ہفتہ، 6 جون، 2015

مسلمانانِ جنوبی فلپائن:صلیبی استعمار کے خلاف جہد و مزاحمت کی علامت


ای میل پر موصول ہونے والی ایک تحریر
پندرہ اکتوبر ۲۰۱۲ء کو فلپائن کی حکومت اور جنوبی فلپائن میں بسنے والے مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (ایم این ایل ایف) کے درمیان جنوب کے پانچ مسلم اکثریتی صوبوں اور چھ شہروں کو مشترکہ طور پر ملا کر "بنگسا مورو" کے نام سے ایک مسلمان اکثریتی ریاست کے قیام کے معاہدے پر دستخط کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا پر نشر ہوئیں۔ ایک ایسی صورتحال میں جب انڈونیشیا، سوڈان، نائیجیریا، مصر غرض عالمِ اسلام میں جہاں بھی ہو سکے عالمی ادارے اور قوتیں اقلیتوں کے حقوق کے نام پر عیسائی ریاستیں قائم کر چکی ہوں یا ان کی طرف پیش قدمی کر رہی ہوں، کسی عیسائی اکثریتی ملک میں نیم خود مختار سہی لیکن مسلم ریاست کا قیام یقیناً عالمِ اسلام کے لیے ایک خوشی کی خبر ہے۔ ہم نے اس مضمون میں کوشش کی ہے کہ جنوبی فلپائن کے مسلمانوں کا تابناک ماضی، صلیبی استعمار کے خلاف ان کی مزاحمت و جہاد کی طویل تاریخ، فلپائنی حکومت کے ساتھ حالیہ معاہدے کا پس منظر، وجوہات اور معاہدے کی شرائط اور اس کی تطبیق کے مراحل سے اپنے یہاں کے مسلمانوں کو آگاہ کیا جاۓ۔
فلپائن میں اسلام کا تعارف انڈونیشیا اور ملائیشیا سے آنے والے مسلمان تاجروں کے ذریعے ہوا۔ ۱۲۸۰ء میں فلپائن کے جنوبی جزائر سولو اور منڈاناؤ میں لوگوں نے ان مسلمان تاجروں کی دعوت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ ان جزائر پر مسلمانوں کی آبادی بڑھتی گئی یہاں تک کہ ۱۴۵۰ء میں شریف کبن سوآن کی سربراہی میں گبن سوآن کے نام سے اسلامی امارت قائم ہو گئی۔ امارت میں بسنے والے ۹۸ فیصد لوگ مسلمان تھے۔ امارت کے انڈونیشیا، ملائیشیا اور برونائی کی اسلامی امارتوں کے ساتھ گہرے دینی و معاشی تعلقات ہونے کی وجہ سے یہ خطہ تجارتی طور پر کافی سرگرم رہا اور یہاں کے مسلمان بھی معاشی طور پر مستحکم حالت میں رہے۔

۱۵۶۵ء میں سپین کی عیسائی حکومت نے شمالی فلپائن پر قبضہ کر لیا اور آہستہ آہستہ اپنے قدم جنوب میں اسلامی امارت کی طرف بڑھانے شروع کیے۔ سپین کی عیسائی حکومت جس نے ماضی قریب ہی میں مسلم اندلس(سپین) پر قبضہ کیا تھا اور وہاں کے مسلمانوں پر نا قابلِ فراموش مظالم ڈھاۓ تھے، اس زعم میں تھی کہ وہ جنوبی فلپائن میں قائم اس نسبتاً چھوٹی اسلامی امارت کو بھی شکست دے کر پورے فلپائن پر قابض ہو جاۓ گی لیکن یہاں کے مسلمانوں نے مسلسل ۳۵۰ سال صلیبی یلغار کے سامنے اپنے جسموں سے بند باندھے رکھا۔ مسلسل جنگ کی تین صدیوں نے مسلمانوں کی معاشی حالت کو یقیناً نقصان پہنچایا اور بعض علاقے بھی سپین کے ہاتھ لگ گئے لیکن بحیثیتِ مجموعی وہاں پر اسلامی امارت قائم رہی۔ صلیبیوں نے مسلمانوں کی اس ناقابلِ شکست مزاحمت سے تلملا کر ان کو مُور کہنا شروع کردیا۔ جیسا کہ آج کے دور میں مغربی صلیبی ،مجاہدین کو دہشت گرد یا شدّت پسند  کہتے ہیں۔ اس سے پہلے شمالی افریقہ کے مسلمانوں کو بھی سپین نے ان کی صلیبیوں کے خلاف جہادی مہمات کی وجہ سے مُور کا نام دیا تھا جو ووہ آج تک بولتے ہیں۔ فلپائن کے مسلمانوں کے لیے یہ نام عیسائیوں کے خلاف جہاد و مزاحمت کی علامت بن گیا لہٰذا انہوں نے اس نام کو اپنے لیے مستقل طور پر اختیار کرتے ہوۓ خود کو مُور کہلوانا شروع کر دیا۔
۱۸۹۶ء میں فلپائن کے معاملے پر امریکہ اور سپین آپس میں لڑ پڑے۔ دونوں محاربین کے درمیان ۱۸۹۸ء میں فرانس کی ثالثی میں معاہدہ طے پایا جس کی رُو سے فلپائن پر امریکہ کا قبضہ تسلیم کر لیا گیا۔ اس معاہدے میں صلیبیوں کی اسلام دشمنی ایک بار پھر سامنے آئی اور جنوبی فلپائن پر بھی یورپی ممالک نے امریکہ کا قبضہ تسلیم کر لیا۔ حالانکہ یہ خطہ سپین کے تحت نہیں تھا۔ بلکہ الگ سے ایک اسلامی ریاست کے طور پر برس ہا برس سے اپنے تشخص کا دفاع کرتا چلا آرہا تھا۔ اس فیصلے نے مُور مسلمانوں کو ایک جنگ سے دوسری میں دھکیل دیا اور اب مسلمان امریکہ کے خلاف جہاد میں مصروف ہو گئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ امریکہ جسے خاک آلود کرنا آج عالمی تحریکِ جہاد کا اساسی مقصد ہے اس کے خلاف سب سے پہلے تلوار اٹھانے کی عزت فلپائن کے مسلمانوں کو ملی۔ بیس سال مسلسل لڑائی کے نتیجے میں مسلمان ایک خود مختار مورو صوبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن بعد ازاں امریکہ کے" سفارتی حربوں" اور دھوکے کی سیاست سے زیر ہو نے کے باعث پورے فلپائن پر امریکی تسلط قائم ہو گیا۔ سینیٹ میں مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کے اعلان، مقامی سطح پر مسلمانوں کی انتظامی عہدوں پر تعیناتی اور دیگر مراعات جیسے وعدوں نے مسلم مزاحمت کو کمزور کر دیا۔ یہ وہی چال ہے جو برطانیہ، فرانس، امریکہ غرض ہر استعماری قوت نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور جہاد کی راہ روکنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف چلی ۔ کمزور قوتِ ایمانی کے حامل مسلمان نمائندگان کا اس چال میں پھنس کر جہاد و مزاحمت کی راہ ترک کرنا اور مسلمان عوام کو کافر حکومتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بھی تاریخ کا مستقل باب بن چکا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ دوستی و دشمنی کے اسلامی معیارات سے رُو گردانی، اسلامی تعلیمات میں کفریہ عقائد کی ملاوٹ، مسلمانوں میں کفار کی معاشرت کے فروغ اور غلامی کے شکنجے  مزید کَسے جانے کی صورت ہی میں نکلتا رہا ہے۔ بہر حال اگر تاریخ سے سبق سیکھا جاۓ تو آگے کی راہ آسان ہو جاۓ گی اور ہم غلامی کے گرداب سے بآسانی  باہر آ سکیں گے۔          
امریکہ نے جنوب پر قبضہ پاتے ہی وہاں پر عیسائیوں کی آبادکاری اور مشنری پروگرام جاری کیے۔ اس کے اثرات یہ ظاہر ہوۓ کہ ۹۸ فیصد مسلم آبادی والے ان خطوں میں ۱۹۷۶ء تک مسلمانوں کا تناسب گھٹ کر ۴۰ فیصد رہ گیا۔ آج جنوبی فلپائن کے ۸۰ فیصد مسلمان ،زمینوں کے مالکانہ حقوق سے محروم ہیں۔ جنوب کا صرف ۱۷ فیصد حصہ ایسا رہ گیا ہے جس پر مسلمانوں کے ملکیتی حقوق تسلیم شدہ ہوں۔ پہلے تیرہ صوبے مسلم اکثریتی تھے اب وہ گھٹ کر پانچ رہ گئے ہیں۔ لیکن کفری اقتدار اور ظلم کے خلاف مزاحمت کا جو مادہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ودیعت کیا ہے اس کا یہ اثر رہا ہے کہ کسی بھی مسلمان معاشرے میں کفار کی بالادستی کو مستقل طور پرتسلیم نہیں کیا گیا۔ بلکہ جب بھی کسی ایک طبقے کی لغزشوں نے مسلمانوں کو اس دلدل میں گھسیٹا تو تھوڑے ہی عرصہ میں اسی معاشرے میں اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد پیدا کر دئیے جنہوں نے پھر سے حرّیت و شریعت کا نعرہ بلند کر دیا۔ فلپائن میں بھی مسلمانوں نے جلد ہی دوبارہ جہاد و مزاحمت کی راہ اختیار کر لی جس کے نتیجے میں امریکہ کو ۱۹۴۶ء میں یہاں سے جانا پڑا۔
جاتے جاتے امریکہ مسلمانوں کے ساتھ ایک اور دغا کر گیا اور مسلمانوں کی خواہش کے برعکس مسلمان صوبوں سمیت تمام تر فلپائن کو ایک ریاست قرار دے گیا۔ اس فیصلے کا واضح مطلب یہ تھا کہ مسلمان اب مقامی عیسائیوں کے زیرِ دست رہیں گے۔ اس دوران جن مسلمان شخصیات کو امریکہ نے مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر تسلیم کیا تھا وہ نشستوں اور مراعات کے لالچ تلے ایسا دبے کہ ان کے منہ سے مسلم حقوق کی بات ہی نہ نکل پائی۔  آزادی کے بعد فلپائنی حکومت کے رویّے نے یہ بات مزید واضح کردی۔ مسلم صوبوں کے بارے میں سابقہ امریکی پالیسی ہی جاری رکھی گئی۔ دینی طور پر مسلمانوں کا استحصال،مسلمانوں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ، بنیادی انسانی ضروریات کی عدم فراہمی، مسلمانوں پر عیسائی افسران کی تعیناتی، جنوب کے مقابلے میں شمال کو فوقیت، یہ سب کام جاری رہے۔ اصل میں تو فلپائن کی یہ آزادی تھی بھی ادھوری۔  خطے میں امریکی اڈے مستقل قائم رہے اور آج تک فلپائن امریکہ کا اتحادی ہی چلا آرہا ہے۔ پہلے روس کے مقابلے کے لیے امریکہ فلپائن کو استعمال کرتا رہا اور اب خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور عالمی تجارت پر کنٹرول رکھنے کے لیے امریکہ اس طرف خصوصی توجہ دئیے ہوۓ ہے۔
آزادی کے بعد کے دگر گوں  حالات نے مسلمانوں کو سخت بے چین رکھا۔ ۱۹۶۱ء میں مسلمانوں کی طرف سے مسلمان صوبے سولو کی آزادی کا مطالبہ کر دیا گیا۔ ۱۹۶۸ء میں تنخواہ نہ ملنے پر احتجاج کرنے والے ۲۸ مسلمان فوجیوں کو فلپائنی حکومت نے شہید کر دیا۔ اس پر مسلمان پھٹ پڑے اور اسی واقعہ کے نتیجے میں منڈاناؤ تحریکِ آزادی کا آغاز ہوا۔ تحریک نے منڈاناؤ، سولو اور پلوان کے صوبوں پر مشتمل علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ رکھ دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک مسلح مزاحمت کی شکل اختیار کر گئی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان سمیت بیشتر مسلمان ممالک استعماری نو آبادیات کے نظام سے نئے نئے باہر ہوۓ تھے لیکن آزادی ملنے کے بعد بھی ان میں سے کسی میں بھی شرعی نظام نافذ نہ ہوا تھا۔ اسلامی تاریخ میں یہ سانحہ پہلی بار اسی موقع پر ہوا کہ بظاہر مسلمانوں کے ہاتھوں اقتدار ہوتے ہوۓ بھی ملک میں شریعت نافذ نہ تھی۔ یقیناً اس کے پیچھےصلیبی استعمار کی لمبی محنت تھی جس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں میں ایسی فکر کے حامل افراد پیدا کرنے میں کامیاب رہا جو اسلام کا نعرہ تو لگاتے تھے لیکن اسلام کی روح اور اسلامی زندگی پر عمل سے کوسوں دور تھے۔ فلپائن کے مسلمان بھی ان اثرات سے باہر نہ رہے۔ لہٰذا آزادی کی تحریک میں شامل افراد میں ایسے بھی نظر آۓ جو محض مسلمانوں کے علیحدہ ملک کا مطالبہ کر رہے تھے اور ایسے بھی تھے جو علیحدہ ملک حاصل کر کے وہاں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے تحریک کے شروع میں جس جماعت کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی وہ مورو نیشنل لبریشن فرنٹ(ایم این ایل ایف) تھی۔ جس کے سربراہ نور مسوری بعد ازاں مذاکرات در مذاکرات کے مراحل سے گذرتے ہوۓ فلپائنی حکومت ہی کا حصہ بن گئے۔ اس کے بعد ۱۹۸۰ء میں بننے والی مورو اسلامک لبریشن فرنٹ(ایم آئی ایل ایف) مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھی گئی جو پرسنل لاء(انفرادی زندگی سے متعلقہ قوانین) کی حد تک شریعت کا مطالبہ بھی کرتی ہے اور اسی کے ساتھ فلپائنی حکومت کے حالیہ مذاکرات طے پاۓ۔ آزادی کے لیے لڑنے والوں میں تیسری جماعت ابو سیاف گروپ کے مجاہدین ہیں جن کو امریکہ نے دہشت گرد تنظیم کے زمرے میں داخل کر رکھا ہے کیونکہ یہ خالصتاً اسلامی امارت کے قیام کے حامی اور امریکہ کے خلاف بھی جہاد کے داعی ہیں۔ اس کے پہلے امیر عبد الرزاق جنجلانی روس کے خلاف افغان جہاد میں شریک رہ چکے تھے۔ انہیں فلپائنی افواج نے ۱۹۹۸ء میں شہید کیا۔ اس جماعت نے اپنی پہلی کارروائی شدّت پسند ایونجلیکل فرقے کے دو امریکی مشنریوں کے قتل سے کی۔ اس کے بعد بھی یہ جماعت متعدد بار امریکی اہداف کو نشانہ بنا چکی ہے۔ عالمی خفیہ ادارے اور امریکہ اس جماعت کو القاعدہ سے ربط میں قرار دیتے ہیں۔ 
بہرحال منڈاناؤ تحریکِ آزادی سے نبرد آزما ہونے کے لیے فلپائنی حکومت نے جنوب میں عیسائی مسلح جماعتوں کو فروغ دینے کی پالیسی اپنائی۔ اس کے نتیجے میں ایلاگا، اتومان جیسی کئی عیسائی تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف میدان میں کودپڑیں۔ ۱۹۷۰ تا ۷۲ء بڑے پیمانے پر عیسائی مسلم جھگڑے ہوۓ جن میں بیشتر مسلمان ہی قتل ہوۓ۔ ۱۹ جون ۷۱ء میں شمالی کوٹاباٹو کے علاقے میں  مسجد کے اندر ۷۰ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ اس میں فلپائنی سیکورٹی فورس اور ایلاگا دونوں کے اہلکار شریک تھے لیکن حکومت کی طرف سے کسی کے خلاف کارروائی نہ کی گئی۔  ۲۲ نومبر ۱۹۷۱ء کو ایک آرمی چیک پوسٹ پر پھر مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا جس میں ۳۵ مسلمان شہید اور ۵۴ زخمی ہوۓ۔ واقعے میں ملوث فوجیوں کو گواہیوں کی کمی کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔ ستمبر ۱۹۷۲ء کو فلپائنی صدر فرڈینینڈ مارکوس نے مارشل لاء  لگا دیا۔ اس کے بعد فوج براہِ راست مسلمانوں کے خلاف آکھڑی ہوئی اور صورتحال باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ 
 او آئی سی نے ان واقعات کی مذمت کی لیکن فلپائنی مسلمانوں کے الگ ریاست کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوۓ کہا کہ ہم موجودہ فلپائن کے نقشے کو قائم رکھتے ہوۓ ہی امن کا قیام چاہتے ہیں۔  بلکہ ایم این ایل ایف کی طرف سے اس دوران او آئی سی میں شمولیت کی تین بار درخواست کی گئی مگر اسے مسترد کیا جاتا رہا۔
حالات کی شدت نے ایم این ایل ایف اور فلپائنی حکومت کے درمیان مذاکرات کی راہ پیدا کی، مذاکرات بار بار تعطل کے بعد بحال ہوتے رہے۔ لیکن مذاکرات کے عین دوران بھی حکومت کی طرف سے جنوب میں افواج کی تعیناتی اور مسلمانوں کے خلاف آپریشن کے واقعات ہوتے رہے۔ ایم این ایل ایف قوم پرستانہ تصورات کی حامل جماعت تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے موقف میں حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ ۱۹۹۶ء میں اس نے عیسائی مسلح تنظیم ایلاگا، جو مسلمانوں کے خلاف بنائی گئی تھی، سے جنوب کے مفادات کے مشترکہ تحفظات کے نام پر اتحاد کر لیا۔ اس سے پہلے اس جماعت کی اسی قسم کی پالیسیوں کی بدولت اس سے ایک دھڑا مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے نام سے علیحدگی اختیار کر کے مسلمانوں میں مقبولیت حاصل کر چکا تھا۔ پھر بھی جب ایم این ایل ایف اور حکومت کے درمیان مذاکرات طے پانے کے قریب پہنچے تو فلپائن کی بیوروکریسی، رومن کیتھولک چرچ اور عیسائی عوام  نے اس کی مخالفت کی اور حکومت کو ہر ایسے اقدام سے باز رہنے کا عندیہ دیا جس کی وجہ سے جنوب میں حکومتی معاملات مسلمانوں کے ہاتھ میں چلے جائیں۔ مذاکرات کے نتیجے میں خود مختار مسلم منڈاناؤ کے نام سے ۵ صوبوں پر مشتمل ایک نیم خود مختار ریاست قائم کی گئی جو حقیقت میں خود مختار نہ تھی۔ اس کے نتیجے میں ایم این ایل ایف نے ہتھیار رکھ کر جمہوری عمل میں شرکت کا اعلان کیا، اس کے اراکین کو پولیس اور فوج میں بھرتیاں دی گئیں اور جماعت کے سربراہ نور مسوری اس نئی انتظامی ریاست کے گورنر نامزد کر دئیے گئے۔ ایم آئی ایل ایف، ابو سیاف گروپ اور خود ایم این ایل ایف کے بعض حلقوں نے ان مذاکرات کو تسلیم کرنے سے انکار کر تے ہوۓ حقیقی اسلامی خود مختاری کا مطالبہ کردیا۔ ابو سیاف گروپ نے مسوری کو ان مذاکرات پر غدار قرار دیتے ہوۓ اسلامی امارت کے لیے جد و جہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔     جبکہ اس وقت مذاکرات میں شریک ایم این ایل ایف کے کئی اراکین اب تک حکومت کی طرف سے وعدوں کے پورا نہ کیے جانے پر شاکی نظر آتے ہیں۔  دو لاکھ کے قریب مسلمانوں نے ان مذاکرات کے خلاف ریلی نکالی اور مکمل اسلامی خود مختاری کا مطالبہ کیا۔
لہٰذا اس مذاکراتی ڈھونگ کے بعد بھی حالات جوں کے توں رہے۔ اب حکومت نے ایم آئی ایل ایف کے ساتھ مذاکرات کے دور کا آغاز کیا۔ اس دوران مسلمانوں اور فلپائنی فوج میں جھڑپوں اور مسلمان علاقوں میں امریکی تعاون سے فلپائن کے فوجی آپریشنوں کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ ۱۹۹۸ء کے انتخابات میں نائب صدر جوزف استرادا فلپائن کے صدر بن گئے۔ ۲۰۰۱ء میں حکومت نے امریکہ کی مدد سے بڑا فوجی آپریشن کیا جس کے بعد حالات مزید بگڑ گئے۔لیکن اسی سال ملائیشیا نے ایم آئی ایل ایف کو مکمل آزادی کے مطالبے سے دستبردار کروا لیا ساتھ ہی اس نے کسی بھی قسم کی جنگی حکمتِ عملی سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ ان اقدام سے یہ جماعت بھی تقریباً ایم این ایل ایف والی پوزیشن پر آکھڑی ہوئی اور جس مقصد کے لیے اتنی قربانیاں دی گئیں وہ تشنہ رہ گیا۔ نتیجتاً حکومت کے ساتھ ان کا جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔  لیکن بعد ازاں حالات پھر بگڑ گئے۔ ۲۰۰۳ء میں  ایم آئی ایل ایف کے سربراہ سلامت کا انتقال ہو گیا ، اس کے بعد الحاج مراد ابراہیم سربراہ بناۓ گئے۔ ۲۰۰۸ء میں دونوں فریقین کے درمیان معاہدہ طے پاگیا لیکن اسے سپریم کورٹ نے  غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس کے نتیجے میں مذاکرات کا عمل معطل ہو گیا۔   ۲۰۱۱ء میں پھر ملائیشیا کی مداخلت سے تین سال سے معطل مذاکرات بحال ہوۓ۔ جنوبی فلپائن کی تحریکِ آزادی کے ان چالیس سالوں میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔  مغربی اعداد و شمار کے مطابق وہاں مسلمانوں کی کل تعداد ۵۰ لاکھ ہے۔
فلپائن کے صدر ایکونیو کے ساتھ طے پانے والے حالیہ معاہدے کی رو سے منڈاناؤ میں فلپائن کی مرکزی حکومت کے تحت  بنگسا مورو کے نام سے۵ جنوبی صوبوں اور چھ شہروں پر مشتمل پہلے سے وسیع نیم خود مختار مسلم ریاست کا قیام عمل میں لایا جاۓ گا  جسے اپنے داخلی وسائل یعنی قدرتی گیس وغیرہ پر دسترس حاصل ہو گی۔ بدلے میں ایم آئی ایل ایف اپنی مسلح قوت میں ۲۰۱۶ء تک  بتدریج کمی کرے گی( یعنی جس اسلحہ اور جہاد کی وجہ سے حقوق کا اعتراف کیا گیا اسی کو چھوڑنے پر رضامندی)، جمہوریت و انسانی حقوق کی بحالی کو یقینی بنایا جاۓ گا اور مسلمانوں کے لیے شرعی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ معاہدے کی کئی شقیں تا حال زیرِ بحث ہیں اور ان کا اعلان بعد میں ہوگا۔جبکہ معاہدے کا اطلاق ۲۰۱۶ء میں صدر ایکوینو کی مدت صدارت کے خاتمے کے ساتھ ہوگا۔ ریاست کی حتمی سرحدات کا تعین صدارتی انتخابات سے قبل ریفرنڈم کے ذریعے کیا جاۓ گا۔ معاہدے کے عوامل میں سے ایک بڑا عامل مسلسل جنگ کے باعث فلپائن کی گری ہوئی معیشت ہے۔ جس کی وجہ سے یہ ملک امریکی امداد پر گزارا کر رہا ہے۔ فلپائن کے حکمران سمجھتے ہیں کہ اگر یہاں امن قائم ہو جاۓ تو فلپائن، ملائیشیا اور جاپان کی طرح بہت جلد ترقی کر سکتا ہے۔
ابھی معاہدے کی عملی تطبیق میں چار سال کا عرصہ باقی ہے۔ اس دوران کے حالات کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ گذشتہ عرصہ میں بہت دفعہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوۓ یا حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے توڑے گئے۔ لیکن اگر یہ سمجھا جاۓ کہ اسی طرح سب کچھ طے پا جاۓ گا تو یہ معاہدہ مسلمانوں کی جدّو جہد کے نتیجے میں ان کے حقوق کا اعتراف تو ہے لیکن کامل آزادی نہیں، جس کے لیے تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ پھر انسانی حقوق کے نام پر عالمی ورلڈ آرڈر کو تسلیم کرنا اور جمہوری نظام کو نافذ کرنے کی شق خود مسلمانوں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان سب سے بڑھ کر خود کو غیر مسلح کرنا مستقبل میں ایک بڑی غلطی ثابت ہو سکتا ہے۔کیونکہ اس طرح مسلمان خود اپنے ہاتھ سے وہ قوت ضائع کر بیٹھیں گے جس کی بنا پر فلپائن کی عیسائی حکومت اس سطح تک آنے پر مجبور ہوئی۔ 
اس طرح دیکھا جاۓ تو یہ معاہدہ ۱۹۹۶ء میں ایم این ایل ایف کے معاہدے سے زیادہ مختلف نہیں جس سے اختلاف خود آئی ایل ایم ایف نے بھی کیا تھا۔انہی وجوہات کی بنا پرایم آئی ایل ایف ہی میں سے بعض گروہوں اور ابو سیاف گروپ نے اس معاہدے سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوۓ لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ معاہدے کا وقت اور مشرقِ بعید کی حالیہ سیاست بذاتِ خود اس معاہدے کی صحت پر ایک سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اس وقت چینی سمندر کا علاقہ سیاسی طور پر امریکہ اور چین کے مابین نہایت گرم ہے۔ دونوں قوتیں علاقے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہیں۔ متنازع جزائر کی طرف پیش قدمیاں کی جا رہی ہیں۔ ایسے موقع پر امریکی اتحادی فلپائن میں داخلی طور پر امن خود امریکہ کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ جنوبی فلپائن میں  پلوان کے مسلم جزیرے جو آئندہ مسلم ریاست کا جزو بھی ہے، میں فوجی بیس کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تا کہ یہاں سے جنوبی چینی سمندر کی نگرانی کر سکے۔
بہرحال اس وقت مسلم دنیا افغانستان میں امریکہ کی شکست کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے عالمِ اسلام میں جا بجا نفاذِ شریعت اور قیامِ خلافت کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ یقیناً امریکہ کی شکست کے  بعد مسلم دنیا ایک بڑی مثبت تبدیلی کا سامنا کرے گی۔  جنوبی فلپائن کے مسلمان بھی صلیبی اتحاد کے خلاف عالمِ اسلام کے مجاہدین کی اس فتح سے بہرہ ور ہوں گے ، یہ خطہ فلپائن کے تسلط سے مکمل طور پر آزاد ہو گا اور یہاں نام نہاد اسلامی حقوق اور مغرب کی عطا کردہ کفریہ جمہوریت کے بجاۓ نبی اکرمﷺ کے لاۓ ہوۓ خالصتاً شرعی نظام کا نفاذ ہوگا، ان شاءاللہ۔  

0 Responses to “مسلمانانِ جنوبی فلپائن:صلیبی استعمار کے خلاف جہد و مزاحمت کی علامت”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ