جمعہ، 16 اگست، 2013
سیلاب سے متاثرہ،اپنے پاكستانی بھائیوں كی مدد كیجئے!
پاکستان میں ۲۰۱۰ء کے طوفانی سیلاب پر مجاہد شہید اسامہ بن
لادن رحمہ اللہ نے یہ بیان جاری کیا، جس کو جماعۃ القاعدہ کے میڈیا ونگ ’’السحاب‘‘
کی طرف سے نشر کیا گیا۔ اُس بیان کا اردو متن پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر
میں پیش کیا جارہا ہے۔(ملحمہ بلاگ)
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علیٰ نبینا محمد وعلیٰ آلہ
وصحبہ ومن والاہ
اے میری امت
مسلمہ!
السلام علیكم ورحمۃ اللہ وبركاتہ ۔ وبعد
میری گفتگو
كا موضوع پاكستان میں سیلاب كا سانحہ ہے۔ جس پر توجہ دینے سے ہزاروں پاكستانی بچوں كی زندگی كو بچایا جاسكتا ہے اور اللہ
كی توفیق سے جہاں تك ممكن ہے اس کے نقصانات كو كم كیا جاسكتا ہے۔ پاكستان میں
سیلاب كا حجم بہت ہی بڑا ہے اور اس كے بعد پیدا ہونے والی مشكلات لگاتار بڑھتی ہی
جا رہی ہیں۔ لاكھوں مسلمان سخت ترین
آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ اور دسیوں ہزار كے مر جانے كا خدشہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے
تھا كہ اس سانحے كے حجم كے مطابق ابتدا میں ہی بڑے پیمانے پر كوششیں شروع ہوجاتیں۔
خاص كر تركی، خلیجی ریاستیں اور ملائیشیا
جیسے صاحبِ ثروت ممالك كے جانب سے۔ مگر افسوس ناك حقیقت یہ ہے كہ سانحے كے
حجم اور اس كے لئے كی جانے والی امدادی سرگرمیوں كے درمیان كوئی تناسب ہی نہیں۔
اس معاملے
میں ذرائع ابلاغ كی جانب سے بھی واضح تقصیر دكھائی دیتی ہے۔ سیلاب کی حقیقی صورتِ
حال پیش کرنے کی کوئی کوشش سانحے کی شدت کے مطابق نہیں ہے ۔ ہم اس مسئلے میں ان
چینلز پر ملامت نہیں كررہے جن کی کل کوششیں حكمرانوں كی تقدیس اور ان كے لئے
اشتہار بازی كے گرد گھومتی ہیں۔ ان كا تو كام ہی یہی ہے۔ ایسے عظیم سانحوں میں
جانوں كے بچانے میں ان كا حصہ اشتہاری بازی كے علاوہ كچھ نہیں۔ مگر وہ ابلاغی ادارے جو اپنی ذمہ داریاں ادا
كرنے كے حریص ہیں، کم از کم ان کو تو چاہیے تھا كہ وہ اس ضمن میں اپنی کوششوں كو
حادثہ كی شدت کے بقدر بڑھاتے۔ دو كروڑ (20،000،000۔ بیس ملین) مسلمانوں پر یكایك
مصیبت ٹوٹ پڑی۔ كروڑ كے لگ بھگ كو
بالواسطہ نقصان پہنچا،كیونكہ پاكستان كی سرزمین كا جو پانچواں حصہ زیرِ آب
آیا وہ زرخیز ترین زرعی علاقہ تھا۔ اور اس كے سبب مستقبل میں غذائی اجناس میں شدید
قلت اور قحط پیدا ہوگا۔
چونكہ یہ
سانحہ اس صدی میں پیدا ہونے والے سانحوں میں سب سے بڑا ہے، تو ہونا تو یہ چاہیے
تھا كہ اقوام عالم كے بڑے رہنما اور ذرائع ابلاغ كے بڑے ادارے براہِ راست اس کے
نقصانات کا مداوا کرتے ۔ مگر یہ نہ ہوا۔ كیا اقوام ِ عالم كے رہنماؤں كو یہ زیب
دیتا ہے كہ سانحے كے ایك ماہ بعد بھی پاكستان كا دورہ كرنے میں مغربِ بعید سے اٹھ
كر آنے والا جنرل سیكرٹری ان سے سبقت لے جائے ۔ حالانكہ اس جنرل سیكرٹری كی تنظیم ہماری
امت كے ساتھ دشمنانہ موقف ركھنے میں مشہور
ہے۔ ایسا شخص جس كا مسلمانانِ پاكستان سے نہ دین كا واسطہ ہے نہ نسب كا ۔
وہ تو بعض متاثرہ علاقوں كا ہوائی دورہ كركے اپنی ڈیوٹی كا حق ادا كرنے آیا
تھا۔اتنی آفت دیكھ كر ہی دہشت زدہ ہوگیا اور بیان دیا كہ اس نے اپنی زندگی بھر میں
ایسی مصیبت نہیں دیكھی۔ مگر اس كے مقابلے میں عرب رہنماؤں میں سے كوئی بھی نہیں
آیا۔ حالانكہ مسافت بھی كم ہے، بھائی چارے
كا دعویٰ بھی ہے اور ان میں سے بعض كے تو پر امن
حالات میں پاكستان كے بكثرت چكر لگتے ہی رہتے ہیں۔
اے میری
امت مسلمہ!
ایك مسلمان
جان كا ـــ
وہ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا
بڑا ـــ
اللہ تعالیٰ كے یہاں بہت بلند
مقام ہے۔ ہم پر لازم ہے كہ ہم اس بلند مرتبہ كا خیال ركھیں۔ متعلقہ ادراوں كی
رپورٹیں تو دسیوں ہزار بچوں کی ہلاکت كا اندیشہ بتا رہی ہیں۔ جس كا مطلب یہ ہے كہ
اگر امت كو سانحہ كے حجم كا ادراك نہ ہوا اور اس بات كا ادراك نہ ہوا كہ نقصانات
کا مداوا کرنے میں كتنی بڑی غفلت برتی جا رہی ہےتو ایک كثیر تعداد میں مسلمان
جانیں حكومت ِ پاكستان اور عالم اسلام كی
مال دار حكومتوں کی موجودگی میں ضائع ہوجائیں گی۔ سنے اور دیكھے بغیر کیسے یہ
ادراك ہوسكتا ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا كہ روزانہ زمینی تصویریں اور جہازوں كے
ذریعے سے ہوائی تصویریں كھینچی جاتیں، دریاؤں میں طغیانی كا تعاقب كیا جاتا اور اس
وقت تصویریں كھینچی جاتیں جب پانی ان کے كناروں پر آباد بستیوں اور عمارتوں كو غرق كررہا تھاـــ پاكستان كے شمال سے لے كر جنوب تكـــ جہاں دریا سمندر میں مل جاتا ہے۔ تاكہ سیلاب
كا حقیقی حجم ہر زاویے سے اور اپنے تمام تر اثرات سمیت امت کے سامنے آتا۔ تب ہی
ممکن تھا کہ زندگی كے تمام بنیادی شعبوں كو درپیش مسائل کی شدت لوگوں پر واضح ہوسکے۔ اور تب ہی ان شعبوں سے متعلقین كی مدد ممکن تھی
كہ ان میں سے ہر كوئی اپنی ذمہ داری جان کر اسے كما حقہٗ ادا كرسكےـــ
جیسے:
- فوری امداد كا شعبہ جو سیلاب میں پھنس جانے والوں کوـــ یا ان لوگوں كو جن كے پھنس جانے كا اندیشہ تھاـــ بچانے كا اہتمام كرتا،
- صاف پانی اور غذا کی فراہمی کا شعبہ،
- رہائش اور خیمے فراہم کرنے والاشعبہ،
- طبی امداد اور نفسیاتی بحالی كا شعبہ،
- زرعی امور اور اس كے لوازمات كا شعبہ،
- یا اس سانحے سے متعلقہ انجنیئرنگ اور تعمیرات كا شعبہـــ تاكہ وہ شاہراہوں، پلوں اور بندوں كی سلامتی اور حفاظت كے لئے وضع كردہ اصول وضوابط كا از سر نو جائزہ لیتا۔
اسی طرح
ممكن تھا كہ ہم آئندہ كے لئے سبق حاصل كرتے اور احتیاطی تدابیر اپناتے اور مستقبل
میں اس قسم كے حادثے پیش آنے كی صورت میں بہتر طور پر صورتِ حال سے نمٹنے كی
صلاحیت پیدا كرتے۔ ان علاقوں كے لیے بھی اور اس كے علاوہ دیگر علاقوں كے لیے بھی
جن كے باسی دریاؤں اور نہروں كے كنارے بستے ہیں۔ حكمرانوں كو چاہیے كہ وہ آفت زدہ
علاقوں كے دورے كریں تاكہ وہ اپنے اپنے ممالك میں دریاؤں كے كنارے بسنے والے افراد
كے بارے میں ابھی سے محتاط ہوجائیں۔ انہی تدابیر سے عوام الناس كو معلوم ہونا تھا كہ آیا دنیا كے
ممالك نے واقعی سنجیدگی سے ایسی امداد كی جو ان كے دیكھے ہوئے حالات سے مناسبت
ركھتی ہے یا معاملہ كچھ اور تھا۔
اے میری
امت مسلمہ!
نقصانات کے
مداوے میں غفلت كی بنیادی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو قانون سازی،
انتظامیہ اور عدلیہ كے تمام تر اختیارات پر قابض ہیں۔ وہ اللہ كی شریعت سے ہٹ كر
قانون سازی كرتے ہیںـــ ان ججوں كو معزول
كرتے ہیں جو اللہ كے دین كے موافق كوئی ایسا فیصلہ یا فتویٰ دیں جو حكمران كے دین كے مخالف ہو۔
انتظامیہ كے اختیارات بھی حكمران كی ذات کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ یہاں تك ذرائع
ابلاغ كے بیشتر اختیارات پر بھی وہی قابض ہیں۔ اور جواب تو ذمہ دار سے ہی مانگا
جائے گا۔مزید یہ کہ انہوں نے عوام کی
امدادی سرگرمیوں پر ایسی ظالمانہ
اور جابرانہ پابندیاں لگائی ہیں جن كا انہیں واشنگٹن سے حكم ملا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس
كا اطلاق واشنگٹن پر نہیں بلكہ مفلوك الحال مسلمانوں پر ہی پڑتا ہے۔
خلاصتاًـــ پہلی بات یہ کہ دنیا میں ایسے عظیم موسمی
تغیرات واقع ہو رہے ہیں جن میں متاثرین كی تعداد
جنگوں سے متاثرین كی تعداد سے كہیں زیادہ ہوتی ہے۔ كئی ابلاغی اداروں كے
ہاں جنگ زدہ علاقوں میں خدمات انجام دینے والے مخصوص صحافی ہوتے ہیں۔ تو چاہیے تو یہ كہ ہر بڑے چینل
کے پاس ہنگامی حالات میں کام کرنے والے افراد پر مشتمل ایك باصلاحیت گروہ ہوـــ
جس میں منتخب کردہ ماہرین ہوںـــ خاص كر انتظامی امور، امدادی سرگرمیوں، طبی،
زرعی، تعمیراتی اور آبپاشی کے امور كے ماہرین۔ یہ گروہ کسی ایسے واقعے كی پہلی گھڑی
میں ہی حركت میں آئے تاكہ لوگوں كے سامنے آفت زدہ علاقے میں تمام شعبہ ہائے زندگی
كے بارے میں تمام زایوں سے ایك جامع تصویر پیش كرسكے۔ ان میں سے ہر كوئی اپنے شعبے
كے حوالے سے ایك علمی ، حقیقی اور تفصیلی تجزیاتی تحریر سامنے لائے اور آئندہ اس
قسم كے حادثات سے بچنے كےلئے آراء پیش كرے۔
اسی طرح
ایسے حادثات سے بچنے میںـــ اللہ كے حكم سےـــ یہ بھی ممد ومعاون ہوگا كہ پاكستان میں شمال
سے لے كر جنوب تك دریاؤں كے كناروں پر ریتیلی پشتیں تعمیر كی جائیں۔ اور اس میں
استعمال كیے جانے والے تعمیراتی سامان كے انتخاب کے لئے شاہراہوں كی تعمیر میں
اپنائے گئے انجینئرنگ كے اصولوں كو مد نظر ركھا جائے۔ یہ بتاتا چلوں كہ دریا كے
اصل دھارے كے دونوں جانب ریتیلی پشتوں كی تعمیر پر آنے والی لاگت، سیلاب سے ہونے
والے مادی خسارے کی محض دو فی صد ہے۔ (صرف مادی وسائل ـــ جانوں كے نقصان اور دیگر انسانی تكالیف کا تو
کچھ اندازہ کرنا بھی مشکل ہے)۔ ان پشتوں کی تعمیر کیـــ اور اس سے متعلقہ امور كی تفصیل اس شعبہ كے
ماہر انجنیئر وں سے كوئی مخفی نہیں۔ مثلاً یہ بات كہ ان پشتوں كی بلندی اور دریا
كے كناروں سے ان کا فاصلہ سیلاب كے بعد کی نئی زمینی صورتحال كے مطابق ہونا چاہیے۔
ایك اور
مسئلہ سے بھی خبردار رہنے كی ضرورت ہےـــ جو ہمیں لے ڈوبنے میں سب سے زیادہ بڑھ كر ہےاور امدادی
كاروائیوں كی قلت اور تاخیر كی وجوہات میں سے اہم تر ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے درمیان وسعت نظر پر مبنی
‘‘امتِ مسلمہ كی محبت ’’ كے بجائے تنگ
نظری پر مبنی ‘‘حب الوطنی’’ كو پروان چڑھا
رہے ہیں۔ جزیرۂ عرب كے مادی وسائل در اصل تمام مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔مسلمانوں كا
پٹرول مسلمانوں كے لئے ہی ہونا چاہیے۔ مگر صورتحال یہ ہے كہ یہ وسائل بغیر كسی حق
كے صرف كیے جاتے ہیں، غلط جگہوں پر استعمال ہوتے ہیں اور بے دریغ اور بلا روك ٹوك
خرچ كیے جاتے ہیںـــ ایسے حالات میں جب بہت سے مسلمان سیلابوں، قحط سالی،
بیماریوں، بھوك اور جہالت میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں جا پہنچے ہیں۔ ولا حول
ولا قوۃ الا باللہ۔
مطلوبہ
طریقے اور مطلوبہ تیز رفتاری سے مسلمانوں كی جانیں بچانے
كے لئے كئی بنیادی امور دركار ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
اول:
ایسے ادارے
کا قیام جو كہ ایسے حادثات سے بچنے اور نقصانات کا مداوا کرنے كا اہل ہو۔ اس ادارے
كو مہارت بھی حاصل ہو، امتِ مسلمہ كے لئے تڑپ بھی اور خونِ مسلم پر غیرت بھی۔یہ
اوصاف عام طور پر سركاری ملازمین كے یہاں تو ناپید ہیں مگر چند اللہ والے مردانِ
كار اس کام کے لئے تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ ان میں خیراتی و امدادی میدان میں كام
كرنے والے کچھ حضرات اور چند بڑے ادارے چلانے والے حضرات ہیںـــ جو اس میدان میں حسنِ تدبیر اور كام كو
بروقت انجام دینے میں نمایاں ہیں۔ اس معیار كے افرادـــاللہ كی مدد سےـــ ایسے ادارے تشكیل دینے اور ان كی نگرانی كرنے کی قدرت ركھتے ہیںـــ جو حادثات كے حجم كے اعتبار سے اپنی ذمہ
داریوں سے عہدہ برا ہونے كی صلاحیت ركھیں۔ یہ جانتے ہوئے كہ مسلمان ممالك میں یہ
قابلیت موجود ہے اور ان میں سے بعض كو خاص كر پاكستان میں كام كرنے كا وسیع تجربہ بھی
ہےـــ اس دور کا ـــ جن دنوں افغان مہاجرین كی امداد كی جاتی
تھی۔ ان میں سرزمینِ حرمین اور كویت كے ہلالِ احمر كے ذمہ داران بھی شامل ہیں۔
دوم:
بڑے پیمانے
پر مالی ذرائع كی دستیابی۔
سوم:
غیور اور بے
لوث كاركنان كی جماعتیںـــ جنہیں مسلمانوں
كی قیمت كا احساس ہو۔ اور ایسی بہت سی جماعتیں پاكستان میں پہلے سے ہی موجود ہیں ۔
چہارم:
ترك، عرب
،ملائیشین اور دیگر ممالك سے رضاكاروں كے
ایسے گروہ جو اپنے مسلمان بھائیوں كی
امداد كریں، ان كی دلجوئی كریں اور اس بات كی یقین دہانی كریں كہ تمام متاثرین تك
امدادی سامان پہنچ رہا ہے۔ اور وہ حادثہ كے حجم اور مسلمانوں كی تكالیف كی چھوٹی
بڑی تفاصیل كو دنیا كے سامنے ركھ سكیں تاكہ ان كا تدارك ہوسكے۔ یہ رضاكار ایسے
ہونے چاہئیں کہ انہیں خونِ مسلم كے مرتبے كا احساس ہو اور انہیں اپنے كام میں فنا
ہونے كےلئے یہ حدیث كافی ہو، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“بیوہ اور
مسكین كی دیكھ بھال كرنے والا اللہ كی راہ میں جہاد كرنے والے كی طرح ہے”۔ (متفق
علیہ)
اپنی بات
ختم كرنے سے پہلے میں اپنے مسلمان بھائیوں كو یاد دلاتا ہوں كہ انڈونیشیا،
ملائیشیا، بنگلادیش، مسلمانانِ ہند، كشمیر، پاكستان، افغانستان، عراق اور تركی جو
كہ نقشے میں ایك ہلال كی شكل میں جڑے نظر آتے ہیںـــ اور جو كہ امت مسلمہ كی آبادی كی اكثریت ہیںـــ وہی مشرق اور شمال كی طرف سے دشمنوں كے خلاف
امت كے دفاع میں صفِ اول تشكیل دیتے ہیں۔اللہ كے فضل وكرم سے، افغانستان كے
مسلمانوں نے تین دہائی قبل كمیونسٹ یلغار كو روكاـــ اور ان افغانی بھائیوں کو پاكستان ہی كے
راستے سے ہر قسم كی امداد پہنچتی تھی۔ اور
اللہ كے فضل وكرم كے بعد ان مسلم ہلالی ممالك كے ذریعے مستقبل میں آنے والی یلغاروں
كو بھی روكا جاسكتا ہےـــ چاہے جتنی بھی
ہوں۔
آخر میں
مَیں اللہ تعالی سے دعا كرتا ہوں كہ وہ مسلمانانِ پاكستان پر آسانی فرمائے۔ ان كے
بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں كی كمزوری پر رحم فرمائے اور اپنے بندوں كو توفیق دے کہ
ان كی مدد كے لئے ہاتھ آگے بڑھائیں۔ میں اللہ رب العزت سے یہ بھی دعا كرتا ہوں كہ
وہ ان كے مرحومین كی مغفرت كرے اور ان كے بیماروں كو شفایاب كرے۔ اور ان لوگوں كو
سرچھپانے كی جگہ میسر كرے جن كا كوئی آسرا نہیں۔ بے شك وہ اس پر قدرت ركھتا ہے۔
اللہہم آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب
النار۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “سیلاب سے متاثرہ،اپنے پاكستانی بھائیوں كی مدد كیجئے!”
ایک تبصرہ شائع کریں