جمعہ، 16 اگست، 2013
سیلاب سے متاثرہ ،پاکستان کے مسلمانوں کی امداد کیسے کی جائے؟
شہیدِ
امت،اسامہ بن لادن رحمہ اللہ
رمضان ۱۴۳۱ ھ(۲۰۱۰ء)
ان الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا وسیئات
اعمالنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ہادی لہ واشہد الا الہ الا اللہ
وحدہ لا شریك لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ
اما بعد:
اے میری محبوب امت مسلمہ! ــــــــ السلام علیكم ورحمۃ اللہ وبركاتہ
میں آپ كو رمضان كے مبارك مہینے كی
مبارک باد پیش كرتا ہوں۔ رمضان ماہِ قرآن
ہے۔ یہ قیام اللیل كو طول دینے كا مہینہ ہے۔ یہ صدقات كا اور جہاد
كا مہینہ ہے۔ پس ہمیں چاہیے كہ ہم خوب شوق وشغف سے عبادت كریں۔ اور چاہیے كہ ہر اس چیز سے بچیں جو ہمیں اللہ
سبحانہٗ وتعالی كے ذكر سے غافل كردے۔
میرے مسلمان بھائیو!ـــمسلمان ممالك كے بہت سے علاقے آج کرۂ ارض میں زبردست
موسمی تبدیلیوں اور ان کے تباہ کن اثرات
سے متاثرہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال
یہ بتا رہی ہے کہ امدادی سرگرمیوں كے روایتی انداز ان تباہیوں کا مداوا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ خیموں،
اشیاء خورد ونوش اور دواؤں کی مناسب ترسیل تو ضروری ہے ہی مگر توجہ طلب بات یہ ہے
کہ انتہائی قلیل پیمانے پر کی جانے والی امدادی سرگرمیاں ان عظیم مصائب میں ہرگز
کافی نہیں۔ اس لحاظ سے بھی کہ کتنی مقدار
میں اور کس قسم کے سامان کی فراہمی درکار ہے
اور اس لحاظ سے بھی کہ یہ سامان متاثرہ علاقوں میں بروقت کیسے پہنچایا جائے؟
حالیہ موسمی تبدیلیوں نے بہت بڑی
تعداد میں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے
اور اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ ابھی مزید بڑی تباہی آنے کو ہے۔ اس لئے ہمیں
امدادی سرگرمیوں كے مروجہ طریقوں میں زبردست بہتری لانی ہوگیـــ کیوں کہ متاثرین کی تعداد جنگوں سے متاثرہ افراد كی
تعداد سے كہیں زیادہ ہے جن كے لئے مختلف ممالك اپنی افواج میں سخت جان افراد كو
بھرتی كرتے ہیں، انہیں بہترین پیشہ وارانہ تربیت دیتے ہیں اور اس كے لیے اپنے بجٹ
كا بہت بڑا حصہ مختص كرتے ہیں۔
مشرقِ وسط کے ممالك اپنی افواج پر
سالانہ ایك كھرب (1000,000,00,000) یورو سے زیادہ خرچ كرتے ہیں جس سے مظلوم فلسطینی عوام کے زخموں
کا کوئی مداوا نہیں ہوتا۔ اس کی نسبت امدادی سرگرمیوں كو ہمیشہ بالکل ثانوی حیثیت دی
جاتی ہے۔ دونوں مقاصد کے لیے خرچ کی جانے والی رقوم کا قطعاً كوئی موازنہ ہی نہیں
کیا جا سکتا۔ صرف گزشتہ دہائی كے دوران اگر ان كے بجٹ میں سے محض ایك فی صد بھی امانت
داری اور مہارت کے ساتھ امدادی سرگرمیوں پر خرچ كیا جاتا تو غربت کی شکار اس زمین
كا نقشہ ہی بدل جاتا اور آج حالات بہت بہتر ہوتے۔
افریقہ میں تیزی سے پھیلتی ہوئی خشك
سالی اور دوسرے علاقوں میں آنے والے تباہ
کن سیلابـــ جس میں حالیہ مثال پاکستان کی ہےـــ جس نے محض چند دنوں كے اندر كئی ہزار افراد كو لقمۂ اجل
بنا دیا ہے اور لاكھوں کو گھر بار سے محروم کر کے مفلوک الحال کر دیا ہےـــ یہ حالات رحم دل
انسانوں اور پرعزم مردانِ كار سے تقاضا كرتے ہیں
كہ وہ پاكستان میں اپنے مسلمان بھائیوں كی امداد كے لئے سنجیدگی سے اور تیزی سے اقدام كریں۔
یقیناً مصیبت اتنی بڑی ہے كہ زبان اس كے بیان سے قاصر ہے اور اس سے نبرد
آزما ہونے كے لئے زبردست وسائل كی ضرورت ہے۔ اور ان حالات کی شدت کو جاننے کے لیے آپ
میں سے کچھ افراد كو متاثرہ علاقوں کا بچشمِ خود جائزہ لینا چاہئے۔
میں نے ایك ایسے مسلمان پاكستانی بھائی كو دیكھا
جس كو سیلاب نے سینے تك ڈبو ركھا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے دو پانچ
چھ سالہ بچوں كو اٹھایا ہوا تھا ۔ كیا آپ تصور كرسكتے ہیں كہ اس كے باقی بچوں پر
كیا بیتی ہوگی؟ اور پھر كیا آپ نے ان عورتوں كی فریاد كو نہیں سنا جو آپ سے اللہ
سبحانہٗ وتعالیٰ كا واسطہ دے كر سوال كررہی
ہیں۔ مسلمانانِ پاكستان كی امداد پر قدرت ركھنے والے ہر شخص پر لازم ہے كہ
وہ مسلمانوں كی جانوں كی عظمت كا احساس اپنے اندر اجاگر كرے۔ لاكھوں بچے پینے کے
صاف پانی اور زندگی كے لئے دیگر ناگزیر ضروریات سے محروم كھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور انہیں خطرناك بیماریوں كا سامنا ہے۔ اور جسم
میں پانی كی قلت كے سبب بچوں میں ہلاكت كی
شرح اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ میں اللہ
تعالی سے دعا كرتا ہوں كہ ان كی مصیبت ان پر آسان كردے اور ان كی كمزوری وناتوانی پر رحم فرمائے۔ آمین۔
موسمی تبدیلیوں سے پیدا شدہ سانحے یكے بعد دیگرے تیزی سے واقع ہورہے ہیں اس لیے
تمام تر كاوشیں محض وقتی امداد دینے پر صرف کرنا کافی نہیں۔ بلكہ ایسا ممتاز
امدادی ادارہ قائم كرنا چاہیے جو كہ امدادی كام كے بارے میں معلومات، تجربہ اور
اتنی صلاحیت ركھتا ہو جو اسے ان ہولناك نقصانات کے مداوے كا اہل بنائے۔ اس ادارے
كو بھاری ذمہ داریاں اور اہم ترین كام ادا كرنے ہوں گےجس كے لئے کچھ مخلص افراد كی
یكجا كاوش كی ضرورت ہے۔ مثلاًـــآئندہ جملوں میں مَیں
ادارے كی چند ذمہ داریاں بیان کرتا ہوں:
اول
عالمِ اسلام میں نہروں کی اطراف میں اور نشیبی علاقوں
میں آباد بستیوں كے بارے میں تحقیقات كرنا
اور دیكھنا كہ موسمی تبدیلیوں سے وہاں كن كن مشكلات كا سامنا كرنا پڑسکتا
ہے۔ پچھلے عرصے میں جدّہ میں سیلاب سے جو تباہی پھیلی تھی وہ عین متوقع تھی، کیوں
کہ اس کی وجہ نہایت واضح اور سادہ تھی۔
وجہ یہ تھی كہ جدہ كا شہر بہت سے دیگر شہروں كی طرح نہ صرف دریا کے خشک ہو جانے والے كناروں پر آباد کیا گیا بلكہ بہت سی رہائشی اور
دیگر عمارتیں وادیوں كے نشیبی علاقوں میں قائم كی گئی ہیں جہاں سے پانی كا گزر
ہوتا ہے۔ یہاں میرا مقصود اس سانحے كے ذمہ داران کا تعین نہیں، یہ بیان کسی اور
موقع پر کیا جائے گا، میں یہاں حقیقی صورتِ
حال بیان كر رہا ہوں تاكہ سیلابوں سے پیدا ہونے والے سانحوں سے بچا جاسكے اور
انسانی زندگی كو در پیش خطرات كے حل مستقل
بنیادوں پر نكالے جاسكیں۔ اسی طرح تمام پل
اور بند محفوظ بنانے كے لئے وضع شدہ
ضابطوں پر دوبارہ غور و خوض كرنا ہوگا۔
دوم
جنگوں یا موسمی تبدیلیوں سے پیدا
شدہ قحط سالی كی لپیٹ میں آنے والے ممالك کی امداد کے لیے لازمی اقدامات کیے جائیں۔ چونكہ قحط سالی واقع
ہونے سے عموماً بہت پہلے ـــ ایک سال یا اس سے بھی
پہلے ـــ اس كی علامات ظاہر
ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور ضروری امداد فراہم كرنے میں تاخیر سے خاص كر بچوں میں بہت
زیادہ ہلاكتیں واقع ہوتی ہیں ۔ اور ان بچوں میں سے جو موت سے بچ بھی جائے وہ غذائی
قلت كی وجہ سے جسمانی اور ذہنی كمزوری سے نہیں بچ پاتا۔
سوم
متاثرہ اور غربت زدہ علاقوں میں
ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں۔ ایسے ترقیاتی منصوبے قائم كرنے كی بہت زیادہ گنجائش ہے جن كی لاگت مجموعی طور
پر كم ہوتی ہے۔ مثال كے طور پر ایسے ممالك میں نہروں اور ندیوں كا جال بچھانا جہاں موسمی دریا زیادہ بہتے ہیں جیسے كہ سوڈان، شاد(چاڈ)،
صومالیہ اور یمن ۔
ایك سابقہ سروے كے مطابق سوڈان میں
صرف ایك ندی دسیوں ہزار ایكڑ كو سیراب
كرسكتی ہے جس كامطلب دسیوں ہزار لوگوں كو مدد فراہم كرنا ہے۔ جبكہ چھوٹی بڑی
ندیوں كے اس جال كی لاگت دو لاكھ پچاس
ہزار (250000) یورو ہے۔ اور اگر
یہ تعمیراتی سامان قریب سے بہم پہنچے تو یہ لاگت گھٹ بھی سکتی ہے۔
چہارم
خوراک کی حفاظت كو یقینی بنانا۔تحقیقات
بتا رہی ہیں كہ اگر دنیا میں گندم برآمد كرنے والے بڑے ممالك میں سے مزید كوئی ایك اور ملك ایسی مشكلات میں
مبتلا ہوجائے جس سے اس كی برآمدات رک
جائیں تو دنیا كی بہت سی اقوام، خاص كر ہمارے علاقے، جان لیوا قحط سالی كی لپیٹ میں
آجا ئیں گے۔ جان لیوا سے مراد واقعی جان لیوا ہے۔ جب ان كی بنیادی غذا “روٹی” ہی
نایاب ہو تو اُس وقت پیسہ بھی لوگوں كی قاتل بھوك
كو ختم نہیں كرسكے گا ۔ سوڈان میں بارانی زرعی علاقہ اندازا ً بیس
كروڑ (200000000) ایكڑ ہے جس میں سے نہایت كم علاقے پر كاشت كی جاتی
ہے۔ لوگوں كو ان خطرات سے آگاہ كرنے كی ضرورت ہے۔ تاجر برادری اور سرمایہ دار
خاندانوں كو اس پر آمادہ كرنا چاہیےكہ وہ اپنی اولاد میں سے چند كو امدادی
سرگرمیوں اور زراعت كے لئے وقف كریں۔ كیونكہ امت پر آنے والی متوقع ہولناك قحط
سالیوں سے بچنے كے لئے تاجر حضرات ہی نمایاں
کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ لہذا توجہ اس جانب مركوز ہونی چاہئے اور ایسی سرمایہ
كاری سے بچنا چاہیے جو امت کے لئے بے سود
ہو۔
ان حالات میں اس بات سے ماورا ہو
کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دیگر جگہوں كی نسبت زراعت میں سرمایہ لگانے میں محنت
زیادہ اور منافع كم ہے۔ آج مسئلہ منافع اور خسارہ كا نہیں بلكہ زندگی اور موت كا ہے۔ اس بات كا خیال ركھتے ہوئے
كہ زرعی سرمایہ كاری كے میدان میں داخل ہونے كے لئے بصیرت کی ضرورت ہے۔ ایسے باہمی معاہدوں كی ضرورت ہے جس میں
سرمایہ كار كے حقوق كی ضمانت ہو اور جو اس كے كام میں ركاوٹ نہ بنیں۔ ہم جانتے ہیں
كہ کامیاب سرمایہ كاری كے اہم ترین اصولوں میں سے ایك اس کا آزاد ہونا ہے۔ یعنی جس ملك میں سرمایہ كاری ہو
رہی ہو اس كی حكومت كا سرمایہ كاری كے
انتظام میں كوئی عمل دخل نہ ہو۔
افریقہ میں سرمایہ كاری كے كئی تجربے حوصلہ افزا
بھی رہے اور كئی اس كے برخلاف بھی ۔ یہ معاملہ اس بات پر منحصر ہے کہ جن ممالك میں
سرمایہ كار ی كی جارہی ہو ان کی عوام کے مزاج کو سمجھا جائے۔ ان میں سے بعض لوگ
ایسے بھی ہیں جو كئی وجوہات كی بنا پر اپنے ممالك سے باہر سرمایہ كاری میں نمایاں
ہیں۔ ان وجوہات میں سے ان كا بیرونی عناصر كے ساتھ مل كر كام كرنے کی صلاحیت بھی
ہے۔ اور اگر اہم تنظیمی و کاروباری امور کے فیصلے ان كے اپنے ہاتھ میں ہوں تو وہ مختلف
شراکتوں میں شامل ہو کر اندرونِ ملك بھی نمایاں
کام سر انجام دے سکتے ہیں۔
پنجم
مسلمانوں كو زیر زمین محدود پانی
كے ذخائر كو زرعی مقاصد كے لیے استعمال كرنے كے خطرات سے آگاہ کیا جائے۔زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے پانی کے ذرائع
کو پینے کے پانی کے کنوؤں سے ملانے کا انتظام ہونا چاہیے تا کہ بوقتِ ضرورت پینے کا پانی مہیا کیا جا سکے۔
آخر میں مَیں اپنے مسلمان بھائیوں
كو تاكید کرتا ہوں كہ وہ خیر كے كاموں میں
حصہ لیں اور كمزور اور لاچار افراد كی
امداد اور ان كی مشكلات كو كم كرنے كے لئے مقدور بھر کوشش كریں۔ كیونكہ نبی ﷺ کی حدیث کے
مصداقـــ جو كسی مؤمن كی دنیاوی مشكلات میں سے كسی مشكل كو آسان
كرتا ہے اللہ اس كی قیامت كی مشكلات میں سے كسی مشكل كو آسان كرتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں
چاہیے كہ ہم اس دن كے لئے کچھ آگے بھیجیں اور اللہ سبحانہٗ وتعالی كی اس آیت پر
غور وفكر كریں:
وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ
اللَّهِ هُوَ خَيْراً وَأَعْظَمَ أَجْراً وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ
رَّحِيمٌ{المزمل ۔۲۰}
“اور جو نیک عمل تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اس کو الله کے
ہاں بہتر اور صلے میں بزرگ ترپاؤ گے اور الله سے مغفرت طلب كرتے
رہو۔ بے شک الله مغفرت كرنے
والا اور رحم كرنے والا ہے۔”
میں اللہ
، صاحبِ عظمت، عرشِ كریم كے رب سے مسلمانوں كے تمام شہداء كی مغفرت كا سوال كرتا
ہوں جو معركوں كے دوران اللہ كی راہ میں جہاد كرتے ہوئے مارے گئے ہوں یا سیلاب كی طغیانی میں ڈوب كر مرے ہوں۔ اللہ
ان كی قبروں كو كشادہ كرےاور انہیں اپنی
جنت میں داخل كرے۔ وہی ان كے بعد ان كے خاندانوں كا ركھوالا ہو اور ان كے پسماندگان كو اس مصیبت كے بدلے بھلائی سے نوازے ۔ یہ معاملہ
اللہ ہی كے سپرد ہے اور وہی اس پر قادر ہے۔
اللهم إني أعوذ بك من زوال نعمتك وتحول عافيتك وفجأة نقمتك وجميع سخطك.
اے اللہ!میں تیرے انعامات كے ختم ہوجانے سے،
تیری عافیت كے پھر جانے سے ، تیری اچانك پكڑ سے اور تیرے تمام غضب سے تیری ہی پناہ
میں آتا ہوں۔
اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار.
اے اللہ!
ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی
بھلائی عطا كر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا كر اور ہمیں آگ كے عذاب سے بچا۔
وصلی اللہم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “سیلاب سے متاثرہ ،پاکستان کے مسلمانوں کی امداد کیسے کی جائے؟”
ایک تبصرہ شائع کریں