔ اِنّا للہ و اِنّا الیہ راجعون!
’’ہماری‘‘پاک فوج ابھی اپنے چہرے پر افغان طالبان سے ’’دوستی اور تعاون‘‘ کا حسین نِقاب اوڑھے ہوئی تھی کہ جب آپ نے پہلی بار کسی عسکری کارروائی میں حصہ لیا۔ پاک افغان بارڈر کے قریب واقع ایک امریکی کٹھ پتلی،افغان فوج کے کیمپ پر حملے کے دوران پاکستانی فوج نےہیوی مشین گنوں(Heavy Machine Guns)سےمجاہدین پر حملہ کر دیا۔ایک مجاہد بھائی نے مجھے بتایا کہ اُسامہ بھائی نے نہایت معصومیت سے پوچھا کہ یہ کون فائر کر رہا ہے؟ تو انہیں بتایا گیا کہ ’’پاک‘‘ فوج۔۔۔ آپ نے اگلا سوال بھی نہایت معصومیت سے کیا کہ یہ ہمیں کیو ں مار رہے ہیں(حالانکہ ہم تو افغان ملی فوج سے لڑ رہے ہیں اور پاک  فوج تو خود کو افغان مجاہدین کا حامی اور امریکہ اور اس کی مقامی کٹھ پتلی افغان ملّی فوج کا دشمن بتلاتی ہے؟)
شاید اسی کارروائی کے بعد آپ کو پتا چلا کہ ’’ہماری‘‘ پاک فوج، ہماری حفاظت پر نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے مفادات کی حفاظت پر مامور ہے اور اس ڈیوٹی کو سر انجام دینے کے لیے اگر انہیں مجاہدین فی سبیل اللہ کو بھی قتل کرنا پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرتے۔کچھ عرصہ میدانِ جہاد میں گزارنے کے بعد (جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا) جب آپ اپنے علاقے میں واپس لوٹے تو وہاں آپ نے ’’پاک‘‘ فوج سے متعلق علمائے کرام کے فتاویٰ دیکھے اور پاکستانی فوج کے کردار پر تحقیق کی جس سے آپ پر اس امر کی وضاحت ہوئی کہ،بالاصل ’’پاک‘‘ فوج کس کی فوج ہے۔ بالآخر آپ کی شہادت کا باعث بھی یہی ’’پاک‘‘ فوج بنی۔
آپ لوگوں نے’’Reporting from the frontline‘‘ کی اصطلاح شاید سنی ہو۔ یہ ایک پیشہ ورانہ صحافتی اصطلاح ہے۔اس کا مطلب ہے کہ دورانِ جنگ ، صفِ اوّل سے جنگ کی رپورٹنگ کرنا۔اس انداز سے رپورٹنگ کرنے کو صحافتی دنیا میں بہت زبردست اور بلند ہمتی والا کام سمجھا جاتا ہے۔لیکن اس کے باوجود، چند ایک صحافیوں کے علاوہ (جن کی تعداد بہت ہی قلیل ہے) فرنٹ لائن سے رپورٹنگ بھی حکومتی و فوجی انتظامیہ کے ساتھ رہ کر ہی کی جاتی ہے، جس میں جان کسی حادثے کے باعث جانا کافی مشکل ہوتا ہے۔مگر ایک رپورٹنگ اُسامہ بھائی بھی کر رہے تھے۔
اُسامہ بھائی ایک ظالم اور طاقت ور دشمن کے خلاف حق اور سچ کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔اپنی مظلوم امت کی آواز دنیا تک پہنچا رہے تھے۔ وہ ایک اعلام کے شہسوار تھے۔ وہ بمباریوں، شہادتوں اور کارروائیوں کی ویڈیو ریکارڈ کرنے کے لیےنہایت آگے رہتے۔ آپ کیمرہ استعمال کرنے کے فن میں کافی ماہر تھے اور اپنی استعداد و صلاحیت بڑھانے کے لیےمستقل کوشاں۔کہیں سے کوئی خبر ملتی آپ اپنا کیمرہ لیتے، موٹر سائیکل موجود ہوتا تو اس پر ورنہ پیدل ہی واقعہ کی جگہ پر پہنچ جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستانی فوج میران شاہ شہر کے گرد متصل مقامی آبادیوں پر بمباری کر رہی تھی اور ہم سب ساتھی میران شاہ بازار میں گھرے ہو ئے تھے ایسے میں اسامہ بھائی ہی وہ پہلے ساتھی تھے جنہوں نے آگے بڑھ کرامیر صاحب سے ویڈیو ریکارڈنگ کے لیے جانے کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے پر آپ اولاًبازار کی ایک اونچی عمارت پرریکارڈنگ کے لیے چڑھے، اس حال میں کہ دشمن کے کوبرا ہیلی کاپٹر فضا میں نیچی پرواز کر رہے تھے اور فوجی برجوں اور چوکیوں سے سیدھی فائرنگ کی جار ہی تھی۔ جب اسامہ بھائی اس عمارت پر چڑھے تو فوجی نشانہ بازوں(snipers)نے آپ پرفائر کیا۔۔۔ گولیاں آپ کے دائیں بائیں سے گئیں۔۔۔ اور اس میں کچھ بھی مبالغہ نہیں۔
عمارت سے اترنے کے بعد آپ بازار کے قریب ہی واقع ’’ماچس‘‘ نامی بستی کی جانب روانہ ہو گئے۔ اس وقت فوج عین اس جگہ پر زمینی طور پر، اپنے ہلکے بھاری ہتھیاروں اور ٹینکوں سمیت موجود تھی۔ آپ نے وہاں بمباری، شہیدمساجداور لوگوں کے مسمار گھروں (جنہیں بلڈوزروں سے مسمار کیا گیا تھا)کی ریکارڈنگ کی۔ اس کے بعد کافی دیر تک اندر ہی موجود رہے اور فضا مستقل فوجیوں کی گولیوں کی گھن گرجسے آلودہ ہو رہی تھی۔اس عالم میں، مَیں نے اسامہ بھائی کو مخابرہ (وائرلیس سیٹ) پر کئی بار کہا کہ آپ واپس لوٹ آئیں وہاں خطرہ ہے۔۔۔ مگر آپ اس وقت تک نہ لوٹے جب تک کام مکمل نہ کر لیا۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ، حبیبِ جاں سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ بلند ہمتی کے کاموں کو پسند فرماتے ہیں اور کم ہمتی کے کاموں کو ناپسند کرتے ہیں۔‘‘ (طبرانی)
یہ تھی اسامہ بھائی کی فرض شناسی کی ہلکی سی جھلک۔۔۔ جسے کوئی دام کا بندہ، پیشہ ور صحافی ادا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ Reporting from the frontline کا حقیقی مطلب مجاہدینِ اعلام ہی جانتے ہیں جو اللہ کی محبت سے سرشار، امت کی سربلندی کی خاطرمیدانِ جنگ میں اترتے ہیں اور اس وقت تک اپنے گھروں کو نہیں پلٹتے جب تک وہ شریعت یا شہادت میں س کسی ایک منزل کو نہ پا لیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ نفاذِ شریعت ہماری راہ کا سنگِ میل ہے اختتام نہیں۔ اختتام تو بس اللہ سے اس کے راستے میں قتل کی صورت ہی مانگتے ہیں کہ لاشۂ پامال پہچان میں بھی نہ آ سکے، اللھم اجعلنا منھم۔ شہسوارِ اعلام و میدان، مجاہد محمد اُسامہ شہید علیہ الرحمۃایسے ہی تھے کہ گھر نہیں گئے، سبز پرندے کے قالب کا روپ دھار کر جناتِ عدن سِدھار گئے۔
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
اس شبِ شہادت کا یہ چاند مالک کا انتخاب ٹھہرااور ہمارا ان کے بارے میں یہی گمان ہے اور حسیبِ اصلی تو اللہ کی ذات ہے۔ ذہن میں ابھی اسامہ بھائی کے متعلق بہت کچھ گردش کر رہا ہے لیکن لکھنے کی ہمت نہیں۔ اللہ نے چاہا تو باذن اللہ ان کی مزید یادیں اور باتیں بھی سپردِ قرطاس کروں گا۔ وما توفیقی الا باللہ۔
ان شاء اللہ ہمارے اسامہ بھائی کو ان جنتوں میں داخل کر دیا گیا ہو گا جس کی پہچان ان کو کرا دی گئی ہو، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ

’’۔۔۔ اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے، اللہ اُن کے اعمال کو ہرگز اکارت نہیں کرے گا۔ وہ انہیں منزل تک پہنچا دے گا، اور اُن کی حالت سنوار دے گا، اور اُنہیں جنت میں داخل کرے گاجس کی انہیں خوب پہچان کرا دی ہو گی۔‘‘ (سورۃ محمد: ۴ تا ۶)
و آخر دعوانا ان الحمدللہ ربّ العالمین

0 Responses to “شبِ شہادت کاچاند”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ