ہفتہ، 6 جون، 2015

اقوام متحدہ اور بین الاقومی جمہوریت


شہید احسن عزیز رحمہ اللہ
آؤمل کے یہ ساری زمیں بانٹ لیں
تاکہ جمہور دنیا میں جتنے بھی ہیں
ہم میں اپنی پسند کے خدا چھانٹ لیں!

آؤ بیٹھیں سبھی ایک چھت کے تلے
سب برے اور بھلے
تاکہ بندہ و آقا کا ہرگز کسی کو پتہ نہ چلے!
ایک جیسے دِکھیں۔۔۔فرق باقی نہ ہو
مے کدہ تو سجے۔۔۔کوئی ساقی نہ ہو
اک نیا دور ہو، جام بے شور ہو
مل کے سارے پئیں
سب مزے سے جئیں
آؤ دنیا کو ایک ایسی تہذیب دیں
تاکہ ساروں کے غم غلط ہوسکیں!

تاکہ ساروں کے ہی غم غلط ہوسکیں!
کیوں نہ آزادیوں کو نئی شان دیں
آؤ انساں کو آئینِ انسان دیں
تاکہ جتنے ہیں یہ
ایک سے ہو رہیں
برتری کا کوئی بھی حوالہ نہ ہو
کوئی بے دین یا دین والا نہ ہو
آؤ ایسی شریعت کو نافذ کریں
تاکہ انساں کو انساں کی پہنچان دیں!

تاکہ انساں کو انساں کی پہنچان دیں!
آؤ ہم آگہی کا اجالا کریں
آؤ جمہور کا بول بالا کریں
 تاکہ جتنے ہیں یہ
ہم اِنھیں مان لیں
یہ ہمیں مان لیں!
ہم کہ انسان ہیں گو۔۔۔ خوش ادا بھی تو ہیں
ساحلو ں پر سہی۔۔۔ ناخدا بھی تو ہیں!
امن کی کشتیاں۔۔۔ دُور و نزدیک میں بھیجتے ہیں ہمِیں
اپنے نوٹوں سے ہم۔۔۔ قحط والوں کو روٹی کھلاتے بھی ہیں
اپنے ووٹوں سے ہم۔۔۔ حریت (جس کو چاہیں) دلاتے بھی ہیں!
اپنے ویٹو سے ہم۔۔۔ مارتے ہیں کسی کو جلاتے بھی ہیں
ناخدا ہی نہیں۔۔۔ ہم خدا بھی تو ہیں!
کچھ نہ کچھ دوسروں سے جدا بھی تو ہیں
گرچہ اُترے ہیں انسان کے روپ میں
اس کڑی دھوپ میں
ہم بڑی دور سے
چرغِ جمہور سے
تاکہ لوگوں کو ہم باخدا کرسکیں!

تاکہ لوگوں کو ہم باخد ا کرسکیں!
تاکہ حقِ نمک یہ ادا کرسکیں
جان ایمان ہم پہ فد اکرسکیں
آؤ جتنے ہیں یہ
ڈالروں میں اِنھیں تول دیں
ان کو سرمائے کی منڈیاں کھول دیں
سو زمانے میں جو
آج سرمائے کی برتری کو نہیں مانتا
دَھن کو اپنا خدا  جو نہیں مانتا
بستیوں میں نہیں اُس کو رہنے کا حق!
آؤ ایسوں کو ہم
دُور و یراں جزیروں کی تنہائیوں کی طرف موڑ دیں
تنگ پنجروں میں گلتا ہو ا چھوڑ دیں
تاکہ اہلِ جہاں چین سے جی سکیں

تاکہ اہلِ جہاں چین سے جی سکیں
آؤ ہم امن کو آج پھر سے نئی ایک تعبیر دیں
نفرتوں کی کتابوں بہادیں سبھی
آشتی کی نئی ایک تصویر دیں
موت کی آرزو کا گلہ کاٹ دیں
زندگی کی محبت کو شمشیر دیں
ہر "فسادی" کو دنیا میں تنہا کریں
ہر "مہذب" کو بستی میں توقیر دیں
عرش سے فرش پر
یہ جو تقسیم اُتری ہے انسان کی
اپنے اور غیر کی
شر کی اور خیر کی
جس نے کاٹا ہے انساں کو انسان سے
اس کی جڑ نوچ دیں
آؤ دنیا کو اِک عالمی سوچ دیں
تاکہ کارِ جہاں بھی یہ چلتا رہے

تاکہ کارِ جہاں بھی یہ چلتا رہے
اور تمدن کا پودا بھی پھلتا رہے
آؤ ہم 'مقتدر' اور 'مخالف' کے عنوان لوگوں کو دیں
تاکہ جتنے ہیں یہ
اِک سے مصروفیت سب پر طاری رہے
اک دُوجے کی آپس میں باری رہے
اور الجھیں یہ ہرگز یہ ہم سے کبھی
یہ ہی سلجھیں مسائل یہ اِ ن کے کبھی
بس نوالوں کی گنتی ہی کرتے رہیں
نالیوں اور کھمبوں پہ مرتے رہیں
ہاتھ تیغوں کی جانب یہ ان کے بڑھیں
مسندِ عالمی پر یہ چڑھ یہ سکیں
ہم پہ جتنا بھی ہے ان کا غیظ وغضب
ان کے ہی درمیاں بس نکلتا رہے
احتجاجوں کی صورت میں چلتا رہے
تند جملوں کی پیکر میں ڈھلتا رہے
پتلیاں بن کےچوکوں میں جلتا رہے
ان کی آپس میں ہی دھینگا مُشتی رہے
بلکہ اچھا ہے یہ
ہم میں بھی گر یونہی نورا کشتی رہے
بس توجہ رہے۔۔۔ سب کو حصہ ملے
اور اہم تر ہےیہ ۔۔۔ پاؤں ہاتھی کے پاؤ ں میں سب کار ہے
سب کی اِک بات ہو(جو بھی ہاتھی کہے)
ہاتھ میں ایک دوجے کے یوں ہاتھ ہو
تاکہ ساروں میں قائم مساوات ہو
تاکہ ساروں میں قائم مساوات ہو
تاکہ نفرت کا بھی خاتمہ ہوسکے
تاکہ مظلوم جگ میں کوئی نہ رہے
آؤ۔۔۔ جنتے ہیں یہ
مل کے آپس میں ہم ان کے گھر بانٹ لیں
پورے انصاف سے۔۔۔ ان کے سر بانٹ لیں
اِس خوشی میں مگر
آؤ پہلے ذرا۔۔۔۔
یہ فلسطین کا 'کیک' ہی کاٹ لیں!

----------------

0 Responses to “اقوام متحدہ اور بین الاقومی جمہوریت”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ