ہفتہ، 6 جون، 2015
بھارت کے ساتھ تعلقات(پہلا حصہ)
تحریر: محمد زبیر
جیو ٹی وی چینل کی "امن کی آشا" نامی بھارت دوستی
کی طویل مہم اور اب پاکستان اور بھارت کے درمیان روز افزوں سفارتی و تجارتی تعلقات
کی بحالی ، دوسری طرف جنرل کیانی کا دورۂ روس اور روسی وزیرِ خارجہ کی پاکستان
آمد اور تیسری جانب
امریکی عالمی اتحاد کی افغانستان میں عبرتناک شکست اور جلد از جلد انخلاء کے
اعلانات خطے میں بدلتے ہوۓ حالات، طاقت کے توازن کی منتقلی اور پاکستانی
اسٹیبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کی بے چینی کا واضح پتہ دے رہے ہیں۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے روس اور بھارت کی طرف بڑھاۓ
جانے والے ہاتھ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ پاکستانی پالیسی بہت حد تک تبدیل ہونے
جا رہی ہے۔ اور آئندہ دنوں میں پاکستان کی اوّلین ترجیح مشرقی سرحد پر بھارت کی
بجاۓ مغربی سرحد کے دونوں اطراف موجود قبائل، افغانستان، پاکستان اور دیگر ممالک
کے مجاہدین کے خلاف لڑنا ہوگی جو افغانستان و پاکستان میں یکساں طور پر شرعی نظام
کے نفاذ کے لیے امریکہ اور پاکستان سمیت امریکہ کے تمام اتحادیوں کے خلاف جہاد کر
رہے ہیں۔ میڈیا پر ایجنسیوں کی چلائی جانے
والی پروپیگنڈا مہم میں بھی اب افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کو علیحدہ کرنے
کی ناکام کوششیں دم توڑ گئی ہیں۔ اس کی وجہ امارتِ اسلامی افغانستان کے طالبان کی
طرف سے کنڑ و نورستان کے صوبوں میں القاعدہ و تحریکِ طالبان پاکستان بالخصوص سوات
کے مجاہدین کو پناہ دینا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں نے ذہناً ان
دونوں کو مشترکہ دشمن قرار دینے کا فیصلہ
کر لیا ہے۔ اس
لیے اب نظر آرہا ہے کہ پاکستان اپنے مشرقی ہمساۓ اور دیرینہ دشمن بھارت کی جانب
بار بار دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے تاکہ مشرقی سرحد سے بے فکر ہو کر پوری قوت
مغربی جانب جھونکی جا سکے،باوجود اس کے کہ بھارت ابھی تک مذاکرات کی ہر نشست کے
بعد کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ یقیناً حکمتِ عملی کی اس تبدیلی میں
اسلام مخالف ان عناصر کا بڑا ہاتھ ہے جو شروع دن سے پاکستان میں نفاذِ شریعت کی
راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے چلے آۓ ہیں اور ان میں سے اکثر تو عالمی طاقتوں کے پے
رول پر ہیں۔ بہر
حال یہ ساری تبدیلی تفصیلی جائزے کی متقاضی ہے۔
۱۹۴۷ء کی تقسیمِ ہند کے نتیجے میں جہاں پاکستان کے مسلمانوں
کو برطانوی قانون، انگریزی تربیت یافتہ بیوروکریسی، انگریز نواز سیاسی خاندان اور
انگریز اکیڈمیوں سے تربیت یافتہ فوجی افسران ورثے میں ملے وہیں ملکی داخلہ و خارجہ
پالیسی پر بھی انگریزی دور کی واضح چھاپ نظر آئی۔ برطانوی راج نے اپنے دورِ تسلط میں قبائل اور افغانستان کی
سرزمین کو روس کے خلاف اپنی تزویراتی گہرائی (Strategic Depth) قرار دے رکھا تھا۔ اس لیے برطانیہ کی
ہمیشہ سے کوشش رہی کہ افغانستان میں ایسی حکومت وجود میں آۓ جو برطانیہ نواز ہو
تا کہ روس کو برّصغیر میں مداخلت کا موقع
نہ مل سکے۔ ایسے میں برطانوی حکومت اپنی توجہ بھرپور طور پر برّ صغیر میں داخلی
طور پر اٹھنے والی بغاوت کی تحریکات کو دبانے
پر دے سکتی تھی۔ اس کے لیے برطانیہ نے قبائل اور افغانستان کو زیرِ دست
رکھنے کے لیے ترغیب و ترہیب کا ہر ہتھکنڈا استعمال کیا۔برطانیہ نے جب ۴۷ء میں اپنی
کمزور ہوتی عالمی حیثیت کی بدولت برّصغیرچھوڑنے کا فیصلہ کیا تو یہاں تقسیم میں بے
ضابطگیوں کے ذریعےقصداً پاک بھارت تنازعہ کی بنیاد رکھ ڈالی۔ اس تقسیم کے نتیجے
میں پاکستان کے کئی شہر لاہور، سیالکوٹ، بہاولپور، گجرات وغیرہ بھارتی سرحد کے بہت
قریب ہو گئے۔ دوسری طرف بھارتی شہر سرحد سے کافی فاصلہ پر رہے۔ اس طرح بھارت کو پاکستان
کے مقابلے میں اچھی خاصی تزویراتی گہرائی دستیاب ہو گئی۔ صرف ایک بڑا شہر امرتسر
نسبتاً پاکستانی سرحد کے قریب ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے پاکستان نے آرمی کی نو
کوروں(Corps)
میں سے چھ کو پنجاب میں تعینات کیا اور اپنی فوجی قوت کا تمام تر جھکاؤ مشرقی سرحد
پر کر دیا۔ ۱۹۵۴ء میں پاکستان کی طرف سے سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں شمولیت اور
روس کے خلاف امریکہ کے فرنٹ اسٹیٹ اتحادی بن جانے اور دوسری طرف بھارت اور روس
اتحاد کے قیام کے باعث افغانستان اور
قبائل میں اپنے لیے تزویراتی گہرائی کو قائم رکھنا پاکستان کے لیے مزید اہم بن
گیا۔ پاکستان اور عالمی قوتوں کے درمیان اس چپقلش کی وجہ سے افغانستان بحرانوں کی
آماجگاہ بن گیا اور یہاں کے مسلمان عالمی سیاست کی چکی میں پستے چلے گئے۔
۱۹۷۹ء میں جب روس براہِ راست افغانستان میں آگھسا تو
پاکستان کو اپنی تزویراتی گہرائی ہاتھ سے نکلتی محسوس ہوئی اور پاکستان مشرقی و
مغربی دونوں سرحدات پر شدید خطرے میں جا پڑا۔ ایسے میں جب روس کی طرف سے گرم
پانیوں تک رسائی کے اشارے بھی ملنے لگے تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ملک کی
جغرافیائی حدود واضح طور پر خطرے میں نظر آنے لگیں، ساتھ ہی امریکہ کو بھی مشرقِ
وسطیٰ کے وسائل روسی ہاتھوں میں جانے کا خوف دامن گیر ہوا۔ لیکن اس ساری صورتحال
میں نہ تو امریکہ کے پاس سرخ ریچھ سے مقابلے کے لیے کوئی آپشن تھی جبکہ پاکستانی
فوج تو پہلے ہی سے نفسیاتی تنزلی کا شکار چلی آرہی تھی۔ اس لیے امریکہ و پاکستان
دونوں اتحادی افغان جہاد کے پہلے پانچ سال خاموش تماشائی بنے رہے۔ بلکہ اس دوران
خود پاکستان میں کمیونسٹ تحریکیں جنم لینے لگیں۔ بالخصوص بلوچستان و موجودہ خیبر
پختونخواہ میں تو باقاعدہ سرخ جھنڈے لہراۓ جانے لگے۔ جس کے اثرات ابھی تک ان خطوں
میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ صورتحال چکّی کے دو پاٹوں جیسی تھی۔
جس میں پسے جانے سے بچنے کے لیے پاکستان کو کوئی راہ بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ اس
دوران اللہ تعالیٰ کی نصرت سے افغانستان کے نہتے مجاہدین قلتِ سامان کے باوجود
مضبوط ہوتے چلے گئے اور دنیا کو نظر آنے لگا کہ سرخ انقلاب کا راستہ روکنے میں یہ
مجاہدین کامیاب ہو جائیں گے تو پاکستانی فوجی حکومت کی بھی جان میں جان آئی اور یہ
بھاگ کر فوراً امریکہ کے پاس جا پہنچے۔ اس
طرح ۸۵ء سے افغانستان میں امریکی اتحاد کی بالواسطہ مداخلت کا آغاز ہوا۔ یہاں ایک
مغالطے کا ازالہ ضروری ہے کہ افغانستان کا جہاد ۷۹ء سے شروع ہوا نہ کہ امریکی
امداد اور آئی ایس آئی کی مداخلت کے بعد ۸۵ء سے۔ لہٰذا جو لوگ اس جہاد کو امریکی
ایماء پر ہونے والی ایک جنگ قرار دیتے ہیں وہ سراسر غلط کہے جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے
کہ پاکستانی فوجی حکومت اور امریکہ نے اپنی جان شکنجے میں پھنسی دیکھتے ہوۓ
مجاہدین کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تھا۔
بہرحال اس مبارک جہاد کے ذریعے روس ٹکڑوں میں بٹ گیا اور
دوسری طرف دنیا بھر سے آۓ ہوۓ مجاہدین کی ایک بڑی قوت تیار ہوگئی۔ اب امریکہ و
پاکستان کی ایجنسیوں کے سامنے یہ ہدف آگیا کہ کس طرح اس اسلامی جہادی قوت کو محدود
کیا جاۓ اور اسے افغانستان اور پھر دنیا بھر میں اسلامی نظام کے نفاذ سے باز رکھا
جاۓ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امام المجاہدین شیخ عبد اللہ عزّام رحمہ اللہ کو
پشاور میں شہید کیا گیا اور سازشوں کے ذریعےافغانستان کی جہادی جماعتوں کو باہم
دست و گریباں کروایا گیا۔ پاکستانی خفیہ
ایجنسی نے جہادی قوت کو بنظرِ خود دیکھتے ہوۓ یہاں سے ایک نئے کھیل کا آغاز کیا
اور مسلمانوں کے جہادی جذبے کو کشمیر کے پہاڑوں میں بھارت کے خلاف استعمال میں
لانے کا ارادہ کیا۔ جہاد کے نام پر سیاست کی پالیسی باقاعدہ طور پر کشمیر میں زیرِ
عمل لائی گئی۔ اس سے پاکستان بھارت کے خلاف جہادی بیس کیمپ کی طرح نظر آنے لگا۔
بیش بہا جہادی جماعتیں، جہاد کے عنوان پر جلسوں کا انعقاد، بڑے پیمانے پر چندہ
مہمات، جہادی ترانوں کی گونج اور بہت کچھ۔ اس ماحول کے اثر اور اسلامی جذبے سے
سرشار بہت سے مجاہدین کشمیر پہنچے اور وہاں بھارت کو بڑا نقصان پہنچاتے رہے۔ اس
جنگ میں ہزاروں مجاہدین نے شہادت پائی۔ لیکن افسوس یہ کہ ان ایجنسیوں اور پاکستانی
حکمرانوں کے پیشِ نظر کشمیر کی تحریک محض
ملکی مفادات کی جنگ تھی جس پر سودے بازی ان کا پرانا وطیرہ ہے۔ اسلام سے نہ تو
پاکستان کی فوج اور اس کی ایجنسیاں مخلص تھیں اور نہ یہ حکمران۔ اگر ایسا ہوتا تو
کم از کم ان کی ذاتی زندگیوں اور پاکستان میں ضرور اسلام نافذ ہوتا۔ اس لیے کشمیر
کا جہاد دو ملکوں کی باہمی سیاست ہی کا شکار ہوتے ہوتے آج تقریباً خاموشی کی سی
صورتحال اختیار کر چکا ہے۔
روس کے انخلاء کے بعد افغانستان امریکہ و پاکستان کی سیاسی
پالیسی کے باعث ایک اور شدید ترین بحران میں گھرگیا۔ ان بیرونی طاقتوں کی مداخلت
نے نہ صرف افغانستان کے مسلمانوں بلکہ اسلام اور جہاد کے تشخص کو بھی بہت زیادہ
نقصان پہنچایا۔ افغان قوم روس کے خلاف جنگ
کے بعد ابھی سنبھلنے بھی نہ پائی تھی کہ ایک اور داخلی جنگ میں دھکیل دی
گئی۔ اس پوری خانہ جنگی سے مقصود یہ تھا
کہ افغانستان میں ایسی کمزور حکومت قائم کی جاۓ جو غیر ملکی اداروں سے بیساکھیاں
ادھار مانگ کر چلتی ہو اور انہی کے مفادات کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دیتی ہو۔ شدید
بد امنی اور بے پناہ معاشی گراوٹ نے افغان قوم پر دائرۂ حیات تنگ کر کے رکھ دیا۔ اس
صورتحال میں اللہ تعالیٰ نے قندھار سے ملّا محمد عمر نصرہ اللہ، امیر المؤمنین کی
قیادت میں طالبان کو کھڑا کیا جنہوں نے بہت تھوڑے عرصے میں افغانستان میں شریعت کا
نفاذ کر کے ملک کو امن اور عدل کی مثال بنا دیا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اس بدلتی ہوئی صورتحال
کے مطابق خود کو ڈھالتے ہوۓ طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا بلکہ اس سے آگے
بڑھتے ہوۓ کچھ اس طرح پروپیگنڈا کیا جیسے طالبان پاکستان ہی کی تخلیق کردہ قوت
ہیں۔ بہرحال پاکستان کے مدارس سے فارغ التحصیل ہونے کی وجہ سے طالبان کو پاکستان
سے نسبت تھی اور انہوں نے پاکستان کے ساتھ شروع دن سے خیر سگالی ہی پر مبنی تعلق
قائم رکھا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پاکستان کو ایک مستحکم و قابلِ اعتماد
تزویراتی گہرائی حاصل ہو گئی۔ کیونکہ طالبان کسی صورت بھی مسلمانوں کے مقابلے میں
مشرک بھارت سے دوستی کرنے والے نہ تھے۔ لیکن افسوس کہ دین و وطن فروش حکمرانوں اور
فوجی جرنیلوں نے اس شرعی امارت کے ساتھ بھی پرانی منافقانہ طرز ہی اپنائی اور
امریکی ایماء پر طالبان کے ساتھ ذاتی و امریکی مفادات پر مبنی پالیسی جاری رکھی۔ امارتِ
اسلامیہ افغانستان کا شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کو پناہ دینا اور پھر ان کی
قیادت میں عالمی اتحاد براۓ قتالِ یہود و نصاریٰ کا قیام اور افغان سرزمین سے
القاعدہ کا امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ جہاں ایک طرف امریکہ کے لیے نا قابلِ برداشت
بن گیا تو دوسری طرف بحیرۂ قزوین سے بحیرۂ عرب تک براستہ افغانستان و پاکستان
پائپ لائن بچھانے کے امریکی منصوبے پر امیر المؤمنین کا انکار امریکی عنانیت کےبت
پر ہتھوڑے کی طرح برسا۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں قائم خالص شرعی حکومت اور
دنیا بھر کے مسلمانوں کی اس میں دلچسپی اور اس کی طرف ہجرت نے بھی امریکی نیو ورلڈ
آرڈر کے سامنے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ طالبان کی طرف سے دینی حمیّت پر مبنی ان سب
اقدام میں پاکستان کے لیے کچھ بھی برا نہ تھا لیکن پاکستان کے مقتدر طبقہ کو ہمیشہ
کی طرح اس موقع پر بھی ملک اور یہاں بسنے والے مسلمانوں سے زیادہ اپنے اقتدار کو
استحکام بخشنے کے لیے امریکی چاکری کی فکر دامن گیر رہی۔
ستمبر ۲۰۱۱ء کے واقعہ تک اگر دیکھا جاۓ تو طالبان کی حکومت
پاکستان کے لیے سراسر خیر ثابت ہوئی تھی۔ طالبان کی وجہ سے پاکستان کی داخلی
صورتحال پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوۓ تھے اور نہ ہی یہاں بد امنی کی صورتحال
پیدا ہوئی تھی۔ اس وقت تک پاکستان کے اندر سے کسی کو طالبان کی امارتِ اسلامی سے
کوئی مسئلہ تھا تو وہ یہاں کے گنے چنے، معدودے چند سیکولر افراد،" سول
سوسائٹی" وغیرہ کو تھا جو کسی طور بھی جمہوری نظام کی جگہ شریعت کا نفاذ پسند
نہیں کر سکتے تھے اور وہ بھی مدارس سے فارغ التحصیل خاک نشینوں کے ہاتھوں۔ جہاں تک
علماۓ حق کا تعلق ہے تو ان کو امارتِ اسلامی افغانستان کے قیام سے کافی تقویت
نصیب ہوئی اور ان کے ذہن پاکستان میں بھی شرعی امارت کے قیام کی طرف مائل ہوۓ۔
نو گیارہ کے مبارک حملوں کے بعدامریکی دھمکی نے پاکستان کو
عالمی صلیبی جنگ میں بھی کفر کی فرنٹ لائن
اتحادی ریاست کی حیثیت سے دھکیل دیا۔ اگر پاکستان کے حکمران طبقے، جنرل مشرف اور
فوج میں ذرا بھی ایمانی قوت و غیرت ہوتی تو یہ امریکہ کے سامنے یوں یکلخت سر بسجود
ہو کر پورے ملک اور قوم کو دین و دنیا برباد کر دینے والی اس جنگ میں نہ دھکیلتے۔ اس جنگ میں شمولیت خوف پر مبنی پالیسی کی بنا پر
ہوئی، حالانکہ حکمتِ عملی کے لحاظ سے پاکستان افغانستان میں اپنی حامی حکومت کھونا
نہیں چاہتا تھا۔ ابتداً پاکستان نے اپنی فضائی حدود امریکہ اور نیٹو افواج کے لیے
کھولیں، پھر انہیں تین فضائی اڈے فراہم کیے گئے، اس کے بعد پاکستان کی سڑکیں بھی
نیٹو رسد لے جانے کے لیے امریکہ کی جھولی میں ڈال دی گئیں، پھر بغیر منافع کے
ایندھن کی سپلائی کا معاہدہ ہوا۔ آہستہ آہستہ معاملہ پاکستان کی فورسز کی جنگ میں
عملی شمولیت تک جا پہنچا اور پاکستان بھر میں القاعدہ اور طالبان ذمہ داران کی
گرفتاریوں کا سلسلہ چل نکلا، اسی پر بس نہیں بلکہ پھر امریکی مطالبے پر پاکستانی
فوج وزیرستان میں مجاہدین کے خلاف براہِ راست جنگ پر اتر آئی اور پھر اس سے آگے
فوجی آپریشن در آپریشن کا سلسلہ چل نکلا۔ حالانکہ اس جنگ میں جھونکے جانے کے خطرناک نتائج کا اندازہ
اس وقت بھی ہر صاحبِ عقل کو تھا اور آج تو وہ سارے خدشات حقیقت بن کر پاکستانی
عوام کو کھا ۓ جا رہے ہیں۔۔۔۔پاکستان اداروں کی طرف سے امارتِ اسلامیہ افغانستان
اور مہاجر مجاہدین کے خلاف ۱۱ سال پر محیط خیانتوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے جس میں
کبھی ملّا عبد السلام ضعیف اہانت سے پُر انداز میں امریکہ کے حوالے کیے گئے، کہیں
امیر المؤمنین کے نائب ملّا برادر کی پاکستانی اداروں کے ہاتھوں گرفتاری دیکھنے کو
ملی، کہیں ملّا عبید اللہ اخوند کی پاکستانی اداروں کی زیرِ حراست شہادت کی المناک
خبر سنائی دی، کہیں استاذ یاسر اور ملّا منصور داد اللہ کی گرفتاری عمل میں لائی
گئی اور ایسے ہی پوری دنیا سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور امّتِ مسلمہ کو امریکی
کفری تسلط سے آزاد کرانے والے مہاجر مجاہدین کے بدلے میں امریکہ سے ڈالر کماۓ
گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں شہداء ہیں جن کا خون پاکستانی فوج کے
ہاتھوں بہا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے
کہ امریکہ کی نوکری اور اس کے در پر جھکنے کا مرض صرف پرویز مشرف اکیلے میں نہیں
تھا بلکہ قیامِ پاکستان سے اب تک جو بھی طبقات اقتدار میں رہے وہ اسی ڈگر پر چلتے
آۓ۔ مشرف کے جانے کے بعد بھی پاکستان میں امریکی مقاصد کو کوئی زک نہیں پہنچی
بلکہ فوجی حکومت ہی کی طرح سیاسی، جمہوری حکومتیں بھی امریکی حکم کو سر آنکھوں پر
بٹھاتی ہیں۔ آج اگر پاکستان کے قدم روس اور بھارت کی جانب بڑھ رہے ہیں تو اس کی
بھی وجہ امریکہ کے خوف سے نجات نہیں بلکہ خطے میں کم ہوتا امریکی کردار ہے جس کی
وجہ سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نئے سہاروں کی تلاش میں ہے۔ اگر یہ لوگ مؤمن ہوتے تو
ان کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کا سہارا کافی ہوتا جو ٹوٹنے والا نہیں۔ (جاری ہے)
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “بھارت کے ساتھ تعلقات(پہلا حصہ)”
ایک تبصرہ شائع کریں