جمعرات، 17 دسمبر، 2015

آفتاب کی سنہری کرن


یہ ۱۶ مئی ۲۰۱۰ء کی بات ہے۔ اتوار کا دِن تھا۔ چند مجاہد ساتھی، کُرم ایجنسی کی  ایک مسجد میں قیام کیے ہوئے تھے۔ اِن میں سے کچھ  تو مسجد کے اندرونی حصے میں لیٹے سَستا رہے تھے اور کچھ  برآمدے میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایسے میں معتصم باللہؒ بھائی نہانے کے لیے جا نے لگے۔ جاتے ہوئے آپ اپنی عطر کی شیشی، بطورِ امانت عیسیٰ بھائی کو تھما گئے۔ عیسیٰ بھائی نے یہ شیشی اپنی قمیض کی جیب میں رکھ لی۔
ساتھی دوبارہ خوش گپیاں کرنے لگے۔ ایسے میں ایک بھائی نے عیسیٰ خان سے کہا: ’’بھائی جان ذرا یہ عطر کی شیشی دکھایے گا‘‘۔ اِشارہ معتصم بھائی کی امانت رکھوائی عطر کی شیشی کی جانب تھا۔
’’بھائی جان! یہ امانت ہے، آپ کو نہیں دے سکتا‘‘، عیسیٰ خان بولا۔
’’بھائی میاں! فقط سونگھنے کے لیے مانگ رہا ہوں، لگاؤں گا نہیں!‘‘ ان بھائی نے وضاحت پیش کی۔
’’لیکن بھائی جان! یہ تو امانت ہے، میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا۔‘‘ عیسیٰ خان نے وہی بات دہرائی۔
’’بھئی سونگھنے سے کیا خیانت ہو گی اس امانت میں؟‘‘ دوسرے بھائی سمجھنے کے انداز میں بولے۔
جواباً عیسیٰ خان نے کہا:
’’بھائی جان واقعہ یہ ہے کہ۔۔۔
ایک دن خلیفہ عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ بیت المال  کے معائنے کے لیے تشریف لے گئے۔ بیت المال کی خوشبو آپ کی ناک میں پہنچی تو آپ نے اپنی ناک بند کر لی۔ لوگوں نے پوچھا: مَالَك؟ کیا ہوا؟ تو امیر المؤمنین نے فرمایا:
اخشیٰ ان یسالنی الله عزّ و جلّ یوم القیامة لم شممت طیب المسلمین فی بیت المال؟
مجھے خدشہ لاحق ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مجھ سے یہ نہ پوچھ لےکہ تم نے بیت المال کے اندر مسلمانوں کی خوشبو کیوں سونگھی تھی؟‘‘
یہ واقعہ سنایا اور میرا محبوب عیسیٰ خان  گویا ہوا:
’’لیجیے، آپ میرا عطر لگا لیں‘‘، یہ کہہ کر عیسیٰ خان نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ عطر نکالنے کی راہ میں رکاوٹ بنتی جالی والی ٹوپی پہلے نکالی۔ اس کے بعد پھر جیب میں ہاتھ ڈالا، عطر کی شیشی کا ڈھکن جیب ہی میں کھول لیا۔ جب عطر کی شیشی جیب سے باہر نکلی تو یہ دیکھ کر عیسیٰ خان حیران رہ گیا کہ اس کے ہاتھ میں موجود چیز، عطر کی شیشی نہیں بلکہ چینی ساختہ، چھوٹا شیطانی گرنیڈ تھا جس کا ڈھکن عطر کی شیشی سے ملتا جلتا ہی ہوتا ہے، اور وہ اسی کا ڈھکن بے دھیانی میں کھول بیٹھا تھا۔ یہ دیکھتے ہی عیسیٰ خان کے منہ سے نکلا: ’’اوہ۔۔۔ اللہ اکبر‘‘۔ اس خیال سے کہ میرے دیگر مجاہد بھائی اس سے زخمی یا شہید نہ ہوں، عیسیٰ خان اس گرنیڈ پر لیٹ گیا۔ لیٹتے ہی وہ گرنیڈ پھٹ گیا۔
مسجد کے اندرونی حصے میں موجود بھائی سمجھے کہ ڈرون نےمیزائل مارا ہے۔ لیکن باہر موجود ساتھیوں نے کہا کہ ڈرون نے میزائل نہیں مارا بلکہ گرنیڈ پھٹا ہے۔ یہ سنتے ہی اندر موجود محمود بھائی باہر آگئے۔ یہاں دیکھا تو عیسیٰ خان مسجد کی دیوار سے ٹیک لگائے نیم دراز  بیٹھاہے (اتنی دیر میں شاید دیگر بھائیوں نے اسے اٹھا کر بٹھا دیا یا وہ دھماکے کی شدّت کے باعث  اپنی جگہ سے اڑ کر مسجد کی دیوار کے ساتھ جا  گرا) ۔ عیسیٰ خان کے دونوں ہاتھ اُڑ چکے تھے اور پیٹ سے، شدید زخم کے باعث، اندرونی اعضاء باہر آ گئے تھے۔ اس جان کنی کی حالت میں عیسیٰ خان اپنے ربّ کی جانب متوجہ تھا اور زبان پر کلمۂ شہادت جاری تھا:
’’أشھد أن لّا اِلٰہ الّا اللہ و أشھد أنّ محمد رسول اللہ‘‘
عیسیٰ خان کو جلدی سے اٹھایا گیا اور ہسپتال لے جانے کے لیے گاڑی میں ڈالا گیا۔۔۔ مگر چند ہی لمحے بعد آفتاب کی یہ اُجلی کرن بجھ چکی تھی، اور  اپنے ساتھ ہمارے دِل بھی لے گئی تھی۔ جس روز مجھے اپنے محبوب کی شہادت کی خبر ملی اس روز مجھے سورج یوں محسوس ہوا گویا اس کو گہن لگ گیا ہو، اور کیوں نہ لگتا کہ اس کی ایک انوکھی کرن جو میرے دِل میں بستی تھی بجھ گئی تھی۔  اِنّا للہ و اِنّا اِلیہ راجعون، بلا شبہ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(القرآن)
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’شہید قتل کی صرف اتنی تکلیف محسوس کرتا ہےجتنی چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔‘‘ (رواہ ترمذی)

وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْسَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْوَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ

’’۔۔۔ اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے، اللہ اُن کے اعمال کو ہرگز اکارت نہیں کرے گا۔ وہ انہیں منزل تک پہنچا دے گا، اور اُن کی حالت سنوار دے گا، اور اُنہیں جنت میں داخل کرے گاجس کی انہیں خوب پہچان کرا دی ہو گی۔‘‘ (سورۃ محمد: ۴ تا ۶)

---------------------------------

شہادت کی رات، ۱۵ اور ۱۶ مئی ۲۰۱۰ء کی درمیانی شب عیسیٰ خان اٹھا اور اپنے ربّ سے مناجات میں مشغول ہو گیا۔ تہجد کی نماز ادا کی یہاں تک کہ فجر کا وقت ہو گیا۔ نمازِ فجر کے بعد طلوعِ شمس تک قرآنِ مجید کی تلاوت میں مصروف رہا۔ اس کے ساتھ موجود ساتھی ایک دو دن سے محسوس کر رہے تھے کہ عیسیٰ خان کا چہرہ ہمیشہ سے زیادہ خوبصورت ہوتا جا رہا ہے اور نورانیت آ رہی ہے۔ معتصم باللہؒ بھائی نے اسے دیکھ کر کہا کہ: بڑے چمکتے جا رہے ہو۔۔۔ کیا بات ہے؟
جو بات تھی وہ ایک دو دن میں ہی ظاہر ہو گئی۔۔۔ وہ جا رہا تھا۔۔۔ عیسیٰ خان جا رہا تھا۔۔۔ ربّ کی ملاقات کو۔۔۔ جنتوں کے محلوں کو۔۔۔ حورِ عِین سے بیاہے جانے کو۔۔۔ وہ جا رہا تھا۔۔۔ اور پھر چلا گیا۔۔۔ چہرے کی چمک، اس کی خوبصورتی، اس کی نورانیت میں اضافہ، اسی سفر کے واسطے تھا۔۔۔
جنہیں جنتوں کی تلاش تھی۔۔۔وہ اُنہیں میں سے ایک شخص تھا۔۔۔وہ کمال جس کا کمال تھا۔۔۔وہ کہ حُسن جس کا جمال تھا۔۔۔کہ وہ اپنی مثل ہی آپ تھا۔۔۔کہ وہ عارفِ لازوال تھا۔۔۔ اور اسی لیے تو۔۔۔مجھے اُس سے للہ پیار تھا۔۔۔!
 ---------------------------------
چینی ساختہ شیطانی گرنیڈ میں تین قسم کا حفاظتی نظام ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اس کا ایک رِنگ (ring)ہوتا ہے جس کے کھولے بغیر ڈھکن نہیں کھلتا۔ اس کو کھولنے  کے بعد ڈھکن کھلتا ہے اور پھر یہ گرنیڈ جھٹکا لگنے پر پھٹتا ہے۔ عیسیٰ خان نے جب، جیب سے جالی والی ٹوپی نکالی تو گرنیڈ کا رِنگ اس میں پھنسا ہوا تھا جس کے بعد ڈھکن کھولنا باقی تھا۔ جب گرنیڈ جیب سے باہر آیا تو اسے جھٹکا لگا جو اس کے پھٹنے کا سبب بنا۔
عیسیٰ خان اس گرنیڈ پر لیٹنے کے بجائے اس کو کسی اور سمت اچھال بھی سکتا تھا، مگر ایسے میں یہ دستی بم کسی اور کی جان لے لیتا اور یہی عیسیٰ خان کو گوارا نہ تھا۔ اس وقت اس اللہ کے بندے کو، اپنے مالک کی رضا اسی میں دِکھی کہ وہ اپنی جان تو ہار جائے مگر کسی دوسرے کو خراش بھی نہ آئے۔ شاید ایسے ہی کسی فعلِ مسلمانی پر اقبال مرحوم نے کہا تھا:
بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایت اندیشہ و کمالِ جنوں!
عیسیٰ خان کا جنازہ ایک اور قریبی جگہ پر لے جایاگیا اور وہیں کُرم ایجنسی کے ایک گاؤں میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔ بلاشبہ وہ مٹّی سعید تھی جہاں اس شہید کو دفنایا گیا۔
محمود بھائی اس سارے واقعے میں قریب ہی موجود تھے۔ تدفینِ شہید کے بعد جب آپ اسی مسجد میں لوٹے جو ہمارے عیسیٰ خان کا مشہد تھا تو وہاں موجود ساتھیوں نے آپ کو ایک عجیب کرامت کے واقع ہونے کی خبر دی۔ ساتھیوں نے بتایاکہ جس جگہ عیسیٰ خان شہید ہوا تھا وہاں اتنی خوشبو تھی کہ رات کو ساتھی سو نہ سکے تھے۔ محمود بھائی کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ ساتھی یونہی مبالغہ کر رہے ہیں اور اس بات پر زیادہ توجہ نہ دی۔
اس کے  بعد محمود بھائی ایک قریبی انصار کے گھر گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں وہاں بیٹھا تھاکہ ایک دم عجیب خوشبو آنے لگی۔ میری حیرت پر انصار بھائی بولےکہ یہ خوشبو اس چادر سے آ رہی ہے جو سامنے سے آتے بچے کے ہاتھ میں ہے۔ انصار بھائی کہنے لگے کہ یہ چادر آپ کے گرنیڈ سے شہید ہونے والے ساتھی کی ہے، اس چادر پر خون لگا ہوا تھا اور خوشبو اسی سے آرہی ہے، ہم نے اس چادر کو دھویا  ہے مگر خوشبو  اس کے باوجود آ رہی ہے۔
بعد ازاں جب ساتھی کُرم ایجنسی سے واپس روانہ ہوئے تو راہ میں نماز کا وقت آ گیا۔ نماز ادا کرنے کے لیے ساتھی چادریں بچھانے لگے کہ اچانک وہی خوشبو پھر سے آئی۔ محمود بھائی کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس خوشبو کا منبع جاننا چاہا تو وہ ایک  چادر سے پھوٹ رہی تھی ۔۔۔ جاننے پر معلوم ہوا کہ یہ وہی عیسیٰ خان کی چادر ہے۔ اس پر محمود بھائی نے اسے لپیٹ کر محفوظ رکھنے کی تاکید کی۔ بعد  میں وہ چادر کہاں گئی۔۔۔ خدا جانے۔۔۔ اس کے کھو جانے کا دکھ ہمیشہ رہے گا۔
عیسیٰ خان نے امانتاً موجود خوشبو کی حفاظت کی، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی چادر سے جنت کی خوشبو جاری کر دی۔۔۔ یہ تو اس کے عمل کی دنیا میں ایک نشانی تھی اور اس کے عمل کا نہ ختم ہونے والا اجر، ان شاء اللہ اس کے لیے  ربّ کی جنتوں میں محفوظ ہے۔ ہمارا  اس کے بارے میں یہی گمان ہے اور حسیبِ اصلی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہے۔
عیسیٰ خان حضرات براء بن مالک، عکرمہ بن ابی جہل  اور ضرار بن ازور رضی اللہ عنہم کے دستے کا سپاہی، ایک استشہادی مجاہد تھا۔ اس کی ہمیشہ خواہش رہی تھی کہ وہ اللہ کی راہ میں فدائی حملہ کرے۔عیسیٰ خان کی شہادت کے کافی عرصے بعد جب میں معتصم باللہ بھائی سے ملا، جو خود بھی شہید ہو چکے ہیں  تو انہوں نے بتایا کہ عیسیٰ خان انہیں خواب میں آیا تھا۔ اس نے خواب میں آکر کچھ اس مفہوم کی بات کی:
 ’’آپ سب کہتے ہیں کہ میں ایک حادثے کے سبب شہید ہوا ہوں حالانکہ میں نے تو فدائی کیاہے!‘‘
عیسیٰ خان نے خواب میں اپنے دل کی بات بیان کی۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اس شہید سے اس کی نیت کے مطابق ہی معاملہ فرمائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جو شخص سچّے دِل سے اللہ تعالیٰ سے شہید ہونے کی دعا مانگے تو اس کو اللہ تعالیٰ شہیدوں ہی کے مرتبے پر پہنچا دے گا، اگرچہ وہ اپنے بستر پر مرے۔‘‘ (صحیح مسلم)
اسی طرح سیرت کی کتابوں میں ان بدوی صحابیؓ کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے مالِ غنیمت میں سے حصہ ملنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے (اپنےحلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)فرمایا کہ میری تو خواہش ہے کہ مجھے اللہ کے راستے میں ’یہاں‘ تیر لگے ۔ جواباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ اپنے قول میں سچا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ یہی معاملہ فرمائے گا۔ بعد میں جب جنگ ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان بدوی صحابی کے پاس سے گزرے تو  آپ نے اس کو شہید پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا یہ وہی ہے؟ لوگوں نے جواب دیا ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ اس کا معاملہ سچا تھا، اللہ نے بھی اس کو سچّا کر دیا(زاد المعاد)۔
 ہمارا بھی  عیسیٰ خان کے بارے میں ایسا ہی گمان ہے۔
مجھے عیسیٰ خان کیوں محبوب تھا  اور شہادت کے بعد پہلے سے بھی زیادہ ہو گیا ہے بلکہ ہر دن محبت میں اضافہ ہی لے کر آتا ہے۔۔۔  اس کا جواب ایک عربی شعر میں سمایا ہوا ہے:
اَحـب الصــالحــین و لسـت مـنھم
لـعــلي اَن انـــــال بـھـم شــــفـاعۃ
’’مجھے نیک لوگوں سے محبت ہے، اگرچہ میں خود اُن جیسا نہیں ہوں،
 شاید کہ مجھے بھی ان کی شفاعت میں سے حصہ مل جائے۔‘‘

---------------------------------
عیسیٰ خان کا تعلق مشہدِ غازیانِ لال مسجد، اسلام آباد سے تھا۔ آپ کا اصل نام محمد خالد تھا۔  آپ سنہ ۱۹۹۱ء میں پیدا  ہوئے اور ابھی عمرِ عزیز کے اٹھارویں سال میں تھے کہ اس آیتِ قرآنی کے مصداق  انہوں نے اپنی جان کا سودا اللہ ربّ العزت سے کر لیا اور پھر دنیائے فانی کی طرف ایک نظر بھی نہیں بھری، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ اللّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيْهِ حَقّاً فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللّهِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

’’واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں سے اُن کی جانیں اور اُن کے مال اس بات کے بدلے خرید لیے ہیں کہ جنت اُنہی کی ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں، اور مرتے بھی ہیں۔ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کی ذمہ داری اللہ نے تورات اور اِنجیل میں بھی لی ہے، اور قرآن میں بھی۔ اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو؟ لہٰذا اپنے اُس سودے پر خوشی مناؤ جو تم نے اللہ سے کر لیا ہے۔ اور یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔‘‘ (سورۃ التوبۃ: ۱۱۱)
آپ اسلام آباد کے کئی ایک جدید سکولوں میں پڑھے تھے۔ مختصر سی عمر عیش و عشرت میں بسر کی تھی۔ عنفوانِ شباب میں کئی بری عادتوں میں مبتلا ہو گئے تھے۔ دِین زندگی سے  کہیں دُور دکھائی دیتا تھا۔ ان کی کمیونٹی عموماً دین بےزار اور ماڈرن لوگوں پر مشتمل تھی، جن کا شیوہ دنیا پرستی ہی تھا۔ مگر جب آپ کو دین پر عمل کی دعوت ملی تو ایک سلیم الفطرت دِل کی مانند آپ کا دِل بھی اس دعوت پر پگھل گیا۔ کمیونٹی تبدیل ہوئی گویا آپ کی زندگی بدل گئی۔  اس انقلابِ زندگی کے بعد آپ کا حال یہ تھا کہ کسی بھی معاملے کے بارے میں یوں پوچھا کرتے تھے کہ یہ کام  کیسا ہے؟ اگر جواب ملتا کہ اچھا ہے تو جواب ہوتا کہ اپنا لیا، اگر جواب ہوتا کہ برا ہے تو کہتے چھوڑ دیا اور بلا مبالغہ آپ کا عمل آپ کے قول جیسا ہی ہوتا تھا۔
میری  ان سے پہلی ملاقات اعجازٰ بھائی نے کروائی، وہ جمعے کا دِن تھا(پہلی ملاقات سے مراد ہے جہادی زندگی کی پہلی ملاقات ورنہ اس سے پہلے ملاقات تو تقریباً روزانہ کا معمول تھی)۔ مجھے اس سے پہلے معلوم نہ تھا کہ جمعے کے دن کے اعمال میں سورۃ الکھف کی تلاوت بھی شامل ہے۔ ملنے کے چند ہی لمحوں بعد محمد خالد بھائی بولے: ’’بھائی جان آج جمعہ ہے اور جمعے کے دن تو سورۂ کھف کی تلاوت کرنی چاہیے ناں۔۔۔؟!‘‘ میں ان کے ساتھ ہو لیا اور پھر ہم تینوں ایک مسجد میں گئے اور وہاں بیٹھ کر سورۃ الکھف کی تلاوت کی۔ وعظ و نصیحت کے متعلق حدیث شریف میں آتا ہے کہ ’’مومن کے مرنے کے بعد بھی جن اعمال اور نیکیوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ان میں سے ایک عمل وہ علم بھی ہے جو لوگوں کو سکھا کر پھیلایا گیا  (علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اس میں تدریس،وعظ، تصنیف وافتاء وغیرہ سب داخل ہیں)‘‘(سنن ابنِ ماجہ)۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اس عمل کو ہمارے محمد بھائی کے لیے صدقۂ جاریہ بنا دیں۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں اپنے صالح بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُوْلَئِكَ مِن َالصَّالِحِينَ ◌

’’ یہ لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر اِیمان رکھتے ہیں، اچھائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، اور نیک کاموں کی طرف لپکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار صالحین میں ہے۔‘‘ (سورۃ آلِ عمران: ۱۱۴)
ہمارے محمد خالد بھائی بھی(ہمارے گمان کے مطابق) ایسے ہی تھے۔ آپ خیرِ امت میں سےتھے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ پر کاربند رہتے۔ امر بالمعروف کےچند ایک واقعات جو میرے سامنے پیش آئے یا جن سے میں متعلق رہا  ان میں سے ایک تو سورۃ الکھف کی تلاوت کا مجھےکہنا تھا علاوہ ازیں آپ کا خوشبو اور امانت کا واقعہ خود فریضۂ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی   ایک اعلیٰ مثال ہے کہ جس کو ادا کرتےکرتے  آپ مقامِ شہادت سے سرفراز ہوئے۔ اسی طرح ایک بار ہم کسی جگہ جا رہے تھے کہ ایک آئس کریم والا سائیکل پر باجا بجاتا جا رہا تھا۔ آپ نے اسے روکا اور نصیحت کی کہ بھائی یہ باجا نہ بجایا کرو یہ بہت گناہ کا کام ہے۔ یونہی ایک بار ہم ایک بازار میں بیٹھےتھے ،اعجاز بھائی بھی ہمارے ہمراہ تھے کہ انہوں نے ہم دونوں سے کہا کہ اٹھو! اور سامنے والی دکان پر جا کر دکان والے کو منع کرو جس نے عورت کی تصویر لگا رکھی ہے۔ ہم اٹھے اور جا کر اس دکان والے کو اس کام سے منع کیا، الحمدللہ اس نے بات سنی (اللہ  کرے کہ وہ دکاندارشہید کی برکت سے اس فعل سے رک جائے، آمین)۔ اللہ تعالیٰ یہ ترغیب و ترہیب کرنے پر محمد خالد بھائی سے راضی ہو جائے۔
---------------------------------
محمد خالد اپنے دوستوں، بہن بھائیوں اور والدین کی حشر کے میدان میں شفاعت کا  حریص بن کر پہاڑوں کی جانب نکل آیا۔ دنیا کی محبت کی جگہ جنت کی محبت آ گئی۔ تمام غموں اور فکروں کو بھلا کر ، فکرِ آخرت کو اپنا لیا۔ دنیا کی ختم ہونے والی زندگی پر، جنت کی نہ ختم ہونے والی زندگی کو ترجیح دے دی۔نرم و دبیز صوفوں پر بیٹھنے کے بجائے سنگلاخ چٹانوں پر آ بسیرا کیا۔ آرام دہ گاڑیوں میں گھومنے والے نے پیدل سفر کو معمول بنا لیا۔ ایک وقت میں جس کے دسترخوان پر درجنوں اعلیٰ کھانے چنے جاتے تھے، روکھی سوکھی کھانے لگا۔  عمدہ خوشبوؤں میں بسنے اور مہنگے کپڑے زیبِ تن کرنے والا سادے سے دو کپڑے پہننے لگا تھا۔اس خوب رُ و نوجوان نے ، دنیا میں اپنے ہم عمر نوجوانوں کی طرح لڑکیوں کے پیچھے گھومنے کے بجائے اپنے دِل کو جنت کی پاکیزہ حوروں کی محبت سے بسا لیا تھا، وہ حور جس کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی (عورت) اہلِ دنیا کی جانب جھانک ہی لے تو ان کے درمیان کی ہر شے روشن اور اس کی مہک سے معطر ہو جائے، اور اس (جنت کی عورت) کے سر کا دوپٹہ  بھی دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔  ‘‘(صحیح بخاری)
محمد خالد کی عموماً کوشش ہوتی کہ وہ نماز اسلحہ (مثلاً کلاشن کوف یا جعبہ جس میں گولیوں سے بھرے میگزین، گرنیڈ و دیگر اسلحہ رکھا جاتا ہے ) لٹکائے یا پہنے بغیر نماز ادا نہ کرےکیونکہ کہ اس نے اس عمل کی  فضیلت سن رکھی تھی۔  حدیث شریف میں آتا ہے کہ تلوار ٹکا کر نماز پڑھنا، بغیر تلوار لٹکائے نماز پڑھنے سے ستّر (۷۰)گنا افضل ہے اور ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ سات سو (۷۰۰) گنا افضل ہے۔(مشاری الاشواق)
شہادت سے چند روز پہلے بھی جب محمد خالد کُرم ایجنسی کی جانب کشاں کشاں گیا تھا تو اس کو لے جانے والی چیز جہاد کی محبت ہی تھی۔ وہ وہاں بھی کارروائی ہی کے لیے گیا تھا۔ اس لیے گیا تھا کہ وہ جانتا تھا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ’’ایک صبح یا شام اللہ کے راستہ میں چلنا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سے افضل ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
وہ وہاں شہادت کی تڑپ میں گیا تھا۔ وہ عروسِ شہادت کو تلاشنے کے لیے گیا تھا۔۔۔ شاید اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ذہن میں بسائے گیا تھا کہ:
’’انسانی زندگی میں بہترین زندگی اس شخص کی ہے جو اللہ کی راہ میں  اپنے گھوڑے کی باگ پکڑ لے اور جب کسی خوف زدہ کی آواز یا کسی فریاد رس کی فریاد سنے تو عجلت کے کے ساتھ گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو جائے (اس خوف زدہ یا فریاد رس کی طرف دوڑتا ہوا چلا جائے) اور اپنی موت کو اس جگہ تلاش کرتا پھرے جہاں موت کا گمان ہو۔‘‘(صحیح مسلم)
محمد خالد کے مناقب، اس کی دینی حمیت و غیرت، امتِ مسلمہ سے ہمدردی، سلف کے اسوے کی پیروی، محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت  اور خدا وندِ قدوس  سے عشق اور اس کے راستے میں جہاد  اور پھر گردن کٹا دینے کی تڑپ۔۔۔  یہ سب خوبیاں ایسی ہی تھیں کہ جن میں ہوں تو وہ مالک کا انتخاب ٹھہرتے ہیں۔
یہ تو کم ہے کہ جو میں نے بیان کیا۔۔۔ سچ ہے کہ اگر کما حقہ لکھنے بیٹھوں تو دفتر  کم پڑجائیں مگر اس شہید کی سیرت بیان نہ ہو۔ آخر میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث نقل کرتا ہوں کہ جس میں شہید کے انعامات کا تذکرہ ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید کے لیے چھے انعامات ہیں:
1.     خون کا پہلا قطرہ  گرتے ہی اس کی بخشش ہو جاتی ہے
2.      وہ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے
3.     اسے عذابِ قبر سے محفوظ رکھا جاتا ہے اور قیامت کے دِن کی بھیانک وحشت سے مامون کر دیا جاتا ہے
4.     اس کے سر پر ایسے یاقوت سے جَڑا ہوا وقار کا تاج رکھا جاتا ہے، جو دنیا اور اس میں موجود ہر چیز سے بہتر ہے
5.     بہتّر (۷۲) حورِ عِین سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے
6.      اس کے ستّر (۷۰)  رشتے داروں کے معاملے میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔‘‘(سنن ترمذی)
7.     ایک دوسری روایت میں ایک ساتواں انعام بھی بیان ہوا ہے کہ شہید کو ایمان کا لباس پہنایا جاتا ہے۔(مشاری الاشواق)
اللہ تعالیٰ ہمارے محمد خالد کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے، اور اس کی برکت سے اس کے گھر والوں کا حامی ہو جائے، اس کے دوستوں پر رحم فرمائے،  والدین کے لیے دنیا و آخرت میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کرے اور مجھےاس کے ساتھ جنت کا مکین فرمائے،آمین ثم آمین یا ربّ العالمین۔
و آخر دعوانا ان الحمدللہ ربّ العالمین

0 Responses to “آفتاب کی سنہری کرن”

ایک تبصرہ شائع کریں

Urdu Tranlsation by ملحمہ بلاگ