ہفتہ، 6 جون، 2015
بھارت کے ساتھ تعلقات(دوسرا حصہ)
دوسرا اور آخری حصہ
امریکہ کے تھنک ٹینک نے نو گیارہ کے بعد شروع ہونے والی
عالمی صلیبی جنگ کو معرکۂ قلوب و اذہان(Battle of Hearts and Minds) سے تعبیر کیا اور اس کے تحت اسلام
اور مسلمانوں کا ایک اعتدال پسند(Moderate) تصور پیش کیا جو جہادی روح اور نفاذِ اسلام کی بجاۓ بین
المذاہب ہم آہنگی، عورت کی معاشرتی آزادی اور جمہوریت پر یقین رکھتا ہو۔ کیونکہ
کفر یہ جانتا ہے کہ جہادی قوت کی فراہمی کا بنیادی سبب قرآنی تعلیمات ہیں۔ لہٰذا
قرآن کی تعلیمات کو مسخ کرنا اور دین کے بارے میں شبہات کی آگ بھڑکانا ان کے لیے
ضروری ٹھہرا۔ دوسری طرف مسلمانوں میں دین سے دوری پیدا کرنے کے لیے فحاشی و عریانی
اور دیگر شہوات کو خوب فروغ دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پاکستان کے عوام میں موجود
دینی جذبہ سے خائف حکمرانوں نے اس امریکی ایجنڈے پر بھرپور طریقے سے عملدر آمد
کیا۔ میڈیا کے ذریعے جہاں ایک طرف فحاشی کو فروغ دیا گیا یہاں تک کہ آج فحاشی کی
تعریف کے تعیّن ہی میں اختلاف ہونے لگا تو دوسری طرف غامدی، ڈاکٹر فاروق اور طاہر
القادری جیسے ملحد سکالرز کو ہر چینل پر بھرپور جگہ دی گئی جیسے یہ سلفِ امّت کے
علم کے امین ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علماۓ
حق کا تشخص بگاڑنے کے لیے ان کا وکیل سمجھی جانی والی شخصیات کو ٹی وی پر اختلافی
مباحث میں گھسیٹا گیا تا کہ عوام کے دلوں سے ان کا احترام جاتا رہے اور عوام خود
کو علماء کی رہنمائی سے آزاد سمجھنے لگ جائیں اور دین کی من پسند تشریح کرنا اپنا
حق سمجھیں۔ طالبان اور مجاہدین کی محبت مسلمانوں کے دل سے نکالنے کے
لیے انہیں اجڈ، ظالم ، شدت پسند اور دہشت گرد باور کرایا گیا اور نام نہاد دانش
وروں اور تجزیہ نگاروں کی زبانی یہ ثابت کیا گیا کہ علماء اور طالبان اس قابل نہیں
کہ وہ اس جدید دور میں قوم کی قیادت کر سکیں۔ اسی طرح کی مہم تعلیمی اداروں میں
بھی شروع کی گئی، نصاب کو بار بار تبدیل کیا گیا اور ملکی یونیورسٹیوں میں فیشن
ڈیزائین، آرٹ، فلم سازی جیسے پروگرام شروع کرواۓ گئے۔ مخلوط تعلیم کی حوصلہ
افزائی کی گئی یہاں تک کہ اب گورنمنٹ کے تحت چلنے والے پرائمری سکولوں کو بھی
اساتذہ اور طلباء دونوں کے لحاظ سے مخلوط بنا دیا گیا۔
متوسط تعلیم کے اداروں میں عربی کو اختیاری مضمون قرار دے کر اس کی جگہ موسیقی کا مضمون شامل کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ یورپی طرز پر قائم انگریزی میڈیم پرائیویٹ اداروں کو فروغ دیا گیا۔ فوج اور دیگر اہم اداروں میں اس چیز کا اہتمام کیا گیا کہ اسلامی ذہن کے حامل افراد بھرتی نہ ہونے پائیں اور جو پہلے سے کام کر رہے ہیں وہ اہم عہدوں تک نہ پہنچیں۔ فوج میں موجود دینی ذہن کے حامل افراد کے کورٹ مارشل تک کیے گئے۔ پاکستانی فوج جو پہلے ایمان تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے نعروں سے اپنے سپاہیوں کو جھوٹا جذبہ باہم پہنچاتی تھی، اب اپنے سپاہیوں میں سیکولر وطنی نظریات کو ترویج دے رہی ہے۔ معاشرے میں بھی جو لوگ پورے دین پر عمل کرنے کی کوشش کرتے اور جہاد کی بات کرتے انہیں خفیہ اداروں کے ہاتھوں گمشدہ بنا دیا گیا تا کہ علماء اور دیگر اہلِ دین جہاد اور نفاذِ شریعت کی بات سے باز رہیں۔ اسی طرح شرکیہ عقیدے کے حامل بدعتی فرقوں کو معاشرے میں خوب آزادی دی گئی تا کہ وہ عوام میں اثرو رسوخ حاصل کر لیں۔ یہاں تک کہ ان کے باقاعدہ ٹی وی چینل بھی وجود میں آگئے۔ ملکی آئین میں ایسی ترامیم کی گئیں جن سے لا دین طبقات اور اسلام مخالف سرگرمیوں کو تحفظ فراہم ہو۔ اس کی بڑی مثال حدود آرڈیننس میں تبدیلی ہے۔
متوسط تعلیم کے اداروں میں عربی کو اختیاری مضمون قرار دے کر اس کی جگہ موسیقی کا مضمون شامل کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ یورپی طرز پر قائم انگریزی میڈیم پرائیویٹ اداروں کو فروغ دیا گیا۔ فوج اور دیگر اہم اداروں میں اس چیز کا اہتمام کیا گیا کہ اسلامی ذہن کے حامل افراد بھرتی نہ ہونے پائیں اور جو پہلے سے کام کر رہے ہیں وہ اہم عہدوں تک نہ پہنچیں۔ فوج میں موجود دینی ذہن کے حامل افراد کے کورٹ مارشل تک کیے گئے۔ پاکستانی فوج جو پہلے ایمان تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے نعروں سے اپنے سپاہیوں کو جھوٹا جذبہ باہم پہنچاتی تھی، اب اپنے سپاہیوں میں سیکولر وطنی نظریات کو ترویج دے رہی ہے۔ معاشرے میں بھی جو لوگ پورے دین پر عمل کرنے کی کوشش کرتے اور جہاد کی بات کرتے انہیں خفیہ اداروں کے ہاتھوں گمشدہ بنا دیا گیا تا کہ علماء اور دیگر اہلِ دین جہاد اور نفاذِ شریعت کی بات سے باز رہیں۔ اسی طرح شرکیہ عقیدے کے حامل بدعتی فرقوں کو معاشرے میں خوب آزادی دی گئی تا کہ وہ عوام میں اثرو رسوخ حاصل کر لیں۔ یہاں تک کہ ان کے باقاعدہ ٹی وی چینل بھی وجود میں آگئے۔ ملکی آئین میں ایسی ترامیم کی گئیں جن سے لا دین طبقات اور اسلام مخالف سرگرمیوں کو تحفظ فراہم ہو۔ اس کی بڑی مثال حدود آرڈیننس میں تبدیلی ہے۔
امریکی فنڈ سے چلنے والی ان ساری مہمات نے پاکستان کے
معاشرے کو دو قطبوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک قطب وہ ہے جو اس سارے پروگرام کے زیرِ
اثر اب امریکہ ہی کو اپنے لیے رول ماڈل سمجھتا ہے اور دین سے دور چلا گیا ہے۔
یقیناً یہ طبقہ ابھی تعداد کے لحاظ سے نہایت قلیل ہے لیکن باہر سے ملنے والے وسائل
کے بل پر ملکی پالیسیوں اور میڈیا پر چھایا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرا قطب ان صالح افراد پر مبنی ہے جن کا دل ملک کی
اس حالت پر کڑھ رہا ہے اور وہ ملک میں اسلام کے غلبے اور نفاذِ شریعت کے لیے حتی
المقدور کوشش میں لگے ہوۓ ہیں۔ دین اسلام کے ساتھ مسلمانوں کی سرزمین پر ہونے
والے اسی ظلم نے لال مسجد کی نفاذِ شریعت
کی تحریک کو جنم دیا جو حکومت اور سیکورٹی اداروں کی سفاکیت سے اس وقت تو بظاہر دب
گئی لیکن اس کے واقعات اہلِ ایمان کے دلوں پر ایک گہرا نقش چھوڑ گئے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان پوری طرح لادین طبقات کے ہاتھ
میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ ایوانِ حکومت، عدلیہ، فوج اور بیوروکریسی سب کے سب باہم
کشمکش اور بحرانوں کا شکار ہونے کے باوجود اسلام کے عملی نفاذ کو روکنے پر متفق
ہیں۔ جس جنگ کا آغاز دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں تعاون کے نام پر کیا گیا
تھا، صرف امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے ملک کو پوری طرح اس جنگ میں دھکیل دیا گیا
ہے۔ ملک کی فوج بھارت جیسے ازلی مشرک دشمن کی سرحد سے ہٹا کر قبائل میں طالبان و
القاعدہ کی قوت ختم کرنے کے لیے لگا دی گئی ہے۔ پوری ریاستی قوت و وسائل سوات تا
وزیرستان اور داخلِ پاکستان میں مجاہدین کے خلاف سرگرم ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور کیانی عوام کو سمجھانے
کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ جنگ ہماری اپنی ملکی سالمیت کی جنگ ہے۔ آغاز میں
ایجنسیوں نے کوشش کی کہ افغان اور پاکستانی طالبان کو الگ کیا جاۓ۔ لہٰذا میڈیا
پر آئی ایس آئی نے بھرپور طور پر یہ مہم چلائی کہ افغان طالبان اچھے ہیں اور
امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی طالبان اصل طالبان نہیں بلکہ بھارت
اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ تا کہ افغان طالبان سے تعلقات کی راہ ہموار رہے۔ یہاں
ایجنسیوں کو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ کیا کسی غیرتمند قوم کا حافظہ اتنا
کمزور ہوتا ہے کہ وہ اپنے پر ہونے والی تمام تر زیادتیوں کو بھلا کر اور ان
ایجنسیوں کی دین دشمنی کے واضح واقعات دیکھ کر بھی ان کے ساتھ خیر سگالی کا تعلق
قائم رکھے گی۔ دوسرا یہ کہ اگر افغان طالبان امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں تو
پھر پاکستان امریکہ کا اتحادی کیوں ہے۔ کنڑ اور نورستان کے صوبوں میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کی
جانب سے القاعدہ اور تحریکِ طالبان پاکستان بالخصوص سوات کے مجاہدین کو پناہ ملنے
پر امریکی اور پاکستانی ایجنسیوں کا ماتھا ٹھنکا اور انہیں یہ یقین ہو گیا کہ ہم
مجاہدین کو علاقوں اور قومیتوں کی بنیاد پر نہیں کاٹ سکتے۔ اس پر مستزاد افغان
سرحد سےپاکستانی سیکورٹی فورسز پر ہونے والے طالبان کے مشترکہ حملوں نے آئی ایس
آئی کی رہی سہی امیدوں کو بھی ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ ان حملوں کا محرک پاکستان میں
نفاذِ شریعت کی جدّ و جہد اور سوات کا فوجی آپریشن ہے جس میں پاکستان کی دین فروش
فورسز نے نہتے بچوں تک کو لائن میں کھڑا کر کے گولیوں کو نشانہ بنا ڈالا اور اس
قدر مظالم ڈھاۓ کہ انسانی ذہن اس کے تصور سے بھی ڈر جاۓ۔ اہلِ سوات کا جرم صرف
یہ تھا کہ انہوں نے شریعت یا شہادت کا نعرہ لگایا تھا۔
افغانستان میں امریکی اتحاد کی شکست اور ان کے جلد انخلاء
کے اعلانات کے بعد پاکستانی مقتدر لا دین اکستانی مقتدر طبقہ خود کایر ہے۔ انخلاء کے اعلانات کے بعد پاکستانی مقتدر
طبقہ خود کا تنہا محسوس کر رہا ہے اور طالبان کی بڑطبقہ خود کو تنہا محسوس
کر رہا ہے اور طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت کا خوف انہیں دامن گیر ہے۔
انہیں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد
پاکستان میں نفاذِ شریعت کی تحریک جس کی بنیاد میں قبائل و سوات میں فوجی آپریشنوں
اور جامعہ حفصہ کی معصوم طالبات کا خون شامل ہے، ضرور بالضرور قوت اختیار کر جاۓ
گی۔ اسی لیے عزمِ نو کے نام سے گذشتہ تین سالوں سے جاری فوجی مشقوں کا مقصد خطے
میں " روایتی جنگ" کے بڑھتے ہوۓ خطرات سے نمٹنا قرار دیا جا رہا ہے۔
لیکن طالبان کے خلاف بھرپور طور پر جنگ میں اترنے سے پہلے ضروری ہے کہ بھارت سے
سبز جھنڈی حاصل کر لی جاۓ۔ اس کے لیے پاکستان میں خفیہ ہاتھوں نے کافی عرصے سے سرگرمیاں
شروع کر رکھی تھیں۔ امن کی آشا، فنکاروں کی انڈیا آمدورفت، پاکستان کے میڈیا پر
انڈین فلموں کے ٹریلر، خطرناک بھارتی جاسوسوں کی رہائی، بھارت کے ساتھ تجارتی و
سفارتی تعلقات کی بحالی اور اب آکر دونوں ملکوں کے سربراہان کے دورے۔یقیناً بھارت
جو اب معاشی و جنگی اعتبار سے پاکستان کو کسی کھاتے میں بھی نہیں لاتا بلکہ سلامتی
کونسل کی مستقل رکنیت کا خواہاں ہے پاکستان کے اس اقدام پر خوش ہی ہو گا۔ کیونکہ
ایک طرف تو اسے پاکستان کی مارکیٹ اپنی مصنوعات کے لیے دستیاب ہو رہی ہے جس کے دور
رس نتائج یہ بھی نکلیں گے کہ پاکستان کی تباہ حال انڈسٹری اپنی آخری سانسوں سے بھی
محروم ہو جاۓ گی، دوسری طرف اب پاکستان انڈیا کے لیے مجاہدین کے خلاف تزویراتی
گہرائی بن جاۓ گا۔ بھارتی چیف آف آرمی سٹاف نے کچھ عرصہ پہلے اپنے جوانوں کے
سامنے ایک تقریر میں کہا تھا کہ خطے میں شدت پسندی کے رجحانات کی وجہ سے دہشت گردی
کی جنگ کے مواقع بڑھ گئے ہیں اور ہمیں اس چیلنج کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ تو اب اگر
پاکستان کی فورسز ہی مجاہدین کے خلاف لڑتی رہیں تو انڈیا کو کیونکر برا لگے گا۔
بلکہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ وہ اصل خطرہ ہے جسے بھارت بھی ٹالنا چاہتا ہے۔
پاکستان کی بھارت کے ساتھ تعلقات کی کوششیں بڑی عجیب طرز پر
جاری ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان نہ تو
کشمیر ایشو زیرِ بحث آرہا ہے اور نہ ہی پانی کا تنازعہ حالانکہ یہ دونوں مسائل
پاکستان کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان نہ ہی بھارت پر بلوچستان
اور قبائل میں مداخلت کا الزام لگا رہا ہے۔ یہاں ایک سوال پاکستان کے عوام کو خفیہ
ایجنسیوں سے کرنا چاہیے کہ اگر پاکستانی طالبان انڈیا کے ایجنٹ ہیں تو پھر
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیوں بھارت کی گود میں گری جا رہی ہے۔ اس وقت بھارتی آسام میں
مسلمانوں کا قتلِ عام جاری ہےاس پر بھی پاکستانی حکمران خاموش ہیں۔ اس سب سے بڑھ
کر یہ کہ جو عناصر بھارت کے خلاف جہاد ہی کی بنیاد پر اپنی تنظیمیں چلا رہے تھے
اور جنہوں نے ایجنسیوں کے اشارے پر سیاستدانوں کی بھارت سے مصالحت کی ہر کوشش پر
شدید احتجاج کیا تھا وہ سب بھی خاموش ہیں۔حالانکہ بھارت کا حال یہ ہے کہ مذاکرات
کے ہر دور کے بعد ان کی طرف سے یہ بیان آجاتا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے،
پاکستان کشمیر میں مداخلت بند کرے، پاکستان ممبئی حملوں کے ملزموں کو بھارت کے
حوالے کرے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ پاکستان کی وزیرِ خارجہ نے دونوں ملکوں کے خارجہ
سیکرٹریوں کے درمیان مذاکرات کے بعد کہا کہ پاکستان نے کئی روایتی مؤقف ترک کر
دئیے ہیں، سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ مذاکرات میں یہ بھی طے پایا کہ دہشت گردی
پورے خطے کا مسئلہ ہے اسے مل کر حل کرنا ہو گا۔ شیطان ملک جیسے خائنِ دین و ملّت
کا بھارت کے ساتھ مذاکرات میں ملوّث ہونا اور بھارت کا دورہ کرنا خود ایک بڑے خطرے
کی طرف نشاندہی کر ہا ہے۔ اس سب کو دیکھتے ہوۓ ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا
پاکستان کے بے غیرت حکمران اب یہاں کی مسلم عوام کو امریکہ کے بعد بھارت کی جھولی
میں پھینکنے جا رہے ہیں؟ جبکہ داخلی طور پر ملکی صورتحال یہ ہے کہ ملک بدامنی،
غربت، نسلی و قومی تعصب، صوبوں کے باہمی تنازعات، سیاسی عدم استحکام، توانائی کا
فقدان، معاشی بدحالی جیسی بد ترین صورتحال سے دوچار ہے۔ ایسے میں کیسے سوچا جا
سکتا ہے کہ ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر ہوں گے۔ جہاں تک روس کے ساتھ تعلق کا معاملہ ہے تو اچھی
طرح یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت اور روس پرانے اتحادی ہیں اور روس جیسا ملک کبھی بھی
بھارت سے پرے پرے اور اپنی افغانستان میں شکست کو بھلا کر پاکستان کو بغل گیر نہیں
کرے گا۔ بلکہ بھارت اور روس مل کر ہی پاکستان میں اپنے پنجے گاڑیں گے۔
اس ساری صورتحال میں اسلام اور پاکستان سے مخلص طبقے کے لیے بہت بڑا لمحۂ
فکریہ ہے۔ حالات کی یہ تبدیلی اور نئے اتحادوں کی ساخت غزوۂ ہند کا منظر واضح کر
رہی ہے۔ پاکستان میں علماء، دینی طبقات، عامۃ المسلمین، اساتذہ، فنّی ماہرین،
طلباء، مزدور غرض ہر طبقے کو چاہیے کہ وہ میڈیا کے سحر سے باہر نکل کر اس خطرناک
صورتحال کا ادراک کریں۔ اپنے دین اور ملک کے تحفظ کے لیے اپنے اندر اتحاد پیدا
کریں، اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو ایک شریعت و جہاد والے نبوی پرچم کے تحت لے آئیں،
اللہ تعالیٰ کے سہارے کو مضبوطی سے تھامیں اور ان لادین طبقوں کی راہ روکیں۔ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا اس کے عملی
نفاذ کے لیے جدّ و جہد شروع کریں۔ اگر ہم بر وقت خود کو اس کے لیے منظم کر لیتے
ہیں تو ان شاء اللہ خراسان سے پہنچنے والی مدد کافی ہو گی کہ ہم نہ صرف اپنے ملک
میں بلکہ آگے بڑھ کر بھارت تا برما بھی اسلام دشمن قوتوں کا مقابلہ کر سکیں اور
تاریخ کو دہراتے ہوۓ ایک وسیع اسلامی ریاست کی بنیاد رکھیں جس کا مرکز کابل یا
دہلی ہو۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “بھارت کے ساتھ تعلقات(دوسرا حصہ)”
ایک تبصرہ شائع کریں