جمعرات، 23 جولائی، 2015
ہم چین سے کیوں جنگ لڑ رہے ہیں؟
محمودہ بیومی ارومچی
مشرقی ترکستان، چین
میں مسلم اقلیت پر مشتمل خطے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ چین کے مقبوضات میں سے
ایک اسلامی مستقل شناخت رکھنے والے وسیع
خطے کا نام ہے۔ سنکیانگ جو اپنی اسلامی شناخت کو بچانے کے لیے کوشاں ہے تو یہ چین
کے خلاف بغاوت نہیں بلکہ غا صب ملک کے قبضے سے آزادی پانے کی جدوجہہ ہے۔ اقوام
عالم میں یہ ایک مفتوحہ قوم کا تسلیم شدہ حق ہے اور اسلامی اصطلاح میں جہاد کہلاتا
ہے۔
گویا
مشرقی ترکستان قصۂ پارنیہ ہے۔ مسلم اُمہ کے اذہان سے محو ہوجانے والے کاشغر کا
خطہ۔ امت مسلمہ پر پے در پے ایسے مصائب آئے ہیں کہ ان میں گھر کر کتنے ہی مسائل
اپنی طرف توجہ ہی مبذول نہیں کرواسکے۔انہی فراموش کردہ مسائل میں مشرقی ترکستان کا
بھی شمار ہوتا ہے جو چین کے جابرانہ تسلط میں اپنا اسلامی تشخص گم کرتا جار ہا ہے۔
چین گزشتہ کئی سالوں سے مشرقی ترکستان کے اسلامی شناخت پر منبی تاریخ ورثے کو
مٹاتا جارہا ہے۔ چین نے اس علاقے پر قبضہ جما کر اُسے سنکیانگ
کے نام سے اپنا ایک صوبہ(شینگ) قرار دے دیاہے۔ چین کے قبضے سے لے کر آج تک اس
غاصبانہ فعل کے خلاف عالم اسلام سےکوئی آواز نہیں اٹھی ہے۔ مشرقی ترکستان میں
اسلامی تشخص کو مٹانے کے لیے چین ہر غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدام کر رہاہے،
اپنے مذموم مقاصد کے لیے چین مخلوط تربیتی پروگرام ترتیب دیتا ہے تاکہ وہاں
بداخلاقی اور زناکاری کو فروغ حاصل ہوا اور اسلام مرد و زن کو جس اعلیٰ اخلاق کی
تعلیم دیتا ہے اس کا بر سر عام تمسخر اڑایا جاسکے۔ مقامی مسلمان قائدین نے جب ایسے
تربیتی پروگرام کے خلاف آواز بلند کی تو چین نے ساڑھے تین لاکھ سے زائد مسلمانوں
کو قتل کردیا۔ ان قتل ہونے والے تعلیم یافتہ قائدین میں چند نامور نام بھی تھے۔
جنہوں نے ترکستان میں قربانی کی داستانیں رقم کی ہیں، ان میں عبد الرحیم عیسٰی،
عبدالرحیم سیری اور عبدالعزیز قاری جیسے نام شامل ہیں۔ دو کروڑ کی آبادی پر مشتمل
مشرقی ترکستان کے اسلامی تشخص کو مٹانے کے لیے اور بالخصوص عقیدہ اسلام کو مسخ
کرنے کے لیے چین نے کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ہے۔
یہاں کے
مسلمان چین جیسے دیو ہیکل ملک سے اپنے اسلامی تشخص کو بچانے کے لیے تنہا ہی بر
سرپیکار رہتے ہیں۔ یہاں بسنے والے مسلمان یہ حق رکھتے ہیں کہ دوسر ے ممالک میں
بسنے والے مسلمان ان کی تاریخ، ثقافت اور جہادسے روشناس ہوں اور دنیا میں ان پر
ہونے والے جوظلم اور غاصبانہ قبضہ کیا گیا
ہے اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک ہنستا بستا مسلم آبادی
والا خطہ خاموشی سے چین کے قبضے میں چلا گیا۔ آپ کو نقشے میں مشرقی ترکستان نامی
کوئی ملک نہیں ملے گا۔ مشرقی ترکستان سیاسی لحاظ سے سنکیانگ ہے جو چین کے نقشے میں
آپ کو ملے گا۔ متحدہ ترکستان کو ہتھیانے کے لیے روس اور چین کے مابین بار ہا چپقلش
رہی ہے بالآخر دونوں نے متحدہ ترکستان کو تقسیم کرلیااور مغربی ترکستان پر روس کا
قبضہ اور مشرقی ترکستان پر چین کا قبضہ بلا کسی بین الاقوامی مداخلت کے قبول کر
لیا گیا۔ مشرقی ترکستان رقبہ کے لحاظ سے پاکستان سے بڑا ہے ۔ اس کی آبادی دو
کروڑسے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور مسلمان واضح ترین اکثریت میں ہیں۔ مشرقی ترکستان
کا دارالحکومت کاشغرہے جسے قتیبہ بن مسلم باہلیؒ نے فتح کیا تھا۔ اُس زمانے میں
ترکستان کا اسلامی شناخت پر مشتمل نیلے رنگ کا پرچم تھا جس میں رو چاند تارا چمکتا
دمکتا نظرآتا تھا۔
۱۹۵۴ء سے
ہی چین نے مشرقی ترکستان کو کئی خطوں میں تقسیم کردیا تھا اور شہروں اور قصبوں کے
نام بھی تبدیل کردیے تھے۔ ابتدائی سالوں میں مساجد مقفل ہوا کرتی تھیں لیکن بعد
میں حکومت کی کڑی نگرانی میں مساجد کھلنے کی کوششیں کامیاب ہو سکیں۔
ترکستانی
مسلمان چین کے اس قبضے سے کبھی مطئمن نہیں ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ ترکستان میں چین
سے آزادی کی تحریکیں اٹھتی رہتی ہیں ۔ چین کا پہلا قبضہ ۱۷۶۰ء میں ہواتھا۔ ۱۸۶۳ء
میں آزادی کی پرزور تحریک اٹھی اور اس نے مشرقی ترکستان کو واگزار کرا لیا۔ یعقوب
خان نے عثمانی خلیفہ سلطان عبد العزیز خان کی بیعت کا اقرار کیا۔ روس اور چین وسطی
ایشیا میں بھلا کسی آزاد مسلم اسلامی ملک کو کب گوارا کرتے تھے۔ چنانچہ محض تیرہ برس
بعد چین نے مشرقی ترکستان پر قبضہ کرلیا۔ ترکستان کی تاریخ کے مطابق امیر المومنین
امیر معاویہؓ کے دور میں ہی اہل کاشغر اسلام سے شناسائی حاصل کرچکے تھے۔ عبد
الکریم صادق بوگرا خان حاکم ترکستان کے قبول اسلام کے ساتھ ہی ۱۹۶۰ء میں اسلام
پورے ترکستان میں پھیل گیا تھا بلکہ وسطی چین کی طرف دعوت اسلام پہنچانے کا فریضہ
بھی ترکستان نے انجام دیا تھا۔ عربی زبان میں دینِ اسلام کی تعلیم کا رواج بھی اسی
زمانے میں ہوا تھا۔
ترکستان
کے مسئلے کو بین الاقومی سطح پر اٹھانا قطعاً خلاف ضابطہ نہیں ہے اور نہ ایسا
سمجھنا چاہیے، مشرقی ترکستان ایک اختلافی مسئلہ ہے جس پر چین کا قبضہ چلا آرہا ہے
۔ مشرقی ترکستان ، چین کا صوبہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا اسلامی ملک پر چین نے قبضہ
کیا ہے اور یہاں کی مسلم آبادی کوکسی صورت میں چین کی اقلیت قر ار نہیں دیا جا
سکتا۔ مشرقی ترکستان کے مسلمان کبھی اس قبضے سے مطمئن نہیں ہوئے اور برسوں سے اپنے
اسلامی تشخص کے احیاء کے لیے جہاد کر رہے ہیں اور قربانیوں کی داستان لکھتے چلے
جارہے ہیں۔ اس طویل جہاد میں اب تک دس لاکھ نفوس قربانی دے چکے ہیں ، جہاں مغربی
ترکستان روس کے تسلط سے چھٹکارا پا کر آزاد ہوچکا ہے وہاں مشرقی ترکستان بھی پیچھے رہنے والا نہیں کیونکہ یہ ایک ہی خطہ ہے
جسے روس اور چین نے اپنے درمیان تقسیم کررکھا تھا
مشرقی ترکستان کے مسلمان ابھی تھکے نہیں اور نہ ہی امت مسلمہ کی ہمدردیوں
سے مایوس ہیں۔ اُن کی مبارک جدوجہہ اسلامی مملکت کے قیام تک جاری و ساری ہے۔ان شاء
اللہ
مشرقی ترکستان میں تحریک جہاد کی شمع بجھائی نہیں جاسکی،
۱۹۳۱ء میں مشرقی ترکستان کا بیشتر حصہ واگزار کرالیا گیا تھا۔ ۱۹۳۳ء میں مشرقی
ترکستان میں اپنی آزادی کا اعلان کردیا تھا اور کاشغر کو دارالحکومت قرار دیا گیا
مگر روس چین گٹھ جوڑ سے یہ آزادی برقرار نہ رہ سکی۔ ایک مرتبہ پھر ۱۹۴۴ء میں دو
صوبے آزارکرالیے گئے اور ایلی کو صدر مقام قر ار دیا گیا۔ مشرقی ترکستان کی اِ س
چھوٹی سی مملکت نے باقی علاقے بھی آزاد کرانے میں پیش رفت جاری رکھی،لیکن روسی اور
چینی تعاون پھر اس کی کامیابی میں آڑے آیا ، دوسری طرف اسلامی ممالک سے اس تحریک
کے لیے کوئی آواز اور حمایت نہ مل سکی اور نہ ہی اس مسئلہ کو اسلامی ممالک نے کسی
بین الاقوامی فورم پر اٹھایا، یہی وجہ ہے کہ مشرقی ترکستان کی تاریخ اور جہادی
سرگرمیاں سے مسلمانوں کی کثیر تعداد نا واقف ہے۔
اگرچہ
مسئلہ فلسطین ، عراق اور افغانستان جیسے گھمبیر مسائل کے بارے میں مسلمانوں کے
ذرائع ابلاغ بہت کچھ لکھتے رہتے ہیں اور ابلاغ عامہ میں تقریباً ہر روز ان کا
تذکرہ ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے مشرقی ترکستان مسلمانوں کے ابلاغ عامہ میں کوئی
خاص جگہ نہیں پاسکا۔ اس مسئلے کوسیاسی اور ابلاغ عامہ کی سطح پر فراموش کردینے کا
نتیجہ اس طرح نکلا ہے کہ مسلمانوں کا ایک وسیع قطعہ اراضی چین نے ہتھیا کر وہاں کے
مسلمانوں کو باقی اُمت سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں کی سرزمین اور وہاں کے
باشندے ہرگز اس لائق نہیں کہ اُن کی شناخت آہستہ آہستہ چین کے الحاد میں تحلیل
ہونے کے لیے چھوڑ دی جائے۔
واقعہ یہ
ہے کہ مشرقی ترکستان میں اسلامی شناخت کو ختم کرنے کے لیے چین ایک طرف تو وہاں چین
کی غیر مسلم اقوام کو لا کر بسارہا ہے تاکہ
مسلم آبادی غالب ترین اکثر یت نہ رہ سکے یا کم از کم بڑے شہروں کی حد تک ایک
معتدبہ تعداد غیر مسلم باشندوں کی دکھلائی جاسکے اور دوسری طرف اسلامی عقیدے کو
مشرقی ترکستان کے مسلمانوں کے ذہن سے محو کرنے کے لیے مختلف حربے بھی استعمال کر
رہا ہے اور تیسری طرف روس کی طرح چین بھی یہاں کی معدنی اور زرعی پیدوار کو نچوڑ
کر دوسرے صوبوں میں لے جاتا ہے۔
مشرقی
ترکستان کے معدنی وسائل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں ۱۲۱ اقسام کی
معدنیات پائی جاتی ہیں۔ کم و بیش ۵۶ کانیں سونے کی دھات حاصل کرنے کے لیے چین کی
سرپرستی میں شبانہ روز کام کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں معدنی تیل یورینیم ، لوہا اور
سیسہ بھی کثرت سے پایاجاتا ہے۔ خوردنی نمن اس کثر ت سے پیدا ہوتا ہے کہ کل عالم کو
ایک ہزار سال تک مہیا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ حلال جانوروں کی ۴۴ انواع پائی
جاتی ہیں۔ مشرقی ترکستان کی آبادی ایک ہی نسل اور ایک ہی تاریخ رکھنے والی آبادی
پر مشتمل ہے۔ بنا بریں صدی پہلی صدی کے اختتام تک کاشغر سمیت پوری آبادی اسلام میں
داخل ہوگئی تھی۔ یہ سنی العقیدہ ہیں اور حنفی مذہب رائج ہے۔ اگر ہمیں اپنی تاریخ
پڑھنے کا موقع ملے تو ہمیں اپنے علمی اثاثے سے معلوم ہوگا کہ وسطی ایشیا کی اقوام
اتراک کہلاتی ہیں اور اسی وجہ سے اس علاقے کو ترکستان کہا گیا ہے ۔ ترک اقوام نے
اسلام کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں اُس سے ہم خوب واقف ہیں۔ ترک اقوام اسلامی
اُمت کا ایک مستقبل جز و لاینفک ہیں۔ ترکوں کی ان خدمات میں ماضی قریب تک مشرقی
ترکستان کا ایک فعال کردار رہا ہے اگرچہ یہ کردار ہمارے ہاں کوئی بڑی پذیرائی حاصل
نہیں کرسکا جس کی وجہ ابلاغ عامہ کی خیانت ہے اور اب بھی وہاں اسلامی سرگرمیاں ختم
نہیں ہوئی بلکہ برابر زور پکڑ رہی ہیں۔ یہ
درست ہے کہ اُمت مسلمہ گونا گوں مسائل میں گھری ہوئی ہے لیکن اگر یہ اُمت ایک جسم
کی مانند ہے تو پھر ہر زخم اپنا زخم ہے
اور ہر زخم مرہم کا متقاضی ہے۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 Responses to “ہم چین سے کیوں جنگ لڑ رہے ہیں؟”
ایک تبصرہ شائع کریں