بدھ، 16 دسمبر، 2015

تمہاری زلف میں آئی تو حُسن کہلائی



30 اکتوبر2006ء، باجوڑ ایجنسی کا گاؤں شِنگائی۔۔۔ پاکستانی فوج کے تعاون سے امریکی سی آئی اے نے بغیر پائلٹ کے ڈرون طیاروں سے ایک مدرسے پر میزائل حملہ کیا۔ اس حملے میں کئی طلبائے علمِ دِین اور حفاظِ قرآن سمیت بیاسی بچے شہید ہو گئے۔ اخبارات و دیگر ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستانی فوج نے ابتداً اس حملے کی ذمہ داری قبول کی، تاکہ ان کے امریکی آقاؤں پر کوئی حرف نہ آئے مگر بعد کی اطلاعات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ ایک امریکی ڈرون حملہ تھا۔
8 جولائی 2008ء، اسلام آباد کی مرکزی جامع لال مسجد اور اس سے ملحقہ جامعہ سیّدہ حفصہؓ۔۔۔ پاکستانی فوج نے آپریشن سائیلنس نامی فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ پاکستانی فوج کے رسمی اعداد(official figures) کے مطابق اس آپریشن میں پاکستانی فوج اور رینجرز کے60,000اہلکاروں اور اسپیشل سروسز گروپ کے 164کمانڈوز نے شرکت کی۔ اس آپریشن کے نتیجے میں تقریباً 1000مدرسے کی عالمات و طالبات شہید ہوئیں، جن کی لاشوں کو بعد میں سفید فاسفورس پھینک کر جلا دیا گیا۔ شاید یہ بات یہاں ذکر کرنا اہم ہو کہ مدرسے کی یہ طالبات نہتّی تھیں اور پاکستانی فوجی، رینجرز اور کمانڈوز یقیناً غیر مسلح نہیں تھے۔ 


2013 ء، گلشنِ اقبال کراچی۔۔۔ نامعلوم افراد کی جامعہ احسن العلوم پر فائرنگ۔ اس حملے میں سات علماء و طلبائے دین شہید ہو گئے۔ مختلف ذرائع کے مطابق ان نا معلوم افراد کی سیاسی وابستگی متحدہ قومی موومنٹ سے اور مذہبی وابستگی رافضی مسلک سے ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ نا معلوم افراد مفتی نظام الدین شامزئی سے لے کر علامہ علی شیر حیدری اورمولانا اسلم شیخوپوری سے مفتی عبد المجید دین پوری رحمہم اللہ کے قتل میں بھی ملوث ہیں۔
16 دسمبر 2014ء، پشاور کی ورسک روڈ۔۔۔ آرمی پبلک اسکول پر حملہ۔ اس حملے میں ایک سو بتیس بچے جاں بحق ہو گئے۔تحریکِ طالبان پاکستان کے ایک گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہی حملہ اوراس حملے پر تاثرات موضوعِ سخن ہیں۔
اس روز راقم السطور افغانستان میں، ساری دنیا کے کفر سے بر سرِ جہاد مجاہدینِ کے ایک مرکز میں تھا، جس میں تقریباً تیس کے قریب مجاہدساتھی تھے۔ ہم نے پشاور سانحے کی خبر ریڈیو پر سنی۔ ہمارے دِلوں کی وہی کیفیت ہو گئی جو استاد اسامہمحمودنے اپنی رسمی پریس ریلیزمیں بیان کی، اللہ ان کی ہر شر سے حفاظت فرمائے۔ایسا کیوں ہوا؟
اس لیے کہ مجاہدین،محض سپاہی نہیں ہیں۔بلکہ اللہ کے سپاہی، اللہ کے راستے کے سپاہی، مجاہد فی سبیل اللہ۔ مجاہدین قتل کرتے ہیں، دشمن کو کاٹتے ہیں، اس کا خون بہاتے ہیں مگر اس لیے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ مجاہدین ناحق قتل کرنے والوں کو روکتے ہیں، ان کو اپنے بھائیوں اور بچوں کو کاٹنے نہیں دیتے، مجاہدین ناحق خون بہانے والوں کو روکتے ہیں اس لیے کہ یہ بھی اللہ کا حکم ہے۔ اس لیے کہ مجاہدین اہلِ ایمان ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں اور قرآن مجاہدین  کے بارے میں فرما رہا ہے: اشداء علی الکفار، کفار پر شدید اوررحماء بینھم، آپس میں شفیق۔
ہمارے دِل اس روز واقعی ڈوبے جا رہے تھے۔ ہمارے دِلوں کو ڈوبے ایک سال بِیت گیا ہے۔ مجھے اس ماں کے الفاظ آج بھی یاد ہیں جس کا بچہ اس روز قتل ہوا۔ میں اس ماں کے ساتھ ہوں، اس کا درد جانتا ہوں لیکن یہ بات آدھی ہے۔
بقیہ یہ ہے کہ میں باجوڑ میں مارے جانے والے بیاسی بچوں کی ماؤں کے ساتھ بھی ہوں، جامعہ حفصہؓ کیایک ہزار طالبات کی ماؤں کے ساتھ بھی، مشرقی پاکستان میں سنہ ۱۹۷۱ء کی سولہ دسمبر اور اس سے پہلے جن بیٹیوں کی عزتیں لٹیں اُن کی ماؤں کے ساتھ بھی، جو سہاگ لٹے ان کی ماؤں کے ساتھ بھی اور پشاور میں مارے گئے ۱۳۲ بچوں کی ماؤں کے ساتھ بھی۔ یہ ہے پوری بات۔یہ justification نہیں ہے، صرف ایک اور جانب توجہ ہے۔
-------------------------
 جذباتیت، exploitation، sensationalism اور لوگوں کو استعمال کرنا ایک قبیح حرکت ہے۔
سوشل میڈیا کا دور ہے، تھری جی اور فورجی کا زمانہ ہے، اب ہر چیز چند گھڑیوں میں دنیا کے اِک کونے سے دُوجے کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ آپ نے بھی وہگانا سنا ہو گا؛ ’’بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے‘‘۔ چودہ دسمبر 2015ء کووہ گانا بھی سن چکے ہوں گے؛ ’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘۔ ایسے گانوں، اشتہارات، ڈراموں، فلموں، کالموں، بلاگوں، تصویروں، تقریروں اور بیانات ہی کو exploitation اور sensationalism کہا جاتا ہے۔
-------------------------
جاں کی اماں پاؤں تو اک سوال ہے میرا آپ سے،ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ صاحب، جن کے خاندان کی وابستگی پاکستان کی ایک بڑی دینی جماعت سے ہے۔
کیا 16 دسمبر 1971ء سے پہلے مارے جانے والے بنگالی بچے، جن کیعزتیں لُٹ گئیں وہ بہنیں، بیٹیاں، مائیں کیا پاکستانی نہیں تھیں؟
باجوڑ میں مارے جانے والے بیاسی بچے پاکستانی شہداء نہیں تھے؟
لال مسجدکے اسلام پسندوں کو چھوڑیے، وہاں ماری گئی بچیاں پاکستانی نہیں تھیں؟
وہاں کے لیے یہsensationalism نہیں نظر آیا؟
جنرل صاحب، جواب میں نے آپ کی آنکھوں میں پا لیا ہے! آپ کے چہرے کی شرمندگی اور لبوں کا سکوت جواب دے رہا ہے۔ آپ کا ذہنی انتشار آپ کی body language سے عیاں ہے۔ آپ کی حرکات و سکنات چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ۷۱ء، باجوڑ، جامعہ حفصہؓ اور آرمی پبلک اسکول کے بچے سب پاکستانی تھے، سب مسلمان تھے۔
پھر سوال یہ ہے کہ یہ جذباتیت اور sensationalismپر مبنی گانے، اشتہار،ڈرامے، فلمیں، کالم،بلاگ، تصویریں، تقریریں اوربیانات وغیرہ سانحۂ پشاور ہی پر کیوں؟
جنرل صاحب کا سکوت جواب دے رہا تھا۔ ان کا سکوت کہہ رہا تھا: مشرقی پاکستان، باجوڑ، لال مسجد، کراچی، وزیرستان اور بلوچستان والوں کے ہزاروں بچے ہم نے مارے ہیں، ان پر گانے کیسے بناتے؟
ان کے سکوت کا جواب سنتے ہی میں سمجھ گیا اور میں نے جنرل صاحب کو کہا؏
تمہاری زلف میں آئی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی
اور جنرل صاحب کے چہرے پر  پڑی جھریاں، سمٹ کر لفظِ شکست کی  ہئیت اختیار کر گئیں!

0 Responses to “تمہاری زلف میں آئی تو حُسن کہلائی”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ