بدھ، 28 اگست، 2013
شام پر امریکہ کی ممکنہ جارحیت
امریکہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف فوجی امداد کرے یا نہ؟ شام کی صورتحال پچھلے دو سالوں میں سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔
لاکھوں سنّی مسلمانوں کے قتل عام کے بعد جہاں ایک طرف دنیا بھر سے لوگ جہاد کی نیّت سے شام کا رخ کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف ایران، عراق کی شیعہ حکومت اور لبنانی شیعہ تنظیم حزب اللہ بھی جنگ میں ماضی کی خفیہ شمولیت کے برعکس اب کھل کر میدان میں اتر چکے ہیں ،جنہیں روس کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جس سے یہ خطرات مزید پختہ ہو گئے ہیں کہ جنگ کا دائرہ بڑھتے ہوۓ عراق، لبنان، اردن اور سب سے اہم اسرائیل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔ امریکہ اور اسرائیل کے لیے خطرے کی بات یہ سامنے آئی کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والا گروہ جبہۃ النصرہ شام میں بہت حد تک مضبوط ہو چکا ہے، جو صرف شام ہی میں شرعی حکومت کے نفاذ کی بات نہیں کر رہا بلکہ اسرائیل کے خلاف جہاد اور احیاۓ خلافت کا داعی ہے اور فری سیرین آرمی(جو شامی فوج سے باغی سنّی فوجیوں پر مشتمل ہے اور امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کسی مہم جوئی کا ارادہ بھی نہیں رکھتی بلکہ امریکہ سے امداد کی خواہاں ہے۔) باوجود امریکہ کی کوششوں اور میڈیا مہمات کے شامی عوام کی نمائندہ جماعت بن کر نہ ابھر سکی۔ شام کی اس پیچیدہ صورتحال نے امریکی انتظامیہ کو شدید تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ اور امریکہ میں یہ بحث ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائی کہ آیا امریکہ بشارالاسد کی حکومت کے خلاف مسلح اقدام یا اسلحہ کی مد میں امداد فراہم کرے یا نہ؟ امریکی فوج سے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈیوڈ بارنو کے خیال میں شام کے معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت امریکہ کے لیے سنگین غلطی ہو گی جبکہ عالمی امور کے ماہر مائیکل جے ٹویٹن کے مطابق باغیوں کو صرف اس وقت مسلح کرنا چاہیے جب بشارالاسد کی حکومت گر جاۓ تا کہ انہیں شام میں سرگرم جبہۃ النصرۃ اور اس کی فکر کی حامل دوسری جہادی جماعتون کے خلاف لڑایا جا سکے۔ تزویراتی و بین الاقوامی مطالعاتی مرکز کے ایڈورڈ لٹواک کہتا ہیں کہ امریکی مداخلت ایک غلطی ہو گی لیکن پھر بھی اگر انتظامیہ ضرورت محسوس کرتی ہے تو انہیں باغیوں کو مسلح کرنے کے لیے پانچ اصولوں پر عمل کرنا ہوگا:
۱۔ یہ جانیں کہ وہاں امریکہ
کے دوست کون ہیں؟(ان کے خیال میں ایسے لوگ بہت تھوڑی تعداد میں ہیں۔)
۲۔ سارا کام خود کرنے کے لیے تیار
ہوں(اُن کے مطابق مداخلت کی صورت میں امریکہ کو اپنے دستے بھی اتارنے پڑیں گے تاکہ
وہ عراق کی مانند یہاں بھی سنّی قبائل کو جہادی عناصر کے خلاف کھڑا کر سکیں۔)
۳۔ امداد کی مد میں کوئی بھی
ایسی چیز فراہم نہ کریں جسے واپس حاصل کرنے کی ضرورت محسوس ہو(یعنی کیمیائی
ہتھاروں کے استعمال اور فضائیہ کے جہازوں کو گرانے کے لیے کوئی مہارت یا مدد فراہم
نہ کریں۔)
۴۔ کسی بھی دوسری بڑی اور امریکہ مخالف قوت کو جنگ میں
گھسنے کا موقع نہ دیں۔(یعنی روس کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت کے بغیر مداخلت نہ
کریں۔)
۵۔ جنگ کے بعد کے منظر نامہ کے بارے میں ابھی سے اصول
طے کریں۔( یعنی بشارالاسد حکومت کے گرنے کی صورت میں فوری طور پر اپنی مرضی کی حکومت اور اس کا انتظامی
ڈگانچہ کھڑا کرنے کا انتظام کریں۔)
ان کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ شام میں امریکہ اگر مداخلت
کرتا ہے تب بھی اس کے حق میں یہ منفی اثر ہے کیونکہ اس صورتحال
میں دنیا تمام تر خرابی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہراۓ گی اور اگر امریکہ مداخلت نہیں
کرتا تو ایک تو عالمی امور امریکہ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے دوسرا شام میں
بشارالاسد کے بعد کس قسم کی حکومت وجود میں آتی ہے یہ ایک خطرناک معاملہ ہے۔(تحریر : عبد اللہ حفیظ)
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “شام پر امریکہ کی ممکنہ جارحیت”
ایک تبصرہ شائع کریں